مقبوضہ کشمیر میں مودی کا ڈرامہ فلاپ


بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی پر داخلی اور خارجی دونوں سطحوں سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال میں اختیار کی جانے والی سیاسی، انتظامی اور طاقت کی پالیسی میں تبدیلی کے تناظر میں دباو کا سامنا ہے۔ کیونکہ بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ جو کچھ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال ہے وہ عملی طور پر مودی حکومت کے کنٹرول میں نہیں۔ عالمی دنیا اور بالخصوص عالمی میڈیا سمیت انسانی حقوق سے جڑے ادارے مسلسل مقبوضہ کشمیر میں تاریخ کی بدترین انسانی حقوق کی پامالی پر بھارت کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

اسی دباو کی پالیسی میں نریندر مودی کو مقبوضہ کشمیر میں موجود بھارتی نواز قیادت سے مفاہمت پر مجبور کر دیا ہے۔ پچھلے دنوں نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز آٹھ سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی 14 اہم راہنماؤں نے ملاقات کی ہے۔ 2019 کے انتخابات کے بعد نریندر مودی کی کشمیر کی قیادت کے ساتھ یہ پہلی ملاقات تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ملاقات میں فاروق عبدااللہ، عمر عبدااللہ، محبوبہ مفتی بھی شامل تھے جو پانچ اگست 2019 میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بدلنے کی آئینی شق ختم کرتے ہوئے نظربند کر دیا کر دیا تھا۔

یقینی طور پر نریندر مودی کی حکومت مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز قیادت کو راضی کر کے کوئی ایسا مفاہمتی عمل آگے بڑھانا چاہتی ہے جو حکومت اور مقبوضہ کشمیر کی قیادت کو قابل قبول ہو۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مودی حکومت نے اس کانفرنس سے فوری نتائج کے حصول کے لیے حریت قیادت کو نظرانداز کیا۔ اس ملاقات کی مدد سے مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی قیادت کو یہ پیغام دیا ہے کہ ان کی بڑی سیاسی ترجیح میں حلقہ بندی سمیت فوری انتخابات کا انعقاد، نچلی سطح پر جمہوریت کو مستحکم کرنا ہے۔

جبکہ اس کے برعکس بھارت نواز کشمیری قیادت نے مودی حکومت کے سامنے صورتحال کی بہتری کے تناظر میں پانچ مطالبات رکھے ہیں۔ اول ریاست کا درجہ بحال کرنا، دوئم جمہوریت کی بحالی کے لیے اسمبلی کے انتخابات کروانا، سوئم مقبوضہ کشمیر میں کشمیر پنڈتوں کی بحالی، چہارم تمام سیاسی نظر بندوں کی رہائی، انسانی حقوق کی پامالی کو روکنا اور کرفیو کا خاتمہ، پنجم ڈومیسائل جیسے اہم مطالبات شامل تھے۔ کشمیری لیڈر غلام نبی آزاد، فاروق عبدااللہ اور عمر عبدااللہ کے بقول ہم پانچ اگست 2019 کے اقدام کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔

جبکہ محبوبہ مفتی کے بقول میں نے نریندر مودی پر واضح کر دیا کہ پانچ اگست 2019 کے بعد یہاں کے لوگ بہت مشکلات میں ہیں، وہ ناراض، پریشان اور جذباتی طور پر بکھرے ہوئے ہیں اور خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو غیر آئینی، غیر قانونی، غیر اخلاقی طور پر آرٹیکل 370 کی منسوخی کا طریقہ قبول نہیں اور نہ ہی وہ قبول کریں گے بلکہ ان لوگوں کی عملی طور پر مزاحمت کا عمل جاری رہے گا۔

یقیناً جو موقف بھارت نواز کشمیری قیادت نے نریندر مودی، اجیت ڈول اور امیت شاہ کے سامنے اختیار کیا وہ مودی حکومت کے لیے ایک بڑے سیاسی دھچکہ سے کم نہیں۔ مودی حکومت کا جو خیال تھا کہ وہ کسی نہ کسی حکمت عملی سے بھارت نواز کشمیری قیادت کو سیاسی طور پر رام کرسکیں گے وہ فی الحال ممکن نہیں ہوسکا۔ کشمیری بھارت نواز قیادت کو لگتا ہے کہ نریندر مودی حکومت پہلے اسمبلی کے انتخابات اور پھر ریاستی حیثیت کی بحالی پر غور کرنے کی بات کر کے معاملات میں ٹال مٹول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

البتہ دلچسپ بات یہ ہے کہ نریندر مودی جو کہتے تھے کہ اب کسی بھی صورت میں ریاستی حیثیت کی بحالی پر تیار نہیں تھے وہ سیاسی یوٹرن لے کر انتخابات کے بعد غور کرنے کی بات کر کے کشمیری قیادت کو سیاسی لالی پوپ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہت سے سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ نریندر مودی حکومت جو مقبوضہ کشمیر میں نیا مفاہمتی پیکج کو پیش کرنے کی بات کر رہی ہے وہ عملی طور پر امریکی دباو کا عکاس ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت نواز کشمیری قیادت نے نریندر مودی سے ملاقات سے قبل یہ مطالبہ پیش کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ اس ملاقات میں ہمارے سمیت کشمیری قیادت جو اہم فریق ہے اسے بھی ملاقات کا حصہ بنایا جائے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ نریندر مودی کی حکومت نے جو بڑا سیاسی جال بھارت نواز کشمیری قیادت پر نئی مفاہمت کے نام پر ڈالا ہے اس کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ کیا کشمیری قیادت آسانی سے مودی کے سیاسی جال میں پھنس جائے گی یا وہ مودی حکومت کے خلاف اپنی سخت مزاحمت کی مدد سے ان کو مجبور کرے گی کہ وہ پہلے ان کے مطالبات کو تسلیم کریں، وگرنہ بات آگے نہیں بڑھے گی۔

یہاں بھارت نواز کشمیری قیادت کا بھی امتحان ہے کہ وہ کس حد تک اب تک کے اختیار کیے گئے موقف پر قائم رہتی ہے۔ بنیادی طور پر نریندر مودی کی حکومت نے عالمی دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ہم اس وقت کشمیری قیادت کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ جو ڈیڈلاک اس وقت دہلی اور کشمیری قیادت میں پیدا ہو چکا ہے اسے ختم کرنے کی طرف پیش رفت کر رہے ہیں۔ لیکن اس ملاقات کا مشترکہ اعلامیہ کا جاری نہ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ یہ ملاقات کوئی بڑا سیاسی بریک تھرو نہیں دے سکی۔

بنیادی طور پر اس وقت نریندر مودی کی حکومت پر مقبوضہ کشمیر کی صورتحال ایک بڑے خوف کا منظر پیش کر رہی ہے۔ کیونکہ مودی حکومت کو محض مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مسلمانوں یا حریت کانفرنس کے لوگوں سے ہی خطرہ نہیں بلکہ وہ لوگ جو کل تک دہلی حکومت کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے وہ بھی دہلی کے ساتھ اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔ مودی حکومت کو سب سے بڑا دھچکہ اسی بھارت نواز قیادت سے ہے جو کل تک تمام تر مسائل کے باوجود دہلی حکومت کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے، لیکن اب ان کے دہلی سے سیاسی فاصلے بڑھ رہے ہیں۔

دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ انسانی حقوق کی پامالی کی صورت میں جاری ہے اس نے بھی عالمی میڈیا یا انسانی حقوق کے نظام میں سیاسی طور پر تنہا کر دیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی مودی پالیسی پر خود بھارت کے کئی حلقوں اور اہم سیاسی فریقوں سمیت میڈیا پر تنقید ہو رہی ہے، بھارت میں موجود مختلف لوگوں کا انفرادی یا اجتماعی طور پر یہ بیانیہ بڑھ رہا ہے کہ مودی حکومت کی کشمیر پالیسی درست نہیں۔ دراصل بھارت میں کرونا کے بحران کے تناظر میں جو مشکلات سامنے آئی ہیں او رجس انداز سے لوگوں کو معاشی بدحالی سے گزرنا پڑ رہا ہے اس نے مودی حکومت کو سیاسی طور پر تنہا کر دیا ہے۔

مودی حکومت پر تنقید مسلسل بڑھ رہی ہے اور لوگوں کو لگتا ہے کہ مودی حکومت عوام کو آسانیاں دینے کی بجائے ان کی زندگی میں مشکلات کو پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس وقت جو بھارت کی چین کے ساتھ کشیدگی ہے وہ بھی حکومت کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اپنی سیاسی ڈھٹائی سے باہر نکلے۔

بھارت یا نریندر مودی حکومت خود سے کوئی ایسا فیصلہ کرنے کے لیے تیار نہیں جو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اس کی پسپائی کو ظاہر کرے یا اس کی حکومت کی کمزوری کا پہلو نمایاں ہو۔ مودی حکومت کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ مفاہمت کے نام پر دہلی حکومت کے ساتھ کشمیری قیادت کو ہر صورت میں جوڑے رکھے تاکہ اس پر جو داخلی اور خارجی دباو ہے اسے ہر صورت میں کم کیا جاسکے۔ نریندر مودی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مقبوضہ کشمیر میں اب اس کی روایتی اور طاقت کی سیاست زیادہ دیر تک نہیں چل سکے گی۔

آج نہیں تو کل اسے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر سیاسی لچک ہی کو دکھانا ہوگا۔ کیونکہ مقبوضہ کشمیر بہت بدلا ہوا ہے او رجو کچھ پچھلے عرصہ میں بھارت نے کیا ہے یا کر رہا ہے اس کا سخت ردعمل مقبوضہ کشمیر کی عملی سیاست کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں موجود بھارت نواز سیاسی قیادت مودی حکومت کی سیاسی چال کا شکار ہونے کی بجائے خود کو کھڑا کرے اور مودی حکومت کو مجبور کرے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں موجود سیاسی بے چینی، انسانی حقوق کی پامالی کہ خاتمہ میں اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments