ایجوٹینمنٹ کا رجحان


آج سے بیس پچیس سال پہلے تک صحافت میں ایک صفحہ انٹرٹینمنٹ کا ہوا کرتا تھا جس میں گنز بک آف ورلڈ ریکارڈز سے لے کر کسی دلچسپ و عجیب واقعے یا کسی نئی سائنسی ایجاد یا ہالی ووڈ کی کسی اداکارہ کی مصالحے دار خبریں ہوتی تھیں۔ نئے پرائیویٹ چینلز کا دور ہوا تو وہاں بھی اخبارات سے اٹھ کر ہی صحافی حضرات آئے۔ لیکن جلد ہی کیمرے کے سامنے اچھے طریقے سے بول سکنے والا اور چرب زبان شخص سکرین پر دھڑا دھڑ بولنے لگا۔ اس کا مصالحہ اندازے، تجزیے، من پسند شخصیت کی حمایت اور تاریخ کے نام پر پتا نہیں کیا کچھ فروخت کرنا تھا۔

جلد ہی ان حضرات نے انٹرٹینمنٹ اور انفارمیشن کو یکجا کر دیا۔ لہٰذا اب ہمیں الیکشن ڈے کی خصوصی نشریات میں بھی سیاست دانوں کے بہروپ بھر کر بولنے والے کردار بیٹھے نظر آتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے تو اسمبلی کی کارروائی اور انٹرٹینمنٹ کو بھی یکجا کر دیا ہے، جو کہ علیحدہ موضوع ہے۔

اگر پڑھنے والوں کو یاد ہو کہ اکیسویں صدی کی بعثت سے قبل یونیورسٹیوں کے پراسپکٹس کیسے ہوا کرتے تھے! سکولوں کے اشتہار کیسے ہوتے تھے؟ کالجوں میں فیکلٹی کی بھی کچھ اہمیت ہوا کرتی تھی۔ آج کل کا رجحان بالکل ہی بدلا ہوا ہے جو کہ عالمی سرمایہ داری اور ”جدیدیت“ یا پس جدیدیت کی دین ہے۔ جب بچے اے لیول میں پہنچتے ہیں تو بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے سیلز پرسن مہنگے سکولوں میں ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ وہ آپ کو لاطینی امریکہ کے ممالک سے لے کر ترکی، تھائی لینڈ، جاپان، چین اور یورپ بھر کے ملکوں کے تعلیمی اداروں کے پراسپکٹس دیتے ہیں جن کے صفحہ اول پر گورے طلبا و طالبات کتابیں ہاتھ میں لیے ”فن“ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

طلبا و طالبات پاکستان سے فرار اور ”تفریح انگیز“ زندگی تک پہنچنے کی خاطر تعلیم کو آسان ترین ذریعہ پاتے ہیں۔ آن لائن داخلہ اپلائی کرنے اور جدید ممالک کی یونیورسٹیوں میں آن لائن انٹرویوز انھیں ایک نئی دنیا کے خوابوں کی طرف لے جاتے ہیں جس کی بنیاد ہالی ووڈ کی ”تفریح والی“ ویڈیوز پہلے ہی رکھ چکی ہوتی ہیں۔

یہ سب عناصر مل کر تعلیم اور انٹرٹینمنٹ کو یکجا کر کے ایک ایسی چیز پیدا کرتے ہیں جسے ”ایجوٹینمنٹ“ (edutainment) کہنا چاہیے۔ مہنگے نجی سکولوں میں slumber پارٹیز، سلیپ اوور، ہالووین کے چکر میں وہ بچپن سے ہی اس کا مزہ چکھتے آئے ہوتے ہیں۔ اس ایجوٹینمنٹ کو یونیورسٹیاں بھرپور انداز میں فروغ دیتی ہیں۔ مثلاً ہر یونیورسٹی میں درجنوں ٹؤر آپریٹرز کو اپنا بزنس کرنے کی اجازت ہے، کیونکہ یونیورسٹی طلبا و طالبات کو سال کے اختتام پر تفریحی ٹؤر کروانے کی زحمت اپنے سر نہیں لینا چاہتی۔

لہٰذا یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ساتھ ہی ہر ماہ بچوں کو ہنزہ، کیلاش، گلگت، سوات، کمراٹ اور مری وغیرہ کے درجنوں ٹؤرز کی پیشکشیں موصول ہونے لگتی ہیں اور جن میں شامل ہونے کی خاطر وہ ہر طریقہ اپنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جو نہیں جا پاتے وہ واٹس ایپ گروپس اور فیس بک پر ساتھیوں کی تصاویر دیکھ دیکھ کر کڑھتے اور اگلے ٹؤر پر ضرور جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

لڑکیاں اس ”ایجوٹینمنٹ“ کا اہم ترین جزو ہیں۔ یونیورسٹیوں کے پراسپکٹس اور ویب سائٹس پر بنی سنوری لڑکیوں کو متعدد لڑکوں کے درمیان بیٹھے دکھانا ان کی مارکیٹنگ کا جزو ہے۔ اور تعارفی ویڈیوز میں تو یہ عنصر اور بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔ خیر یہ ایجوٹینمنٹ کا راسخ ہو چکا تصور طلبا و طالبات کو آن کیمپس بہت سے مشاغل سے متعارف کرواتا ہے جن میں چرس، pill، الکحل، کسی فارم ہاؤس پر ہونے والی ڈانس پارٹی میں شرکت اور ”ہینگ آؤٹ“ شامل ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کی انتظامیہ بھی اس میں دانستہ یا نادانستہ طور پر حصہ دار ہوتی ہے۔ گارڈز منشیات کی فراہمی کا سب سے بڑا وسیلہ ہیں۔ ہر یونیورسٹی میں مخصوص گوشے سب کے علم میں ہیں۔ اساتذہ کو اپنی نوکری اور گھنٹے پورے کرنے سے غرض ہوتی ہے۔

یہ سب کچھ ازل سے ہوتا آیا ہے، اب فرق یہ ہے کہ پس جدیدیت یا پوسٹ ماڈرن ازم نے اسے ایک نام نہاد فکری بنیاد بھی عطا کر دی ہے۔ ”یہ آپ کی اپنی رائے ہے جس سے مجھے کچھ لینا دینا نہیں،“ ”چل کرو اور اپنے زندگی کے بہترین سال انجوائے کرو،“ ”فن ہی تو اصل لائف ہے،“ وغیرہ جیسے جملے عام سننے کو ملتے ہیں۔

ہماری موجودہ حکومت کی ”روحانیت“ کی پالیسی اس نام نہاد اور مسخ شدہ جدیدیت یا پس جدیدیت کو راس ہے۔ یہ دونوں ہی انسان کو غیر ذمہ دار بناتی ہیں، جبکہ سینکڑوں سال تک تعلیم کا مقصد باشعور، ذمہ دار اور سوچنے والے لوگ پیدا کرنا رہا ہے۔ روحانیت کے چسکوں اور booze کے ہلکوروں میں ایجوٹینمنٹ پانے والوں سے کسی بھی نوعیت کی ذمہ داری اور گہرائی کی توقع رکھنا عبث ہو گا۔ شاید اب ہم ایک نئے دور کے نئے انسان سے روشناس ہونے جا رہے ہیں، اور ایک مرتبہ پھر یہ عمل کسی سمت نما کے بغیر واقع ہو رہا ہے۔ تعلیم کے بارے میں آپ کا اور ہمارا جو بھی تصور رہا ہو، وہ اب تعلیمی ادارے اور اساتذہ عملاً ترک کر چکے ہیں۔ ہم پس جدیدیت کے راوی جیسے دریا میں تیرے ہوئے لکڑی کے لٹھ اور کندے ہیں۔ خود پر غور کریں تو ن م راشد کی نظم ”گماں کا ممکن“ کی چند سطریں یاد آتی ہیں :

تمام کندوں کے سامنے بند واپسی کی
تمام راہیں
وہ سطح دریا پہ جبر دریا سے تیرتے ہیں
اب ان کا انجام گھاٹ ہیں جو
سدا سے آغوش وا کیے ہیں
اب ان کا انجام وہ سفینے
ابھی نہیں جو سفینہ گر کے قیاس میں بھی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments