سستی موت بانٹتا کالا پتھر


پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہو ریا ہے۔ جسم و روح کا تعلق قائم رکھنا مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے۔ لوگوں کے نزدیک مرنا آسان اور جینا مشکل ہے۔ یہاں روزمرہ استعمال کی اشیاء خورد و نوش جو ایک مہذب انسان کے جینے کے لئے ضروری ہیں اور مہذب معاشرے کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں روز بہ روز مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ مگر یہاں ایک ایسی چیز بھی ملتی ہے جو زندگی کے خاتمہ کے لئے سب سے سستی سمجھی جاتی ہے تمہید باندھنے کا مقصد دراصل مہنگائی نامہ نہیں ہے بلکہ میرے آبائی شہر میں گزشتہ دنوں دو خودکشی کے واقعات اور ان کی وجوہات کا ذکر کرنا ہے۔ خودکشی کرنے والوں میں ایک نوعمر لڑکا اور شادی شدہ خاتون شامل ہیں معاملہ عشق کا نہیں لیکن ان کی اپنی اپنی داستان ہے جس میں مشترک چیز کالا پتھر ہے۔ دونوں نے کالا پتھر پی کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔

جنوبی پنجاب با الخصوص ڈیرہ غازی خان کے مضافاتی علاقوں میں تعلیم کی روشنی نہیں پہنچ سکی جبکہ بے روزگاری، عائلی مسائل، محبت میں ناکامی، والدین کی ڈانٹ ڈپٹ اور ایسے دیگر چھوٹے مسائل کی بنا پر خودکشیوں کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ خطرناک امر یہ کہ ملک کے دیگر اضلاع کی نسبت یہاں کالے پتھر سے خودکشیوں کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک کیس جام پور کے نواحی شہر کوٹلہ مغلاں کے گاؤں میں پیش آیا جہاں سترہ سالہ نو عمر جوان نے باپ سے اینڈرائیڈ موبائل کی فرمائش کی جو پوری نہ ہونے پر کریانہ کی دکان سے کالا پتھر لیا اور پی کر خود کشی کرلی۔

دوسرا کیس جام پور شہر کا ہے جہاں تین سال خاوند سے جھگڑے کے باعث ماں باپ کے گھر بیٹھنے والی لڑکی کو جب خاوند منا کر لے گیا تو 15 دن بعد خبر آئی کہ لڑکی نے کالا پتھر پی لیا ہے، متاثرہ لڑکی کو ہسپتال منتقل کیا گیا مگر جانبر نہ ہو سکی۔ ایک ریسرچ کے مطابق افریقہ اور ایشیاء میں خودکشی کے لئے کالا پتھر کا استعمال اتنا زیادہ ہے کہ پچھلے 50 سالوں میں ہونے والی 60 فیصد خودکشیوں کی وجہ یہ بنا۔

ریسرچ کے مطابق کالے پتھر سے خودکشی کی وجہ اس کی آسانی سے دستیابی اور ارزاں نرخوں میں ملنا ہے۔ کالا پتھر دراصل نیپال اور انڈیا میں کوہ ہمالیہ کے سلسلے میں پایا جاتا ہے، تلخ حقیقت یہ ہے کہ قاتل پتھر پاکستان میں وہ واحد درآمد کردہ چیز ہے جو باہر سے منگوانے کے باوجود 2018 سے پہلے پتھر پنسار اور پرچوں کی دکانوں سے صرف دس روپے میں ساشے یا ڈبی کی صورت میں مل جاتا تھا۔ مگر 2018 میں ملتان اور ڈیرہ غازی ڈویژن میں ایک ہی سال میں تین سو سے زائد خودکشی کے واقعات کے بعد حکومت پنجاب نے صوبے بھر میں کالے پتھر کی فروخت پر دفعہ 144 کے تحت پابندی عائد کردی۔

اس پابندی پر کچھ ہی عرصے عمل ہوا اور مگر یہ پابندی بھی بس نام کی ہی ثابت ہوئی اور کچھ ہی عرصہ بعد نہ صرف اس کی فروخت شروع ہو گئی بلکہ اس دفعہ نیا طریقہ استعمال کیا گیا وہ یہ کہ مہندی بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے اس کو مہندی میں مکس کرنے کے ساتھ ساتھ الگ سے بھی ہیئر کلر کے نام سے فروخت کیا جانے لگا۔

اب یہ حالات ہے کہ دس روپے میں ملنے والی یا قاتل زہر اب تیس روپے میں باقاعدہ کمپنی کی پیکنگ میں دستیاب ہے، مہندی ساتھ میں الگ ملتی ہے۔ نیشنل پوائزن کنٹرول سینٹر کراچی کی ریسرچ کے مطابق کالے پتھر کے استعمال سے خودکشی کرنے والے افراد کی عمر 21 سے 38 سال کے بیچ ہے اور جن مین سے 75 فیصد صرف خواتین ہیں۔

تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال جام پور کے ڈی ایم ایس ڈاکٹر غلام جیلانی کے مطابق ان کی پوسٹنگ کے دو سال کے عرصہ کے دوران کالے پتھر پینے سے خود کشی کے اتنے واقعات آچکے ہیں کہ اب وہ حتمی اعداد و شمار بتانے سے بھی قاصر ہیں، ان کے مطابق صرف جون کے مہینے میں ہی 7 سے 8 کیسز کا تعلق کالے پتھر سے تھا۔ ہمارے سوال پر کہ آخر کالا پتھر ہی کیوں؟ پر جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کالا پتھر کا زیادہ استعمال دراصل آسانی سے دستیاب ہونا، سستا ہونا ہے، یہ نہ صرف مہندی میں ہوتا ہے بلکہ کالا کولا میں بھی ہوتا ہے جو کہ گھر گھر مل جاتا ہے۔ ان کے مطابق یہ تو وہ کیسز ہیں کہ جو ہسپتالوں میں رپورٹ کیے جا رہے ہیں، دیہی علاقوں میں جہاں ذرائع آمدورفت نہ ہونے اور صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں وہاں پر ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی مضروب چل بستا ہے اور خاندان کی جانب سے بدنامی اور پولیس کے جھمیلوں سے بچنے کے لئے کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتا ہے۔

خودکشی کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر غلام جیلانی کا کہنا تھا کہ عموماً خانگی مسائل اور گھریلو جھگڑے، محبت میں ناکامی اور پسند کے رشتے نہ ہونے پر نوجوان لڑکے خاص طور پر خواتین اس کو پانی میں ملا کر پی لیتے ہیں۔ نیشنل پوائزن کنٹرول سینٹر کراچی اور ڈاکٹر غلام جیلانی کے مطابق کا لا پتھر بے بو اور بے ذائقہ ہو نے کی و جہ سے پا نی میں گھول کر پینا انتہائی آسان سمجھا جا تا ہے، مگر یہ اتنا مہلک ہے کہ اس کو پینے کے چند ہی منٹوں میں موت کے مراحل شروع ہو جاتے ہیں، جس میں سب سے پہلے کا لا پتھر پینے والے کی گردن کی رگیں پھولنا، بینائی ضائع ہو نا اور سانس کی نا لی بند ہونے کے سبب انسان کو شد ید جھٹکے لگنا شا مل ہے۔

نیشنل پوائزن کنٹرول سینٹر کی سٹڈی کے مطابق مریض کو پندرہ منٹ کے اندر اندر ابتدائی طبی امداد نہ ملے تو بچنے کے چانسز ناپید ہو جاتے ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر غلام جیلانی کے مطابق ان کے پاس تین سے چار کیسز ایسے آئے کہ جس میں مریض بچ تو گئے مگر اس کے گردے فیل ہو گئے یا پھر جگر کا عارضہ لاحق ہو گیا جس کے کچھ ہی عرصہ کے بعد یہ افراد موت کی آغوش میں چلے گئے۔ جرمنی، فرانس اور سویڈن نے 19 ویں صدی کے اوائل میں ہی اس مہلک زہر کے بالوں کورنگ کرنے والی کریموں میں استعمال پر تک بھی پابندی عائد کردی تھی۔

مگر پاکستان میں نہ صرف ہزار ہا کریمیں اور مہندی کی اقسام دستیاب ہیں بلکہ کالا پتھر بھی آسانی سے دستیاب ہے۔ نیشنل پوائزن کنٹرول سینٹر کی جانب سے حکومت سے فوری طور پر ایسی مصنوعات جس میں کالے پتھر کا استعمال کیا جا رہا ہے کی تشہیر، مارکیٹ میں رسد اور رجسٹریشن پر پابندی کی سفارشات کی گئیں مگر 6 سال گزرنے کے باوجود ان سفارشات پر عمل نہیں ہوا ہے۔ وزیراعظم پاکستان اور وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار سے اپیل ہے کہ اس سستی موت کے ذریعے پر فوری پابندی عائد کرتے ہوئے جہاں ایسے واقعات ہوں اس علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر اور ایس ایچ او کی معطلی جیسی سزاؤں کا اعلان کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments