سجاد جہانیہ کی ادھوری کہانیاں


فیس بک ایک ایسا سوشل میڈیا ہے جس نے نہ صرف سالوں سے بچھڑے ہوئے دوستوں اور گم شدہ لوگوں کو آپس میں ملایا ہے۔ بلکہ اس ذریعہ سے بہت سے اہل قلم، دانشوروں اور ادیبوں کے علاوہ ادب سے روشناسی ہوئی۔ میری فیس بک کے توسط سے جن اہل قلم سے جان پہچان ہوئی ان میں ایک بڑا نام سجاد جہانیہ کا ہے۔ ان سے تعارف ہوا تو ایسا لگا کہ برسوں سے ان سے جان پہچان ہے۔ چند دن قبل ہی ان کی تصنیف ادھوری کہانیاں ً موصول ہوئی اور حسب عادت دو دن میں ہی پڑھ بھی ڈالی۔

حیرت اس بات پر ہوئی کہ انہوں نے اپنی کہانیوں کے لئے ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جن کا تعلق ایسے عام سے طبقے سے تھا، جن کے بارے میں بہت کم لوگ لکھنا پسند کرتے ہیں۔ عموماً صحافی اور قلمکار اپنے ہم عصر ادیبوں، شاعروں اور بہت مشہور افراد پرہی لکھتے ہیں۔ مجھ جیسے آزاد کشمیر کے دوردراز دیہات میں بسنے والے کو ادھوری کہانیاں میں ملتان اور اس کے اردگرد بسنے والے افراد کے بارے میں پڑھ کر نہ صرف سرائیکی وسیب سے واقفیت اور تعارف ہوا بلکہ یہاں کے کلچر، روایات اور بود و باش سے آگاہی ہوئی۔

اپنے والدین سے پیارو محبت تو سب بچوں کو ہی ہوتا ہے لیکن سجاد جہانیہ کا اپنے والدین کو یاد کرنے کا انداز جداگانہ اور منفرد نظر آیا۔ ً ابا جی ً پڑھ کر ان کے والد کی بچوں کے لئے شفقت اور محبت محسوس کر کے بے ساختہ مجھے اپنے والد مرحوم کی یاد آ گئی۔ مائیں تو سبھی ایک جیسی ہوتی ہیں۔ ان کی والدہ کی طرح میری بے جی بھی بڑا پیار کرنے والی تھیں۔

مجھے ریڈیو سے دلچسپی بچپن سے ہی تھی جو ان دنوں تفریح سے زیادہ حالات حاضرہ جاننے کا واحد ذریعہ تھا۔ ً یہ ریڈیو ملتان ہے ً پڑھ کر بچپن کی ریڈیو کی ساری یادیں تازہ ہو گئیں۔ قیصر نقوی جیسے نابغہ روزگار افراد ریڈیو کا ایک بہت بڑا اور قیمتی سرمایہ تھے۔ یقیناً انہوں نے ملتان ریڈیو کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ ان جیسی شخصیات جنہوں نے ریڈیو پر تلفظ، الفاظ کی ادائیگی، زبان و بیان کی درستگی پر بہت زور دیا اب خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ انہوں نے درست فرمایا کہ اب ایف ایم ریڈیو ایک شتر بے مہار ہو چکا ہے۔

غم اتنے ہیں کہ تنہا محسوس نہیں کرتا کالا گوجراں کے الطاف خان کی نہیں بلکہ ان جیسے ہزاروں فلمی دنیا کے سینکڑوں لوگوں کی کہانی ہے۔ جوانی میں الطاف خان کی بہت ساری فلمیں دیکھی ہیں۔ سرخ و سفید رنگ اور پنجاب کا ایک گھبرو جوان جو اپنے جیسے سینکڑوں نوجوانوں کی طرح گھر سے فلمی ہیرو بننے نکلا۔ لیکن قسمت نے یاوری نہیں کی اور بہت سے دوسرے نوجوانوں کی طرح ایکسٹرا اور فائٹر بن گیا۔ فلمی دنیا کی چمک ایسی ہے جو ایک دفعہ دیکھنے والے کو ایسا چکا چوند کرتی ہے کہ وہ پھر کہیں اور جانے کے قابل نہیں رہتا۔ ان جیسے بہت سے افراد فلمی دنیا ہیرو بننے آئے اور چھوٹے موٹے کردار ادا کر کے گوشہ گمنامی میں اگلے جہاں کو سدھار گئے۔ کہاں جہلم سے انہوں نے زندگی کا سفر شروع کیا اور کہاں زندگی کا آخری عشرہ ملتان شہر کی ایک چھوٹی سی گلی میں کسمپرسی کی حالت میں گزار دیا۔ ان کی کہانی پڑھ کر جی بہت ملول ہوا۔

وہ کون ہے؟ ً جنوبی پنجاب کے کسی دیہات میں رہتی نوری کی کہانی ہے جس کو غنودگی اور خواب میں مستقبل میں ہونے والے واقعات کا علم ہو جاتا ہے۔ والدین بیٹی کی اس صلاحیت کو لوگوں سے چھپاتے پھرتے ہیں۔ بچی کی شناخت اور بستی کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔ اس کے والد کی قناعت پسندی داد کے قابل ہے جو اگر چاہتا تو آج کے جعلی پیروں کی طرح اس کو کاروبار بنا سکتا تھا۔ پچھلے سال ہم ٹی وی پر ایک ڈرامہ سیریل کشف دیکھنے کا اتفاق ہوا جس کا پلاٹ اسی کہانی پر بنایا گیا ہے۔ سیریل میں کشف میں دکھائی گئی بہت سی خصوصیات اور واقعات نوری کی کہانی سے مسابقت رکھتے ہیں۔ کشف سیریل ہم ٹی وی کے لئے عمران نے لکھی ہے۔ وہ کون ہے؟ سات سال قبل خبریں اخبار میں دو قسطوں میں

چھپی تھی۔ بڑی حیرت انگیز مماثلت ہے۔ اگر یہ نوری کے مرکزی خیال پر بنائی گئی ہے تو اس کا کریڈٹ ً وہ کون تھی؟ ً کے مصنف کو ملنا چاہیے تھا۔

میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ سب اہل قلم اور لکھنے والے بڑے مشہور اور اہم لوگوں کے انٹرویو ہی کیوں پیش کرتے ہیں۔ کبھی کسی نے بینک کے کیشیئر، کسی بس کے کنڈکٹر، کسی دیہاڑی دار مزدور، کسی دفتر کے کلرک، کسی ریڑھی والے، کسی دکان پر کام کرنے والے، کسی حجام یا کسی چوک میں کھڑے سپاہی سے ان کی زندگی کی کہانی کیوں نہیں پوچھی، وہ کن حالات میں رہ رہتے ہیں۔ لیکن ادھوری کہانیوں میں ً بیٹھے ہیں رہگزر پہ ہم ً میں کرم نواز جفت ساز کی داستان حیات پڑھ کر خوشی ہوئی کہ کوئی تو ہے جو زندگی کے ان گوشوں پر بھی نظر رکھتا ہے۔

اس طرح ًمزدور ابن مزدور ً سنیما کے بورڈ لکھنے والے ایک غریب مزدور بشیر احمد کی کہانی ہے۔ بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں سنیما پر زوال شروع ہوا جس نے اتنی تیزی پکڑی کہ موجودہ صدی کے آغاز تک ملک کے سینکڑوں بڑے بڑے سنیما گھر شاپنگ سینٹرز میں تبدیل ہو گئے۔ کمپیوٹر کے آنے سے ہاتھ سے کام کرنے والے ہنر مندوں کا روزگار چھن گیا۔ جن میں سنیما کے بورڈ لکھنے والے۔ خطاط۔ فوٹوگرافر اور بہت سے ایسے شعبے شامل ہیں۔

نظام ڈیجیٹل ہونے سے بشیر احمد کی زندگی میں بہت سی مشکلات اضافہ کیا لیکن ان جیسے قناعت پسند افراد ہمیشہ قدرت پر شاکر رہتے ہیں۔ ً زندگی سے کوئی گلہ نہیں ً اور ً جیرا چلا گیا ًبھی اسی طبقے سے تعلق رکھنے والے سلیم عرف جیرا کی داستان حیات ہے جو سیدھی دل میں کھب گئی اور سلیم کی ابدی زندگی کے لئے دل سے ڈھیروں دعائیں نکلیں۔

ہاں میری چشم گنہگار نے یہ بھی دیکھا ً اقبال ساغر صدیقی جیسے کہنہ مشق صحافی کے حالات زندگی اور ان کی اًمروز ً اخبار کو زندہ رکھنے کے لئے کی گئی کوششوں پر مبنی ہے۔ میں برسوں والد مرحوم کی وساطت سے امروز کا قاری رہا جو ہمارے ہاں ڈاک سے آتا تھا۔ کیسی کیسی ناقابل فراموش شخصیات اس خاک میں پنہاں ہو گئیں۔ اب ان جیسے لوگ چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ ایسی ہی ایک اور شخصیت نثار بزمی تھے جن کی فلمی دنیا کے لئے خدمات کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ ً اب انہیں ڈھونڈ ًلیکن وہ کہاں ملیں گے۔ سینکڑوں سدا بہار نغموں کی موسیقی ترتیب دینے والے ان جیسے موسیقار اب کہیں نہیں ملتے۔

جنونی لڑکی بھی ایک شعلہ جوالہ لڑکی کی داستان ہے جو آنکھوں میں بہت سے خواب سجائے شوبز کے دشت میں اپنی قسمت آزمانے آئی ہے۔ اس کو اونچا اڑنے کا بہت شوق ہے اور اس اڑان کے لئے اس نے بہت مشکل وقت بھی دیکھا ہے۔ اس کا چنا ہوا راستہ بہت ہی پرخار ہے۔ ان راہوں پر ہزاروں بھیڑیے اپنا اپنا جال بچھائے بیٹھے ہیں۔ اس جیسی بہت سی لڑکیاں اپنا آپ منوانے کے لئے شوبز میں آئیں جن میں بہت سی موت کے منہ میں جا پہنچیں کیونکہ آج کل سٹیج پر بھی بد قماشوں کا قبضہ ہے۔

داستان گو خالصتاً ً پنجابی ثقافت کی داستان ہے۔ پرانے وقتوں میں فراغت میں شام کو گاؤں کے لوگ چوپال میں اکٹھے بیٹھتے تھے جہاں دنیا جہاں کی باتیں ہوتی تھی۔ وہیں گاؤں کے بڑے بوڑھے داستانیں سنایا کرتے تھے اور نوجوان پنجاب کے گیت گاتے تھے۔ مجھے اپنے بچپن میں اپنے گھر میں ایسے اکٹھ میں بہت سی داستانیں سننے کو ملیں۔ والد محترم اپنے دہلی میں گزرے وقت کی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ عاشق جٹ۔ عالم لوہار۔ عنایت حسین بھٹی اور ان جیسے بہت سے فنکاروں نے داستان گوئی کو اپنایا۔ وہ ہیر رانجھا۔ سسی پنوں۔ مرزا صاحباں اور سیف الملوک کی داستانیں سنایا کرتے تھے۔ اب وہ میلے ٹھیلے اور وہ محفلیں ایک قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہیں۔ لیکن فضل جٹ جیسے فنکار ابھی اس کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سجاد جہانیہ نے ادھوری کہانیوں میں ستر سے زیادہ ایسی کہانیاں شامل ہیں جن میں پنجاب کے سرائیکی وسیب میں بسنے والوں کی داستانیں بیان کی گئی ہیں۔ تہذیب یافتہ۔ پروفیسر صاحب۔ پیر جواں۔ ایک گمنام ہیرو۔ وہ دن ہوا ہوئے ایسے لوگوں کی کہانیاں ہیں جن میں اپنی کہانی

سنانے والوں نے اپنا دل نکال کر سب کے سامنے رکھ دیا۔ یہ ان سے بات چیت کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ ان سے اپنا کتنا اعتبار بناتا ہے کہ

لوگ آسانی سے اس سے اپنے دل کی بات کر سکیں۔ یہ اعتبار سجاد جہانیہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ قلم کی جس روانی سے سجاد جہانیہ نے یہ کہانیاں پیش کی ہیں وہ سیدھا دل میں گھر کرتی ہیں۔ ادھوری کہانیوں کی ہر ایک کہانی منفرد ہے اور ایک سے بڑھ کر ایک ہے جس کا احاطہ اس چھوٹے سے مضمون میں بہت مشکل ہے۔ انہوں نے اپنے اردگرد کی یہ کہانیاں ایسے انداز میں بیان کی ہیں کہ کتاب ختم کیے بغیر اس کو چھوڑنے کو دل نہیں کرتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments