تشدد پسندی کا شکار معصوم بچے


نیشنل جیوگرافک وائلڈ کا ایک غیر معمولی ویڈیو کلپ بہت مشہور ہوا اور دنیا بھر میں لوگوں نے اسے بہت پسند کیا، ہوا کچھ یوں کہ ایک شیرنی کو جنگل میں ایک لاوارث پاڑا ) Wilderbeest ) کا نوزائیدہ بچہ ملا جسے وہ با آسانی کھا سکتی تھی، مگر وہ بچہ اتنا چھوٹا تھا کہ اپنے دشمن یعنی شیرنی کو پہچان ہی نہیں رہا تھا بلکہ شیرنی کو اپنی ماں سمجھ کر اس کے ساتھ چل رہا تھا۔ شیرنی نے کئی دن اس بچے کی حفاظت کی اور اسے نہیں کھایا۔ ایک بہت ہی دل کو چھو لینے والا منظر تھا کہ شیرنی بھوکی ہونے کے باوجود نہ خود اس بچے کو کھا رہی تھی بلکہ جھنڈ کے دوسرے شیروں سے بھی اس کی حفاظت کر رہی تھی۔ ممکن ہے یہ اس بات کی علامت ہو کہ شیر جیسے خونخوار درندوں کے دل میں بھی بچوں کے لئے خاص رحم ہوتا ہے۔

بچے انسان کے ہوں یا جانور کے ان پر پیار آنا ایک فطری عمل ہے، چہ جائیکہ انسان کا بچہ، ایک عام انسان دشمن کے بچوں پر بھی پیار کی نگاہ اور رحم کا برتاؤ کرتا ہے، تو یہ کون شقی القلب لوگ ہیں جو بچوں کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کر رہے۔

دل تو نہیں چاہتا تھا کہ اس موضوع پر قلم اٹھایا جائے مگر ایک مہینے میں پہ در پہ بچوں کے اندوہناک قتل کے واقعات نے مجبور کر دیا کہ اس موضوع پر کچھ بات ضرور ہونا چاہیے۔ اس پورے قضیے میں امر استعجاب یہ ہے کہ نوعمر بچوں نے کھیل میں لڑائی ہونے پر اپنے دوست کو جان سے مار دیا۔ یہ ایک انتہائی خطرناک اور پریشان کن صورتحال ہے جو معاشرے میں پنپ رہے تشدد پسندی کے رجحانات کی نشاندہی کر رہی ہے اور نوبت اس حد تک آ پہنچی ہے کہ بچے بھی انتہائی قدم اٹھانے سے نہیں چوک رہے۔

اس ایک مہینے میں قتل کے متعدد اندوہناک واقعات رونما ہوئے جس کا بیشتر شکار بچے تھے یہ تمام واقعات غیر معمولی طور پر سنگین اور ایک خاص رجحان کی جانب اشارہ کرتے نظر آتے ہیں۔ جو معاشرے میں عدم برداشت اور مشتعل مزاجی کی خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی شرح کو ظاہر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پہلا واقعہ جس نے سب ہی کو حیرت زدہ کر کے رکھ دیا وہ خانیوال میں چار سال کی بچی کا قتل تھا جسے اس کے سگے چچا نے محض گھریلو رنجش کی وجہ سے قتل کر دیا تھا۔

دوسرا واقعہ پشاور میں ہوا جس میں سات افراد کو قتل کیا گیا جن میں تین نو عمر بچے بھی تھے جنہیں ان کے اپنے سگے باپ نے قتل کیا تھا۔ سب سے زیادہ توجہ طلب اور پریشان کن واقعہ لاہور کے آٹھ سالہ علی شیر کا قتل تھا کہ جسے اس ہی کی عمر کے دو نو عمر دوستوں نے کھیل میں لڑائی ہونے پر مل کر جان سے مار دیا، انہوں نے اس کے سر کو اینٹوں سے کچل کر لاش کھیتوں میں دبا دی۔ بچوں میں پنپ رہے اس خوفناک تشدد کے زہر کا فوری تریاک ضروری ہے، ورنہ بہت ہی سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔

چوتھا واقعہ رائیونڈ میں ایک سوتیلی ماں نے دو کم سن بچوں کی جان بجلی کے جھٹکے لگا کر لے لی، جن کی عمریں چار اور چھ سال تھیں۔ یہ بھی ایک انتہائی سفاکی و بے رحمی کا دل دہلا دینے والا واقعہ تھا، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہمارے معاشرتی رویے کس ڈگر پر جا رہے ہیں کہ عورت جیسی نرم طبیعت والی ہستی بھی اتنی بے رحم اور شقی القلب ہو سکتی ہے کہ کم سن بچوں کو بجلی کے جھٹکوں سے اذیت دے کر ان کی جان لے لے۔ یہ نوشتہ ء دیوار ہمیں آج ہی پڑھ لینا چاہیے، کل ہو سکتا ہے کہ بہت دیر ہو جائے۔ پانچواں واقعہ ایک دو سال کے بچے کا پڑوسن کے ہاتھوں اغواء اور قتل ہے، پڑوسی خاتون نے بچے کو اغواء کر کے نوے لاکھ تاوان مانگا تھا، نہ ملنے پر بچے کی جان لے لی۔ مذکورہ بالا تمام واقعات میں تین باتیں مشترک ہیں۔ :

نمبر 1۔ تمام قتل نہایت سفاکیت و درندگی کے ساتھ انجام دیے گئے۔
نمبر 2۔ تمام وارداتوں میں کم عمر بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔
نمبر 3۔ تمام واقعات میں رشتہ داری و تعلق داری کو پس پشت رکھ کر جرم کا ارتکاب کیا گیا۔

مندرجہ بالا معلومات کی روشنی میں بلامبالغہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے اردگرد بدترین سماجی روئیے پروان چڑھ رہے ہیں، جہاں معمولی فائدے کے لئے انسان کی جان بہت غیر اہم اور بے قیمت ہو کر رہ جاتی ہے، جہاں ہر قسم کا تعلق بے معنی و بے قیمت ہو کر رہ جاتا ہے، جہاں صرف غرض کا سکہ چلتا ہے اور غرض کی خاطر کچھ بھی کیا جاسکتا ہے، اگر قریب ترین لوگوں کے بچوں کو قتل کرنا پڑے تو بے دریغ و بلا جھجک کیا جاسکتا ہے، یہ نہایت ہی خطرناک صورتحال ہے، اور کون کب اس کا شکار ہو جائے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ان معاملات کے سدھار کی فوری تدابیر کی جائیں، انفرادی و اجتماعی طور پر اور عام آدمی سے لے کر حکومتی سطح تک اس کے سدباب کے لئے فوری اور سخت اقدامات کیے جانے نہایت ضروری ہیں۔

ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ہم اپنے روایتی سماجی ڈھانچے کو دوبارہ سے روشناس کرائیں اور گمشدہ اخلاقی اقدار کو پھر سے زندہ کریں۔ تو بہت ممکن ہے کہ معاشرے میں کچھ سدھار پیدا ہو اور لوگ ایک بار پھر سکون کا سانس لے سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments