ورکشاپ میں بچے کو دیکھ کر کیلاش ستیارتھی یاد آتے ہیں


11 جنوری 1954 کو ہندوستانی ریاست مدھیہ پردیش کے ایک گاؤں ودیشہ میں ایک پولیس ہیڈ کانسٹیبل کے گھر ایک معصوم بچے نے جنم لیا جس کا نام کیلاش رکھا گیا۔

کیلاش کا باپ جتنا سخت گیر تھا اس کی ماں اتنی ہی نرم خو اور خوش خلق خاتون تھی وہ سفید ان پڑھ تھی لیکن اعلیٰ اخلاقی اقدار کی مالک تھی۔ اس کے گاؤں میں ہندو مسلم مل جل کر رہتے تھے، اس نے قریبی مسجد کے مولوی سے اردو اور گورنمنٹ سکول سے ہندی اور انگریزی سیکھی۔

چلچلاتی دھوپ میں ننگے پاؤں، یونیفارم کے بغیر، پھٹے پرانے بستوں میں ایک آدھ کتاب لے کر سکول آتے بچے دیکھ کر اس کا دل افسردہ ہوجاتا تھا لیکن اس سے بھی زیادہ دل خراش منظر اسے چائے کے ڈھابوں پہ برتن دھوتے، مکینکوں کی ورکشاپس پر گریس میں لتھڑے ہاتھوں سے اوزار اٹھاتے اور اینٹوں کے بھٹوں پہ کام کرتے بچوں کا لگتا تھا جو کسی حال میں سکول نہیں جا سکتے تھے، جن کے مقدر میں روٹی کے چند ٹکڑوں کے لیے سسکنا اور بلکنا لکھ دیا گیا تھا۔

اس احساس اور دردمندی کے پیچھے شاید اس کی ماں کی تعلیم و تربیت کا ہاتھ تھا جس نے اسے ہمیشہ انسان دوستی اور اعلیٰ ظرفی کا درس دیا تھا۔ وہ محبت کی ایسی میٹھی آنچ پہ پک کر سن شعور میں قدم رکھ رہا تھا کہ اسے سنسار کے سارے دکھ اپنے دکھ محسوس ہونے لگ گئے تھے۔

بھوپال یونیورسٹی سے انجینئرنگ مکمل کرنے کے بعد کیلاش نے کالج میں لیکچرار کی نوکری کرلی۔ ایک آسودہ زندگی میں قدم رکھنے کے بعد بھی وہ معاشرتی ناہمواریوں پہ کڑھتا رہتا تھا۔ خاص طور پر معصوم بچوں کو مزدوروں کی طرح کام کرتا دیکھ کر وہ بہت غمزدہ ہو جاتا تھا۔ اس کے اندر ایک طوفان جنم لے رہا تھا، سسکتی بلکتی انسانیت کے لیے کچھ کرنے کی شدید خواہش کا طوفان۔ بس اسے کسی مناسب وقت اور مقام کی تلاش تھی۔

آخر کار چند سال نوکری کرنے کے بعد 1980 میں کیلاش نے نوکری چھوڑ دی اور ”بچپن بچاؤ آندولن“ یعنی بچوں کے بچاؤ کی تحریک شروع کر دی جس نے زبردست مقبولیت حاصل کی اور بچوں کے حقوق کے سلسلے میں سماج کو آگہی فراہم کی۔

اس نے اپنی زندگی بچوں کے حقوق کی جنگ کے لیے وقف کر دی، اسے جس فورم پہ بھی جانا پڑا وہ گیا اور بچوں کو ظلم و تعدی سے نجات دلائی اس نے ہزاروں بچوں کو کام کی جگہ سے اٹھایا اور ان کو سکول کی راہ دکھلائی۔ ان کے غریب والدین کو رقم فراہم کی اور بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کیے۔

آہستہ آہستہ لوگ کیلاش کے جنون سے واقف ہونے لگے۔ مخالفت پہ اترنے والے معتدل ہو گئے اور جو پہلے سے معتدل تھے انھوں نے دامے درمے سخنے مدد کرنا شروع کردی۔

1998 میں کیلاش نے ”گلوبل مارچ اگینسٹ چائلڈ لیبر“ شروع کیا اور 80000 کلومیٹر کا سفر کرتے ہوئے 103 ممالک کا وزٹ کیا اور دنیا کو اس بات پہ قائل کرنے کی کوشش کی کہ بچوں سے غیر قانونی طور پر مزدوری کروانے سے متعلق قانون سازی کی جائے۔

کیلاش کی ان تھک محنت اور جستجو کے باعث عالمی برادری اس اہم مسئلے پر اپنی توجہ مبذول کرنے پہ مجبور ہو گئی اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن کے کنونشن نمبر 182 کا انعقاد کیا گیا جس کا موضوع ”مزدور بچوں کی حالت زار“ تھا۔

اس کے بعد کیلاش نے گلوبل کمپین فار ایجوکیشن شروع کی اور بہت سی ٹریڈ یونینز کے ساتھ معاہدے کیے کہ وہ کم عمر بچوں سے مزدوری نہیں کروائیں گے اس کے علاوہ کیلاش نے جنوبی ایشیا میں قالین بافی کی صنعت سے وابستہ افراد کی تنظیموں کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ اپنی صنعت میں بچوں سے مزدوری نہیں لیں گے۔

کیلاش نے غربت، بے روزگاری، جہالت، بڑھتی آبادی اور دیگر سماجی مسائل پر کھل کر بات کی اور عوام الناس کے شعور کو بیدار کیا۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق کیلاش نے ہندوستان بھر سے تقریباً 90000 بچوں کو چند ٹکوں کی مزدوری سے نکال کر سکول کی راہ دکھلائی اور انھیں روشن مستقبل کی نوید سنائی۔

کیلاش کو یونیسکو نے اعزازی عہدہ عطا کیا۔
گوڑ گاؤں یونیورسٹی نے اسے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔

2014 میں اسے بچوں کی تعلیم کے حق بارے شعور بیدار کرنے جیسی خدمت کے طفیل نوبل انعام برائے امن عطا کیا گیا۔

میں یہ تو نہیں کہتا کہ ہندوستان سے چائلڈ لیبر کا خاتمہ ہو گیا ہے مگر مجھے یقین ہے کہ کیلاش ستیارتھی کی کوششوں سے ایک سماجی شعور کا آغاز ہوا، وہ نوے ہزار بچے جن کے گریس زدہ ہاتھوں کو دھلوا کر ان میں کتابیں اور قلم تھما دی گئیں وہ سب چراغ ثابت ہوں گے جن کی روشنی مل کر ایک نئی صبح امید کا استعارہ ثابت ہوگی۔

جب میں اپنے وطن عزیز پاکستان میں آئے روز سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز دیکھتا ہوں کہ جن میں کام کی جگہوں پر محنت مزدوری کرنے والے یا مدارس میں پڑھنے والے بچوں کو ذرا ذرا سی بات پر بے دردی سے پیٹا جا رہا ہوتا ہے تو مجھے کیلاش ستیارتھی بہت یاد آتا ہے

کبھی کوئی مکینک، کوئی ہوٹل والا، کوئی بھٹے والا یا کوئی بے ہنر نام نہاد استاد بچے کو چھڑی، ہنٹر، تھپڑوں مکوں اور لاتوں سے مار رہا ہوتا ہے اور بچہ لٹو کی طرح زمین پر گھوم رہا ہوتا ہے اور وہ ظالم اس کے نازک اور کمزور جسم پر پوری قوت سے تشدد کر رہا ہوتا ہے تو مجھے کیلاش ستیارتھی بہت یاد آتا ہے۔

یہاں تو دو وقت کی روٹی اور چند ٹکوں کے عوض چھوڑ کے جانے والوں کے بچے بلک بلک کے، سسک سسک کے چپ ہو جاتے ہیں اور ہانپتے کانپتے پھر کام میں جت جاتے ہیں کیونکہ یہاں کوئی کیلاش نہیں ہے، ایک بھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments