الف انار، ب بکری، پ پتا نہیں


ممکن ہے کہ آپ کے ساتھ کبھی نہ کبھی ایسا ضرور ہوا ہو۔ مراد ہے کسی کی زبان سے نکلی ہوئی کوئی بات جس نے آپ کا ورلڈ ویو ہمیشہ کے لئے تبدیل کر دیا۔ گپ نہیں ماروں گا، صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ پچھلے تیس برس میں یہ اتفاق میرے ساتھ دو مرتبہ ہوا۔ پہلا مشورہ جس نے میری کایا پلٹ کے رکھ دی ممتاز صدا کار اور ایکٹر جناب ضیا محی الدین کا ایک جملہ ہے۔ سنٹرل ٹیلی ویژن برمنگھم میں ’فیملی پرائیڈ‘ کے نام سے ایک ڈرامائی سیریل کی شوٹنگ ہو رہی تھی۔ ضیا صاحب باقی کاسٹ کو ہدایات دے کر فارغ ہوئے تو مَیں نے کہا کہ مجھے بھی کچھ بتائیے۔ کہنے لگے: ”آپ کے لئے بس ایک ہی نکتہ ہے۔ جو بھی کام ملے اُسے کرتے ہوئے مزا لیں، پرفارمنس کو چار چاند لگ جائیں گے۔“ اُن کا اشارہ تو صرف ڈرامے کی طرف تھا، مگر مجھے لگا کہ یہ نظریہ زندگی گزارنے کا بھی ایک بھرپور پیرایہ ہے۔ میرا کام بن گیا۔

دوسرا سبق تھا تو گھریلو ساخت کا، لیکن اِس کی ترغیب دینے والے ڈاکٹر اسد ملک سائبر نیٹکس کی ریسرچ میں سینئر عہدے پہ فائز ہیں۔ لاہور آئیں تو اُن کا اصرار ہوتا ہے کہ کوئی علمی موضوع چھیڑا جائے، باپ بیٹے کے معاملات تو فروعی مسائل ہوئے۔ دس سال پہلے اوپر ٹیرس پہ، جہاں شام کے جھٹپٹے میں ہم دونوں گھر والوں سے چھپ کر سگار پی رہے تھے، آپ نے ہمیشہ کی طرح بڑے نرم لہجے میں ایک سخت بات میرے حوالے کر دی۔ کہنے لگے: ”یار ابو، کمپیوٹر کی ورکنگ نے انسانی دماغ کو سمجھنا بہت آسان بنا دیا ہے۔“ پوچھا کہ وہ کیسے۔ کہا: ”دماغ میں بھی ایک قسم کا پروگرام ڈلا ہوتا ہے۔ بہت لمبا چوڑا سہی مگر ہے تو سوفٹ وئیر ہی۔ آپ چاہیں تو اِسے نکال کر اپنی مرضی سے تبدیلیاں کر لیں یا بالکل ہی نیا ڈال لیں۔“ مجھے دلیل اچھی لگی اور محسوس ہوا کہ مَیں اصولی طور پہ اِس موقف سے متفق ہوں۔

اِن دونوں بزرگوں کے اقوال سے اب تک جو فیض پہنچا اب اُس میں اپنے قارئین کو بھی شریک کرنے کا ارادہ ہے، البتہ ایک نئے عصری تناظر میں۔ وہ ہے یہ امکان کہ مجھے ضیا محی الدین صاحب کے مزا لینے والے آزمودہ پیرائے کو محترم اسد ملک کی تجویز کردہ نئے سوفٹ وئیر کی حکمت عملی کے ساتھ جوڑ کر دیکھنا پڑے۔ مراد یہ کہ پرانا پروگرام نکال کر نہ صرف نیا ڈالوں،بلکہ اُس سے مزا لینا بھی شروع کر دوں۔ پر جس طرح تجربہ کار طبیب کہا کرتے ہیں: ”پہلے تشخیص، اُس کے بعد علاج، اور تشخیص کا اولین مرحلہ ہوتا ہے مریض کی میڈیکل ہسٹری۔“ چونکہ جو مسئلہ پچھلے ایک ہفتے سے میرا منہ چڑا رہا ہے وہ کسی ایک فرد یا کنبے کا نہیں،ایک پوری نسل اور پورے سماج کا مسئلہ ہے۔ اِس لئے درخواست ہے کہ مجھے روحانی طعنہ زنی کا ہدف بنانے کی بجائے، تحمل سے کام لے کر میری اگلی کہانی کی تعلیمی و تدریسی نزاکتوں کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔

کہانی یہ کہ ایک یونیورسٹی میں نشری صحافت کے استاد کے طور پر مَیں نے پچھلے ہفتے ریڈیو جرنلزم کے طلبہ سے انگریزی میں پانچ اور اردو میں چار خبرنامے تیار کرائے تھے۔ ہر خبرنامہ کے لئے چھ سے سات صوتی رپورٹیں چُنی گئیں۔ تیاری دستیاب معلومات کی تدوین و ترتیب سے شروع ہوئی اور میری رہنمائی میں ہر گروپ کے ایڈیٹر کی مدد سے پہلے آن لائن سیشن اور پھر کلاس روم کے اندر تلفظ و ادائیگی کی مرحلہ وار مشق سے ہو کر آخری پیش کاری کے مرحلے تک پہنچی۔ فخر اِس اجتماعی کامیابی پہ ہے کہ انگریزی کے تین گروپ ایسے تھے، جن کے خبری مواد، رپورٹوں کے ڈھانچے اور صوتی کارکردگی کا موازنہ، عمراور تجربے کا لحاظ کرتے ہوئے، بی بی سی ورلڈ سے کیا جا سکتا ہے۔ پھر بھی، قارئینِ محترم، اب جگر تھام کے سنئے کہ اردو کے جس بلیٹن کی ترتیب و پیشکش سب سے زیادہ متاثرکن رہی وہ رومن رسم الخط میں ٹائپ شدہ تھا۔ یہ کام ابتدائی طور پہ مجھ سے بالا بالا ہوا اور مجھے پڑھنے میں بھی دقت ہوئی، مگر طالب علموں کو اِن پیج میں ٹائپنگ کے مقابلے میں یہ طریقہ پُر سہولت لگا۔

سچ کہوں تو اُردو کے لئے رومن حروفِ ابجد کے ذکر پر مجھے پل، دو پل کو اپنا وجود زمین پر ہلتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ یہ خیال بھی آیا کہ ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی نوجوان نسل عربی فارسی رسم الخط سے ناآشنا اور دینی لٹریچر کے براہِ راست مطالعے سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ تو کیا ہمارے لئے پاکستانیوں کی اردو الف، ب سے بیگانگی کا انکشاف ایک بڑا تمدنی صدمہ نہیں؟ اِس پر بی بی سی لندن جانے سے پہلے کے دَور میں مجھے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں اپنے ہمکار ڈاکٹر انجم سلیمی کے ساتھ اپنا ایک دلچسپ مکالمہ یاد آنے لگا۔ مَیں نے نشان دہی کی تھی کہ ہم اپنے اپنے خاندان میں پنجابی بولنے والی آخری نسل ہیں۔ سلیمی صاحب نے کہا کہ اِس پہ پریشانی نہیں ہونی چاہئے،کیونکہ تاریخ میں زبانوں کے ساتھ یہ ہوتا ہی آیا ہے۔ نئی صورتحال میں اسد ملک کا سوفٹ وئیر ہی نہیں، سلیمی کی نصیحت بھی میرے ذہن میں گھوم رہی ہے۔

یہاں یہ نکتہ بھی سامنے رہے کہ اپنی غیرجانبدار سوچ کی روشنی میں ایک مستند سچائی کو کھُلے ذہن سے تسلیم کرنا اور اِسی نوعیت کی ذاتی واردات سے خود گزرنا کسی بھی انسان کے لئے دو الگ الگ تجربات ہو سکتے ہیں۔ کسی نہ کسی شکل میں درد محسوس کرنا، یہ ایک مشترکہ تجربہ ہے۔ البتہ جب خود مجھے درد ہو رہا ہو تو اُس کی شدت اَور لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ موت برحق ہے، یہ سب مانتے ہیں۔ پھر بھی پختہ عمر کے لوگ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ موت کا متففقہ انسانی تصور اور کسی خاندان یا قریبی احباب کے دائرے میں اِس کی طبعی حقیقت… اِن دونوں میں بہت فرق ہے۔ دو ماہ پہلے کے ایک المیے کے بعد اُن دوستوں کی تعداد اب نصف درجن سے اوپر ہو چکی ہے، جو دنیا سے جا کر بھی ہر روز مجھے ملنے آتے ہیں، اپنی اپنی مخصوص آواز میں بولتے ہیں، ہنستے مسکراتے ہیں۔

رومن اسکرپٹ کی مقبولیت دیکھ کر ایک نا سمجھی یہ ہوئی کہ یونیورسٹی میں ریڈیو خبرناموں کی تیاری اور پیشکاری کا تدریسی تجربہ فیس بُک پہ شئیر کر دیا، اور یہ بھی کہ اردو کا سب سے رواں بلیٹن رومن میں لکھا اور پھر پڑھا گیا تھا۔ اسٹیٹس لگتے ہی موٹی موٹی ہیڈ لائنوں میں سوچنے کے عادی میرے اکثر جاننے والے دو واضح گروہوں میں بٹ گئے۔ یوں جیسے ساس، بہو کی روایتی لڑائی یا بقول پروفیسر انور مسعود ”جیویں ویَر وہابی سُنی دا۔“ کچھ نے کہا کہ یہ ”پیراڈائم شفٹ ہے جسے تبدیلی کے عمل میں قبول کر لینا چاہئے۔“ اب طرحی مشاعروں والا نمونہ کلام ملاحظہ ہو: ”ایک سفاک حقیقت“، ”گلوبلائزیشن کا ظلم اور ستم ظریفی“، ”ایک تلخ اور افسوسناک امر“، ”میرے ایک اسٹوڈنٹ نے رومن اردو میں پیپر حل کیا اور منت کی کہ مَیں اُسے پاس کر دوں۔ اب یہی چلے گا، لیکن اِسے تسلیم کرنے کے لئے مجھے صدیاں گزر جائیں گی۔“

یوں میرے فیس بُک فرینڈز لسانی وفاداری کے سوال پر دو گروہوں میں تقسیم تو ہوئے، مگر سیاسی دھڑوں کے کلچر میں فکری سطح پر بھی ہر دَور میں ففٹی ففٹی سوچ والی ایک رپبلکن پارٹی، پی ڈی پی یا مسلم لیگ (ق) ہوا کرتی ہے۔ جیسے میرے ایک دوست، جنہوں نے دل جمعی سے حروف ِ تہجی کا ایک سسٹم وضع کیا جو افقی اور عمودی لکیروں، چند نقطوں اور ننھے منے دائروں پر مشتمل تھا۔ پوچھا کہ اِس کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ کہنے لگے: ”میرے بچوں کو اردو ہجے مشکل لگتے تھے۔ اُن کی عمر کے سب بچوں کی خاطر یہ کیا ہے۔“ عرض کیا: ”آپ کو اسکول میں خود کتنی دقت ہوئی تھی؟“ ”بالکل نہیں ہوئی تھی۔“ ”تو سر، یہ اسکرپٹ کی پیچیدگی کا معاملہ تو نہ ہوا، موٹیویشن کا مسئلہ ہوا۔“ بہت بھلے آدمی تھے، لیکن اِس مکالمے کے بعد پھر کبھی تشریف نہ لائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments