میری بزرگی کھا گیا کون؟


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ریاست کا بادشاہ ایک کم عقل نوجوان بن گیا۔ اس نے حکم دیا کہ جتنے بھی بڑھے ہیں سب کو ایک الگ بستی میں محدود کر دیا جائے اور ان سے کوئی رائے نہ لی جائے اور نہ ہی امور میں مداخلت کی اجازت ہو گی۔ سب بوڑھوں کو ایک بستی میں محدود کر دیا گیا۔ مگر ایک جوان کو اپنے دادا سے بے انتہا محبت تھی اس نے اپنے دادا کو گھر میں ہی چھپا لیا۔ کچھ عرصہ گزرا تو بادشاہ نے شہر سے بہترین نوجوانوں کا انتخاب کیا اور اپنے ساتھ سفر پر لے کر نکل پڑا۔

اس انتخاب میں وہ نوجوان بھی شامل تھا۔ اس نے اپنے دادا کو اکیلا نہ چھوڑا اور اپنے سامان میں چھپا کر ساتھ لے کر چلا۔ سفر کے دوران کسی جھیل کنارے پڑاؤ ڈالا گیا۔ اچانک بادشاہ نے دیکھا کہ جھیل کے درمیان ایک چمکتا ہیرا موجود ہے۔ بادشاہ نے تیراک بلائے اور حکم دیا کہ یہ ہیرا نکالا جائے۔ جو تیراک جاتا ناکام لوٹ کر آتا۔ اسی دوران نوجوان نے موقع پا کر اپنے دادا سے چوری چھپے مشورہ مانگا تو بزرگ نے بتایا کہ یہ ہیرا جھیل میں نہیں بلکہ سامنے والی پہاڑی پر موجود ہے اور اس کا عکس پانی پر موجود ہے۔ یوں بادشاہ نے ہیرا حاصل کیا۔ اس کے بعد بادشاہ نے نہ صرف بزرگوں پر لگی پابندیاں ختم کیں بلکہ غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے معافی مانگی۔

موجودہ دور میں بھی بزرگوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی سلوک کیا جا رہا ہے۔ اکثریت بزرگ ایسے کھلونے کی حیثیت رکھتے ہیں جو بچوں کے کھیلنے کے کام آتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ ذمہ داریاں بزرگوں کے لیے مختص کی گئی ہیں جیسے گھر کی رکھوالی، مسجد جانا، دوستوں کے ساتھ میل جول وغیرہ وغیرہ۔ ہر ملک میں ہر قوم میں یہی رواج پایا جاتا ہے۔ جو اقوام اس سے مبرا ہیں ان کے ہاں اولڈ ایج ہوم کا نظام موجود ہے۔

نہایت افسوس کا مقام ہے کہ بزرگوں سے ان کے تجربات اور مشاہدات سے سیکھا ہی نہیں جاتا۔ جبکہ سیکھنے کے مواقع موجود ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بزرگ ہمارے دور کے جوان نہیں اور ہم ان کے دور کے جوان نہیں مگر اخلاقی اقدار اور باہمی رشتے اسی جگہ موجود ہیں۔ ان کا ہنر اسی جگہ کھڑا ہے کہ جن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔

بوڑھوں سے استفادہ کرنے کی بجائے ان کو تنہائی کے زندان میں دھکیل دینا اور ان کے ہنر اور تجربات کو ضائع کر بیٹھنا حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہوتا کہ بزرگ کا اس عمر میں وہ سرمایہ ضائع ہو رہا ہے کہ جس کے لیے اس نے اپنی عمر گنوا دی۔ اسی بے خبری میں ہم گزشتہ دور کے انمول تجربات گنوا دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ کڑی ٹوٹ جاتی ہے جو اگر نسلوں تک جائے تو نسلیں ہنر مند اور عقل مند پیدا ہوں۔ اور اس کڑی کے ٹوٹنے میں قصور وار ہماری وہ روایات ہیں جن کی وجہ سے بزرگ ایک چوکیدار یا پھر بچوں کو بہلانے والا کھلونا بن کر رہ گیا ہے۔

خدا بزرگوں کو سلامت رکھے! آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments