بکرے کی چانپ اور مرغی کی ٹانگ


صبح مرغی کی شان میں دو پیراگراف لکھ رہی تھی کہ اتنے میں انڈیا سے بکرے کی آواز کانوں میں پڑی۔ پنڈال میں بکرا تو موجود نہیں تھا لیکن دولہا میاں بھیں بھیں کرتے پھرے۔ بے چارہ دولہا جو آنکھوں میں اور پیٹ میں نرم نرم اور چھوٹی چھوٹی گول بوٹی کے سپنے سجائے بارات تو لائے۔ لیکن وہاں بکرے کی چانپ کی جگہ مرغی کی ٹانگ نظر آئی۔ مرغی کی ٹانگ نظر آنے کی دیر تھی۔ دولہے میاں کے ارمانوں پہ اوس پڑ گئی۔ وہ صدمہ برداشت نہ کر پائے اور بھیں بھیں کرتے دلہن چھوڑ کر بارات لیے چل پڑے۔ خیر انڈیا میں اچھا ہوا بارات واپس چلی گئی۔ دلہن ساری زندگی کے طعنے سننے سے بچ گئی۔ کوئی پاکستانی ہوتا تو دلہن بیاہ کے کے لے جاتا پھر زندگی بھر اس کا سارا خاندان چکن کی وجہ سے اپنی نامعلوم عزت کم ہونے پر طعنے دیتا رہتا۔

بات انڈیا کی ہو یا پاکستان کی۔ ہمارے وہ جوان جو اور کچھ بن نہ سکیں وہ سوشل میڈیا پر تبصرہ نگار ضرور بن جاتے ہیں۔ ایک صاحب کہنے لگے یہ انڈیا والے ہیں ہی ایسے۔ بھوکے، غربت کے مارے اور ترسے ہوئے لوگ۔ بکرے کی خاطر دلہن چھوڑ دی۔ اپنی خواہشات جہیز لے کر پوری کرتے ہیں۔ خدا نہ کرے ہم ایسے لوگوں کی معصومیت پہ قربان جائیں۔ ان کا پاکستان میں کون سا سیارہ ہے۔ جہاں لوگ بھوکے، ترسے، حسرتوں کے مارے اور جہیز لے کر خواہشات پوری نہیں کرتے۔

انڈین دولہا اس معاملے میں بیوقوف نکلا وہ یہ بات رشتے طے کرتے ہوئے کر لیتا کہ کھانے میں کون سی ڈش ہونی چاہیے تو اس ذلت سے بچ جاتا۔ کسی اور جگہ کا تو علم نہیں لیکن ہمارے آس پاس ایسا ہی ہوتا ہے۔ کچھ دن پہلے ہماری کزن کا پروپوزل آیا۔ ابھی باقاعدہ ہاں نہیں ہوئی تھی کہ لڑکی کی ماں نے لڑکے والوں سے پوچھا۔ آپ کی کوئی ڈیمانڈ ہے تو ابھی بتا دیں۔ لڑکے والے بھی شریف تھے۔ کہنے لگے۔ ہماری کوئی ڈیمانڈ نہیں۔ یہ اب آپ کی نہیں، ہماری بیٹی ہے۔ بس بارات کو کھانے میں مٹن دیجیے گا۔ میں نے اپنے بڑے بچوں کی شادی پہ بھی مٹن دیا ہے۔ اب چھوٹے بیٹے کی شادی پہ بھی مٹن ہونا چاہیے۔ ہم نفیس لوگ ہیں۔ تھوڑی مگر خوش ذائقہ غذا کھانا پسند کرتے ہیں۔ اور اپنے مہمانوں کے لیے بھی یہی پسند کرتے ہیں۔

یہ ہمارے ایک پاکستانی گھر کی کہانی ہے۔ معلوم نہیں دوسری جگہ کیا ہو رہا ہے اور کیسے معاملات طے کیے جاتے ہیں۔ ہم تو ایسی باتیں سننے کے عادی ہیں۔ جہاں کسی بھی رشتے کا لحاظ کیے بنا باتیں سنانا عام بات ہے۔ چند ایک جو ہمارے کانوں میں پڑی۔ وہ کچھ ایسی باتیں ہیں کہ بیٹی والے نے چکن دے دیا ہے تو سسرالی عزیز کہیں گے۔ بارات کو کھانا اچھا نہیں دیا۔ یہ مرغی سب ہی دیتے ہیں۔ ہماری ناک کٹوا دی۔ ان کو ہماری حیثیت کا پتا بھی تھا پھر بھی نہیں سوچا۔ بیٹی دینے کا پتا ہے۔ بارات کی عزت کرنے کا نہیں۔

ہم سمجھے تھے بہت پیسے والے ہیں یہ کیا کھانے میں چکن دے دیا۔ وہ بھی اتنا بد ذائقہ کھانے کو دل نہیں چاہا۔

دلہن گھر قدم نہیں رکھتی اور سسرال والے ہال میں ہی نیا اور پہلا محاذ کھول لیتے ہیں۔ چلیں سسرال والے گلے شکوے، ناراض ہونے میں حق بجانب ہوئے لیکن ان رشتے داروں کا کیا جو بیٹی والوں کی طرف سے ہوتے ہیں۔ وہ بھی اس موقع پر کم نہیں کرتے۔

ایسے رشتے دار کھانے پر بھی خوب ہاتھ صاف کرتے ہیں اور ساتھ کہتے ہیں کہ ہائے قسم سے ایک بوٹی نہیں چکھی سارا نان مسالے ساتھ کھایا ہے۔ آج کل وائرس بھی آیا ہے۔ ہم مریضوں کا ان لوگوں کو خیال نہیں۔ چلو اللہ وارث ہے۔ جو ہو گی دیکھی جائے گی۔ مٹن ہوتا تو کیا بات تھی۔ ہم شادی پہ آئے ہی مٹن کھانے تھے۔ ہمیں کیا پتا تھا آگے چکن کا پروگرام ہونا۔ جتنا کرایہ لگایا اتنے میں گھر بیٹھ کے مٹن کڑاہی بن جانی تھی۔ ویسے یہ لوگ بڑے امیر بنتے ہیں۔ بارات کو کھانے دیتے غریب بن جاتے ہیں۔

ایسی باتیں سن کر ہمارے دل میں مرغی کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ شاید اس لیے کہ ہمارا پالا ایسے رشتے داروں سے پڑتا رہتا ہے۔ ایک دفعہ ہماری آنٹی کی اچانک آمد ہوئی۔ کھانے کا ٹائم ہو رہا تھا۔ ہم نئے نئے کچن میں اپنے سگھڑاپے کے جلوے دکھا رہے تھے۔ سوچا جلدی سے کڑاہی بنا لیتے ہیں۔ ہم نے جھٹ پٹ کڑاہی بنا لی۔ جب آنٹی سالن پلیٹ میں نکالنے لگیں تو بولیں۔

”مرغی ہیگی، مینوں ڈاکٹر نے منع کیتی، سالن دے دو۔“

ان لوگوں کی نظر میں سب بیماریوں کی جڑ موئی مرغی ہے۔ گوشت کھانا ہے تو چھوٹا کھاؤ یا بڑا۔ نہیں تو سبزی کھاؤ۔ ہمارے جیسے عقل سے پیدل چھوٹا گوشت مرغی کا اور بڑا بکرے کا سمجھتے رہے۔ ہمارا مرغی سے پیار ڈھکا چھپا نہیں۔ اس لیے جہاں مرغی کے مقابلے میں بکرے کا گوشت آ جائے تو ہم اپنا احتجاج ضرور ریکارڈ کرواتے ہیں۔ کبھی کبھی لگتا ہے یہ مرغی کے ستارے ہر وقت گردش میں رہتے ہیں۔ نصیبوں جلی ہر نئے وائرس کا شکار ہوتی ہے۔ ان سے آزاد ہوتی ہے تو قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ قیمت کم ہوتی ہے تو کچھ لوگ ناک بھوں چڑھاتے کہتے ہیں۔ سبزی بھی مرغی کی قیمت میں آ جاتی ہے۔ اصل مسئلہ ہی قیمت کا ہے۔ جہاں کم ہو تو وہاں نہ احساس کی اہمیت ہوتی ہے نہ رشتوں کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments