عمران بڑا اپدیشک ہے


اس بات میں اب کوئی شک اور شبہ نہیں رہ گیا ہے کہ کل قومی اسمبلی کے فلور پر عمران خان نے جو تقریر کی اسے اگر ماضی میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہونے والے بین الکلیاتی یا بین الصوبائی تقریری مقابلوں میں شامل کر لیا جائے تو وہ لازماً اول انعام کی مستحق ہوتی اور اگر انفرادی مقابلوں کی بجائے ٹیموں کی بنیاد پر مقابلہ ہو رہا ہوتا تو وہ 1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ سے بھی کہیں بڑی ٹرافی اپنے نام کرنے میں کامیاب ہو جاتی۔

تقاریر کے حساب سے اگر عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے اور کل کی اسمبلی میں ہونے والی تقریروں کا موازنہ کیا جائے تو ان سب میں سب سے اول نمبر پر آنے والی تقریر وہ تقریر ہے جو انھوں نے اقوام متحدہ میں کی جس میں انھوں نے نہ صرف اسلامو فوبیا کے متعلق نہایت جامع انداز میں مسلمانوں کی ترجمانی کی بلکہ جس انداز میں کشمیر کے مسئلہ کو اجاگر کیا وہ یقیناً تاریخ میں سنہری حرفوں میں لکھے جانے کے قابل ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے قبل اور اب تک، قوم سے وہ کون سا خطاب ہے جو ہر پاکستانی کی آنکھوں میں ایک سے ایک حسین خواب نہیں سجاتا رہا ہے لیکن آج تک کیا کسی بھی پاکستانی کی آنکھوں میں سجے خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے؟ اقوام میں متحدہ میں کی گئی تقریر کی گونج پوری دنیا میں بہت دیر تک سنائی دیتی رہی اور اس پر دنیا بھر کے سربراہوں کے تبصرے اس بات کے گواہ ہیں کہ اسے نہ صرف اسلامی دنیا میں سراہا گیا بلکہ بیشمار وہ ممالک جو اسلام دشمن ملکوں میں شمار ہوتے ہیں، وہاں سے بھی جو پیغامات ملے وہ بہت حوصلہ افزا تھے لیکن اس کے فوراً بعد بھارت نے اسی کشمیر پر جبراً آئینی قبضہ کر کے وادی کشمیر میں وہ قیامت برپا کی جو کبھی چنگیزی دور نے بھی نہیں دیکھی ہو گی۔ وہی کشمیریوں کی وکالت کرنے والے عمران خان صاحب اور ان کی حکومت، کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے ایک جبر مسلسل پر آج تک کھڑے رہنے کے مظاہروں کے علاوہ عملاً کچھ کرتے نظر نہیں آئے۔

یہ وہی ”اپدیشک“ ہیں جو اقتدار میں آنے سے قبل اپنی قوم سے جو جو وعدے اور دعوے کرتے رہے تھے، کرسی اقتدار سنبھالتے ہی اپنے ایک ایک کیے گئے وعدے اور دعوے سے اس طرح یو ٹرن لیتے رہے جیسے کوئی اپنے ہی لکھے کسی بھی غلط لفظ یا جملے کو اپنی تحریر سے مٹا دیا کرتا ہے۔ اقتدار سنبھالنے کی بعد بھی اپنے تمام دعووں اور قوم سے کیے جانے والے وعدوں سے منہ موڑ لینے کا سلسلہ اسٰ طرح جاری ہے جس طرح اقتدار میں آنے کے بعد اقتدار میں آنے سے پہلے جاری و ساری تھا۔ ان تمام حقائق کو سامنے رکھ کہ یہ کہنا نہایت مشکل ہے کہ کل وہ جس جرات مندانہ انداز میں اپنی خارجہ پالیسی بیان کرتے رہے ہیں، وہ اس پر دل جمعی سے قائم رہتے ہیں یا یہ کہہ کر راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں کہ

وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا

ان کا عزم و استقلال اپنی جگہ لیکن امریکا مخالف خارجی پالیسی اپنائے جانے کے پس منظر پر بھی ایک نظر ڈالنا بہت ضروری ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ اب امریکا بہر صورت افغانستان سے باہر نکلنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ امریکا کے انخلا کے بعد جس طرح وہاں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے اثار نمودار ہونا شروع ہو گئے ہیں وہ کسی بھی لحاظ سے پاکستان کے لئے اطمینان بخش نہیں کیونکہ امریکا کے ساتھ مل کر جس انداز میں پاکستان طالبان کی بیخ کنی کرتا رہا ہے وہ طالبان کے لئے ناقابل فراموش ہے۔

پھر یہ بھی ہوا کہ طالبان کی حمایت کرنے والے وہ تمام گروہ جو پاکستان میں موجود تھے، ان کے خلاف بھی جس شدید انداز میں کارروائیاں کی گئیں اس کو بھی نگاہوں کے سامنے رکھنا بہت ضروری ہے۔ ایسی صورت میں ان ہی طاقتوں کا افغانستان میں دوبارہ مضبوط ہوجانا بہر کیف پاکستان کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا دو ڈھائی دہائیوں کی امریکی یاری، امریکا سے دوری کی موجودہ پالیسی ان زخموں کا مرہم ثابت ہو سکے گی جو گزری حکومتوں نے ڈالروں کے لالچ میں جہادی گروہوں پر لگائے ہیں۔

ایک تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ بظاہر پاکستان کا یہ کہنا کتنا ہی اعتدال پسندانہ کیوں نہ ہو کہ وہ کسی ایک جانب ڈھل کر نہیں رہنا چاہتا لہٰذا وہ سب سے برابری کی بنیاد پر تعلقات رکھنا چاہتا ہے لیکن حقیقت میں پاکستان جس تیزی کے ساتھ چین کی گرفت میں آتا جا رہا ہے وہ کنویں سے نکل کر کھائی میں گرنے جیسا معاملہ نہ ہو جائے۔

ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ ہمارا پالیسی تبدیل کر لینا ممکن ہے کہ افغانستان میں سر ابھارتی قوتوں اور چین کو وہ اعتماد نہ دے سکے جو کسی بھی قسم کی مضبوط خارجہ پالیسی کی اساس ہوتا ہے اور پاکستان اسی اعتمادی و بے اعتمادی کی بنیاد پر کسی بڑے بحران کا شکار ہو جائے۔

ایک پہلو اس بات کا یہ بھی ہے کہ افغانستان کی طرح پاکستان بھی ایک ایسے میدان جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے جس میں لڑائی دنیا کی بڑی طاقتوں میں ہو لیکن چاند ماری کا میدان (خدا نخواستہ) پاکستان بن جائے۔

ان سارے پہلوؤں کا جائزہ لینا ہمارے ”اپدیشک“ کے لئے نہایت ضروری ہے۔ جب یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کی سیاست میں ہماری عسکری قوتوں کا عمل دخل ہمیشہ رہا ہے تو میرے اپنے خیال کے مطابق اسمبلی کے فلور پر اس نازک مسئلے کو اٹھانا موجودہ حکومت کو سیاسی فائدہ تو ضرور پہنچا سکتا ہے، کیونکہ پاکستان میں سیاسی قد کاٹھ اونچا کرنے کے لئے امریکا کی مخالفت اور ایم کیو ایم کے بانی کے شان میں قصیدہ گوئی کو بڑی پذیرائی ملتی ہے لیکن ریاست کے لئے ایسی باتیں کتنی سود مند ہو سکتی ہیں، اس کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہی ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments