کسی دربان کی ضرورت نہیں


میدان حشر لگا ہوا تھا، تاحد نگاہ خوفناک آگ اگلتے غار تھے، سوال کرنے والے نے سوال کیا کہ یہ کیسے غار ہیں، جواب ملا یہ سب گناہگاروں کے غار ہیں، یہ فلاں ملک کا ہے، وہ فلاں ملک کا ہے، وہ فلاں قوم کا ہے اور وہ فلاں فلاں قبیلے کا ہے، سوال کرنے والے نے پھر سوال کیا کہ ہر غار پر ایک بہت قوی الجثہ دربان ہاتھ میں آگ کا گرز لے کر کیوں کھڑا ہے؟ جواب آیا، جب کوئی غار سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ دربان اسے واپس غار میں دھکیل دیتا ہے، سوال کرنے والے نے بہت دور ایک اور غار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پھر سوال کیا، وہ غار کن کا ہے؟ جواب آیا کہ وہ پاکستانی گناہگاروں کا غار ہے، سوال کرنے والے نے حیرت سے کہا، اس پر دربان کیوں موجود نہیں ہے؟ جواب آیا ضرورت ہی نہیں پڑی، کیوں؟ سوال کرنے والے نے حیرت سے کہا، اس لیے کہ جو بھی باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے اندر والے خود اس کی ٹانگیں کھینچ لیتے ہیں۔

کسی بھی میدان میں جگہ بنانے کے دو ہی طریقے ہوتے ہیں، مرد میدان سے بڑھ کر اپنے اندر خوبیاں پیدا کرنا یا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مرد میدان کا ”پتہ ہی صاف“ کر دیا جائے۔ دنیا بھر میں پہلے نمبر پر آنے کے لئے سخت مسابقتی کشمکش دیکھنے میں آتی ہے، میدان خواہ کھیل کا ہو، پڑھائی کا ہو، پہاڑوں کی چوٹیاں سر کر لینے کا ہو یا میدان حرب و ضرب، ہر قوم، ہر قوم سے آگے نکل جانے کی جدوجہد میں مصروف نظر آتی ہے۔

پاکستان میں بھی ایسا ہی کچھ ہے لیکن ایک واضح فرق کے ساتھ، دوسری اقوام مسلسل تحقیق، محنت اور انتھک جدوجہد کر کے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہیں لیکن پاکستان میں ہر طبقہ اپنے سے آگے جانے والے کے ہاتھ پاؤں توڑ کر اپنے آپ کو ”وکٹری اسٹینڈ“ پر کھڑا دیکھنا چاہتا ہے۔

ٹانگیں گھسیٹنے اور توڑ دینے کا عمل ہر شعبہ ہائے زندگی میں نظر آئے گا۔ سبزی بیچنے والا ہو یا پھل بیچنے والا، سیاسی جماعتوں کے لیڈر ہوں یا مذہبی رہنما، مسالک سے تعلق رکھنے والے ہوں یا وہ انجمنیں جو اپنے آپ کو اصلاح احوال کا کرتا دھرتا تصور کرتی ہیں، امیر ہوں یا غریب، غرض جس جانب بھی نظر ڈالیں عجب ہو کا عالم ہے۔ اشیا فروخت کرنے والے اپنے مال کی خوبیاں گنوانے کی بجائے دوسرے کے مال میں کیڑے نکال رہے ہوتے ہیں۔ سیاسی لیڈر دوسرے کے عیبوں اور کمزوریوں کو اجاگر کر رہے ہوتے ہیں۔ ہر مسلک اپنے مسلک کی بات میں کم دوسروں کے مسالک کے کمزوریوں کو بڑھ چڑھ کر گنوا رہا ہوتا ہے اور بعینہ سماجی و فلاحی ادارے بھی اپنے اپنے خصائل بتانے کی بجائے دوسروں کے کمزور پہلوؤں کو عیاں کر رہی ہوتی ہیں۔

یہی احوال قوموں اور قوموں، ملکوں اور ملکوں کے درمیان ہے، بجائے اس کے کہ ہم اپنے اندر خرابیوں کو تلاش کریں، دوسرے ممالک کو ہر تباہی و بربادی کا ذمہ دار ٹھہرا کر اپنے عیبوں پر پردے در پردے ڈال کر اس طرح مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں جیسے اب کسی بھی قسم کی کوئی دلخراش بات، تخریب کاری، بد امنی اور بے چینی ملک میں کبھی سر نہ اٹھائے گی۔

ہر معاملے میں شارٹ کٹ اور چور دروازے تلاش کرنا ہر فرد کو وتیرہ بن کر رہ گیا ہے۔ بورڈ کے امتحانات ہوں یا یونیورسٹی کے، میرے بچے کو آگے ہونا ہے، ”قائداعظم“ ، کھیل کے میدان میں کس کنگلے کو لے کر جا رہے ہو، چیف سلیکٹر تک پہنچنے کا موقعہ کیا بار بار ملتا ہے، ”قائد اعظم“ ، نہیں نہیں یہ کام میں نہیں کروں گا، بہت خوب، کیا یہاں تک قائد کی روح کو ثواب پہنچا کر نہیں آئے تھے؟ چلو اب ”قائد اعظم“ کو سلامی دو، اسمبلی کا ممبر بننا ہے، ”قائد اعظم“ ، ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں جانا ہے، ”قائد اعظم“ ، واپس پرانی پارٹی میں آنا ہے، ”قائد اعظم“ ، ضمیر کیوں سویا، ”قائد اعظم“ ، اچانک ضمیر کیوں جاگ پڑا، ”قائد اعظم“ ، میڈیا پر کوئی سچ چھپانا ہے ”قائداعظم“ کوئی سچ بالکل سچ سچ بتانا ہے، ”قائد اعظم“ ۔ المختصر یہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہ تو ”ہٰذا من فضل ربی“ کے بغیر کام چلتا ہے اور نہ ہی بنا ”چائے پانی“ ۔ دنیا کا واحد قائد ہے جو دنیا سے رخصت ہونے کے باوجود اپنے (بے ضمیر) عوام و خواص کے کام آ رہا ہے۔

قابلیت کا ایسا خون ہوا کہ کھیل کے میدان تباہ ہو گئے، اب تو ان میں کتے بھی لوٹنا گوارا نہیں کرتے، تعلیم کا جنازہ نکل گیا، جب کام جعلی ڈگریوں سے بھی چل سکتا ہے تو اصلی ڈگری کے لئے اپنے دماغ کو کیوں کھپایا جائے، معیشت کا بھٹہ بیٹھ کر رہ گیا، اس لئے کہ ہر شاخ پر الو بٹھا دیا گیا ہے۔ انسان بے ضمیر بن کر رہ گئے، بڑے بڑے ادارے تباہی کے دہانے پر آ کھڑے ہوئے، ہر ادارے میں بے ہنر، نا اہل اور ناکارہ لوگوں کا ہجوم بھر دیا گیا، ہر محکمے میں نہ کام کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کی رشوت لے جائے گی تو پھر یہی کچھ ہوگا جو ہم سب کی نگاہوں کے سامنے ہے۔ پاکستان اسٹیل، واپڈا، پاکستان ریلوے، پاکستان انٹر نیشنل ائر لائن، ٹی اینڈ ٹی، پاکستان پوسٹ، جس کی حالت دیکھو دل اور آنکھیں لہو روتی ہیں اگر نہیں روتی ہیں تو پتھر دل اور بے رحم حکمرانوں کی نہیں روتیں۔

کسی زمانے میں سیاست کے میدان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لئے نئی نئی منصوبہ بندیاں نظر آیا کرتی تھیں، نئے نئے اتحاد بنا کر کسی بڑی سیاسی پارٹی کا مقابلہ کرنے کا رجحان پایا جاتا تھا، مگر یہ زمانہ محترم جناب مفتی محمود، مولانا ابولاعلیٰ مودودی، مولانا نورانی اور مولانا غلام غوث ہزاروی سے چل کر نواب زادہ نصراللہ پر ختم ہو گیا، اب تو وہاں بھی ”لیگ پلنگ“ گھوڑا فروشی اور بیٹھ جاؤ نہیں تو لٹا دیں گے ”والی کہانیاں آ گئی ہیں۔

پہلے تو اتنا ہی ہوتا تھا کہ کوئی ایک کھلاڑی، کوئی ایک پڑھاکو، کوئی ایک ممبر اسمبلی یا دو چار افراد کی بات پر کہانی ختم ہو جایا کرتی تھی لیکن اب تو بھوک اتنی بڑھ چکی ہے کہ پورے پورے سالم بکرے بھی کم ہیں، پورے پورے قبیلے چاہئیں، گروہ چاہئیں، جماعتیں چاہئیں۔ مقابلہ جن جن سے بھی ممکن نہیں ان کو راستے سے ہٹا دو، صاف کردو، بد نام کردو، ٹھکانے لگا دو، برباد کر دو، غدار قرار دیدو، لاپتہ کردو، پولیس یا رینجرز کی حراست میں دیدو۔ جو منوانا ہے منوا لو، جو اگلوانا ہے اگلوا لو، مان جائے یا اگل دے، بخشش کی امیدیں ورنہ جھاڑیوں، نالوں، ندیوں اور سرد خانوں کو تاکو جھانکو، کہیں نہ کہیں اپنے پیاروں کی بگڑی بگڑائی مسخ شدہ لاشیں مل ہی جائیں گی۔

ملک اور قوم کا کیا بنے گا، کیا اس پر پہلے بھی کسی نے غور کیا ہے جو ہم کریں، میرٹ کا خون کر کے اگر ادارے تباہ و بر باد ہو گئے تو کیا، اپنی اپنی پسند کے نا اہل ترین بندے تو ہم نے بھرتی کرا ہی دیے ہیں، اس سے کیا پاکستان ختم ہو گیا؟ اسی طرح اگر راستے کی دوچار پارٹیاں ختم ہو جائیں گی تو کیا پاکستان تباہ ہو جائے گا؟ ارے یہ ملک خدا داد ہے، قائم رہے گا، یہ ہم جیسے بے ضمیروں کے لئے بنا تھا اور ہم جیسے بے ضمیروں کے دم سے ہی آباد رہے گا، اس کی بنیاد میں عظیم انسانوں کا پاکیزہ خون ہے، ابھی ان کی اولادیں در اولادیں حیات ہیں، اس کو لہو کی ضرورت ہے اور ہمارے پاس کروڑوں ہیں، ہم اس کی بنیادوں کو لہو فراہم کرتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments