جذباتی یونس خان ماضی کے تنازعات کو بار بار کیوں دہراتے ہیں؟

عبدالرشید شکور - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


یونس

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان یونس خان کا پورا کریئر ہنگامہ خیز رہا ہے اور وہ ایک ورلڈ کلاس کرکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی کرکٹ میں ایک ‘ہیپننگ’ اور ‘سرپرائز’ فیکٹر رہے ہیں۔

ان کا دور کپتانی بھی پاکستان کے نظام جمہوریت کی طرح رہا جیسے پاکستان کے جمہوری نظام میں بغاوت کے قصے ہیں ایسے ہی ان کے خلاف بھی کرکٹ کی تاریخ میں بغاوت رچی گئی تھی۔

پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ سنچریاں اور رنز بنانے والے بیٹسمین یونس خان جو اپنے جذباتی فیصلوں کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں، کبھی بھی کرکٹ اسٹیبلشمنٹ کے فیورٹ نہیں رہے۔ کچھ لوگوں کی رائے میں میں یہ یونس خان کا ’غیر لچکدار مزاج‘ ہے جس کی وجہ سے ان کی پاکستان کرکٹ بورڈ سے کبھی نہیں بنی۔

سابق کپتان یونس خان ایک بار پھر شہ سرخیوں میں ہیں۔ اور اس بار وجہ ہے ان کا حال ہی میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بیٹنگ کوچ کی حیثیت سے عہدہ چھوڑنا۔

انھوں نے 22 جون کو جب پاکستانی ٹیم کے بیٹنگ کوچ کا عہدہ چھوڑا تھا تو اس وقت انھوں نے اور پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ اس معاملے پر مزید کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ لیکن اس بات کو ابھی چند ہی دن گزرے ہیں کہ یونس خان میڈیا میں بیٹھے نظر آرہے ہیں اور کھل کر اپنے استعفے کی وجوہات بیان کر رہے ہیں۔ یونس خان اس معاملے کی ذمہ داری پاکستان کرکٹ بورڈ پر عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘وہیں سے اطلاعات اور خْبریں لیک ہوتی ہیں۔’

بقول یونس خان ‘وہاں بڑے بڑے نلکے کھلے ہوئے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو میں اس وقت ٹی وی پر بیٹھ کر باتیں نہ کر رہا ہوتا۔’

یونس خان نے چند روز قبل پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بیٹنگ کوچ کی حیثیت سے اپنے استعفے کے بارے میں یہ کہا تھا کہ ‘وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو سہارا دینے گئے تھے لیکن اگر کسی کو سہارا نہیں چاہیے تو وہ کیا کرسکتے ہیں۔’

یونس خان نے اس وقت یہ واضح کر دیا تھا کہ اس مرحلے پر استعفے کی وجوہات کی تفصیل میں جانا مناسب نہیں ہے اور چند ماہ گزرنے کے بعد وہ اس پر بات کریں گے لیکن بدھ کی شب اسی ٹی وی چینل کے پروگرام میں انھوں نے نہ صرف اپنے استعفے کی وجوہات بیان کیں بلکہ ایک بار پھر ان واقعات کو دہرایا جو 2009 میں ان کے خلاف ساتھی کرکٹرز کی بغاوت سے متعلق تھے۔

یونس خان نے بیٹنگ کوچ کی حیثیت سے استعفیٰ کیوں دیا؟

یونس خان نے پروگرام میں بیٹنگ کوچ کے عہدے سے استعفے کی بنیادی وجہ نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے کوچ، سابق ٹیسٹ کرکٹر محمد یوسف کی قومی ٹیم کے کیمپ میں آمد اور بیٹسمینوں کو مشورے دینا بتائی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘جب ٹیم سے وابستہ کوچز موجود ہیں تو پھر ہائی پرفارمنس سینٹر کے کوچز کا قومی کیمپ میں آنے کا کیا مقصد اور اگر انھیں لانا ہی تھا تو ٹیم کے بیٹنگ کوچ کو اس بارے میں پیشگی اطلاع دینے کی زحمت گنوارا نہیں کی گئی۔’

یونس خان

یونس خان نے یہ انکشاف بھی کیا کہ اس مبینہ مداخلت پر انھوں نے جنوری میں ہی اپنا استعفیٰ پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھیج دیا تھا جس پر ان کے مطابق چیف ایگزیکٹیو وسیم خان نے معذرت کی تھی جس کے بعد وہ دوبارہ کام کرنے پر راضی ہوگئے تھے۔

یونس خان نے اس پروگرام میں اپنے استعفے کی دوسری بڑی وجہ یہ بتائی کہ جب وہ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے دورے سے قبل اپنے دانتوں کا علاج کروا رہے تھے تو مبینہ طور پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے انھیں باضابطہ طور پر یہ بتانا مناسب نہیں سمجھا تھا کہ انھیں کب بائیو سکیور ببل میں داخل ہونا ہے۔

اس موقع پر انھوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایک اعلیٰ افسر کا نام لیے بغیر کہا کہ ‘انھوں نے مجھے فون کر کے کہا کہ آپ بائیو سکیور ببل میں نہیں آئے لہذا آپ ٹیم کے ساتھ انگلینڈ نہیں جاسکیں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ ان افسر نے مجھے یہ بھی باور کرایا کہ آپ کو یاد ہے کہ ہم نے محمد حفیظ کے ساتھ کیا کیا تھا؟’

یونس خان کا دعویٰ ہے کہ ‘اس بات پر انہوں نے فوراً اس افسر کو کہا کہ ‘میں محمد حفیظ نہیں بلکہ یونس خان ہوں اور میں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ اب میرا بیٹنگ کوچ کی حیثیت سے رہنا ممکن نہیں ہے۔’

یونس خان کے بیانات کے بعد فی الحال پی سی بی کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

یونس خان کے استعفے کی جو بھی وجوہات ہوں لیکن ایک بات ضرور حیران کن ہے کہ وہ ماضی میں اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کو کسی طور پر بھی بھولنے کے لیے تیار نہیں ہیں خاص کر سنہ 2009 میں جنوبی افریقہ میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی کے موقع پر اپنے ساتھی کھلاڑیوں کی بغاوت کو۔

یونس خان کے خلاف کرکٹ ٹیم میں بغاوت

اس بغاوت کا سبب یونس خان کا ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ مبینہ سخت رویہ بتایا گیا تھا۔ اس بغاوت میں شامل کرکٹرز میں شاہد آفریدی، شعیب ملک، مصباح الحق اور محمد یوسف پیش پیش تھے۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ان سینیئر کھلاڑیوں نے یونس خان کی کپتانی میں نہ کھیلنے کا عزم کرتے ہوئے ‘نہ صرف قرآن پر حلف اٹھایا تھا بلکہ وہ ٹیم کے یمنیجر یاور سعید کے توسط سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ سے بھی ملے تھے۔’

اگرچہ اس واقعے کو بارہ سال ہوچکے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ 2009 کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتنے والے فاتح کپتان اس بات کو ابھی تک نہیں بھولے اور اس کا ذکر کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔

یونس خان کو قدرے اکھڑ مزاج اور جذباتی تصور کیا جاتا ہے تو کچھ اسے ان کی صاف گوئی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے کریئر میں چند ایسے واقعات رہے ہیں جو ان کے جذباتی ہونے کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی ٹیم کے نئے بیٹنگ کوچ یونس خان ’کھرے مگر جذباتی انسان`

وہ رن جو یونس خان نے اپنی ذات کے لیے نہیں، پاکستان کے لیے بنایا

یونس خان واپس آئے اور چھا گئے

یونس خان نے اپنا وعدہ پورا کیا!

تین بار کپتانی چھوڑنا

یہ 2006 کی بات ہے جب پاکستانی ٹیم چیمپئنز ٹرافی کھیلنے کے لیے انڈیا جانے والی تھی اس وقت یونس خان ٹیم کے کپتان تھے۔ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان سے ملنے قذافی سٹیڈیم میں ان کے دفتر گئے۔

انھیں ملاقات کے لیے کچھ دیر انتظار کے لیے کہا گیا۔ وہ ان سے ملے بغیر نیچے سٹیڈیم میں آئے جہاں انھیں کوچ باب وولمر کے ساتھ میڈیا سے بات کرنی تھی۔ اس موقع پر یونس خان نے یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا کہ وہ کپتانی سے دستبردار ہو رہے ہیں کیونکہ وہ ’ڈمی کپتان‘ بننے کے لیے تیار نہیں۔

تاہم کچھ روز بعد شہریارخان کی جگہ چیئرمین بننے والے ڈاکٹر نسیم اشرف یونس خان کو قیادت سنبھالنے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

یونس خان کا اپنے اس عمل کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ جب انھیں شہریار خان سے ملنے کے لیے انتظار کے لیے کہا گیا تو وہاں موجود کچھ لوگ ان پر طنزیہ ہنسے تھے جو ان کے لیے قابل قبول نہ تھا۔

یونس خان نے دوسری مرتبہ سنہ 2007 میں انڈیا کے دورے کے موقع پر بھی اسی طرح کا فیصلہ کیا تھا۔ اس دورے میں انھوں نے شعیب ملک کے ان فٹ ہونے کے سبب دو ٹیسٹ میچوں میں کپتانی کی تھی لیکن شعیب اختر اور راؤ افتخار کی سلیکشن کے معاملات پر اعتماد میں نہ لیے جانے پر انھوں نے کپتانی نہ کرنے کا فیصلہ کر ڈالا۔ اس مرتبہ بھی ڈاکٹر نسیم اشرف کو انھیں سمجھانا پڑا تھا۔

یونس خان نے تیسری مرتبہ کپتانی چھوڑنے کا فیصلہ اس وقت کیا تھا جب قومی اسمبلی کے ایک رکن نے ان پر مبینہ طور پر میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔

یہ صورتحال یونس خان کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھی۔ اگرچہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے ان کے خلاف الزامات کو مسترد کر دیا تھا لیکن یونس خان نے اس وقت کے بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 2015 کے عالمی کپ کے موقع پر بی بی سی اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یونس خان نے یہ تسلیم کیا تھا کہ ماضی میں متعدد بار کپتانی چھوڑنا ان کی غلطی تھی۔

‘ہمارے جیسے کرکٹر کیا خود کو گولی مارلیں؟’

یونس خان نے 2014 میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو اس وقت زبردست تنقید کا نشانہ بنایا تھا جب انھیں آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے سیریز کے لیے ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا، تو جذباتی انداز میں انھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے سلیکٹرز کو چیلنج کیا تھا کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ نوجوان کرکٹرز ہی پاکستانی ون ڈے کرکٹ کا مستقبل ہیں تو وہ یہ بھی بتائیں کہ ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کا مستقبل کہاں ہے؟

‘سلیکٹرز کہتے ہیں کہ ان جیسے کرکٹرز کا مستقبل نہیں ہے تو کیا ان جیسے کھلاڑی خود کو گولی مارلیں۔’

یونس خان

ون ڈے انٹرنیشنل سے اچانک ریٹائرمنٹ

یونس خان کے چونکا دینے والے فیصلوں میں سے ایک فیصلہ ون ڈے انٹرنیشنل کریئر سے ریٹائرمنٹ کا تھا۔ یہ نومبر 2015 کی بات ہے جب پاکستانی کرکٹ ٹیم متحدہ عرب امارات میں انگلینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز کھیلنے والی تھی۔

یونس خان کی اسی سال کھیلے گئے ورلڈ کپ میں کارکردگی مایوس کن رہی تھی تاہم انھیں انگلینڈ کے خلاف سیریز کے لیے ٹیم میں شامل کیا گیا تھا لیکن انھوں نے پہلا میچ کھیلنے کے بعد یہ اعلان کر ڈالا کہ وہ ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔

یہ صورتحال سلیکشن کمیٹی کے لیے حیران کن تھی۔

انڈر 19 کی کوچنگ

پاکستان کرکٹ بورڈ نے یونس خان کو دو سال قبل پاکستانی انڈر 19 ٹیم کی کوچنگ کی پیشکش کی تھی لیکن دونوں فریقین کسی معاہدے پر نہ پہنچ سکے۔ بتایا جاتا ہے کہ یونس خان مبینہ طور پر سلیکشن کے معاملات میں بھی اختیارات چاہتے تھے جو بورڈ کے لیے قابل قبول نہ تھا۔

کرکٹ اکیڈمی کے کمرے پر ٹویٹ

اپریل 2018 میں یونس خان کی ایک وڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں انھوں نے بتایا کہ انھیں لیول تھری کے کوچنگ کورس کے لیے مدعو کیا گیا تھا لیکن جب وہ قومی کرکٹ اکیڈمی پہنچے تو ان کے رہنے کا کوئی انتظام نہیں تھا اور انھیں مدثر نذر کے کمرے میں ایک رات گزارنے کے لیے کہا گیا جس پر انھوں نے انکار کر دیا اور وہ کورس میں شرکت کے بغیر ہی واپس کراچی چلے گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32553 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp