بیانات سے پیٹ نہیں بھرتا وزیراعظم صاحب


وزیراعظم عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی میں روح پرور (روح پرور اس لئے کہ کئی اراکین اسمبلی تکبیر اور رسالت کے نعرے لگاتے رہے ) اور دلیرانہ تقریر نے اقوام عالم کے دل موہ لئے۔ ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈز ہوں یا پھر اخبارات اور ویب سائٹس ہر جگہ ہی واہ واہ ہوتی رہی، (یہ ایک الگ بات ہے وفاقی وزیر غلام سرور کو اس دوران نیند آ گئی ) کسی اخبار نے سپر لیڈ لگائی تو کسی نے لیڈ، لگاتے بھی کیوں نہ ایسا بیان اور ایسے الفاظ آج تک کس وزیر اعظم نے بولے ہیں بھئی؟ پچھلے تو پرچیاں پکڑ کے بولتے تھے۔ اس بیان کی توصیف میں اس تحریر کی اشاعت تک ایڈیشنز اور اداریے بھی آچکے ہوں گے۔

خبردار میری اتنی تعریف کا مطلب کہیں یہ نہ لیا جائے کہ مجھے شاید ڈی جی پی آر میں بلا کر کوئی لفافہ پکڑایا گیا ہے، ارے نہیں بھیا یہ کام تو ماضی کے کرپٹ لوگ کرتے تھے۔ اب تو 21 ویں صدی ہے، اب ڈی جی پی آر والوں نے اخباروں میں بندے رکھوانے یا پیسے دینے کے بجائے اپنے افسران سے ہی یہ کام لینا شروع کر دیا ہے۔ اب اداریے بھی انہی کی مرضی کے یا پھر انہی کی طرف سے لکھے جاتے ہیں، خصوصی یا مہمان کالم بھی کئی اخبارات میں دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں جن میں الفاظ کے خوبصورت ہیر پھیر سے حالات کی ایسی منظر کشی کی جاتی ہے کہ لگتا ہے کہ بس اب وزیراعظم یا وزیراعلی صاحب اگلا افتتاح کسی دودھ یا شہد کی نہر کا کریں گے۔

چلئے چھوڑئیے یہ نہ ہو کر مدیران میری باتوں کو الزامات سمجھ کر برا نہ منا جائیں، ویسے فواد چودھری صاحب نے ٹویٹ میں میڈیا مالکان کو 70 کروڑ روپے کی ادائیگی کا ذکر کیا تھا، اب پتہ نہیں کون سی مد میں دیے گئے یہ 70 کروڑ، سیٹھ جانیں اور وزارت اطلاعات جانے۔ بہرحال اب سب شور و غل میں حکومت نے پیٹرول 2 روپے ہائی اسپیڈ ڈیزل ایک روپے چوالیس مہنگا کر کے ساتھ میں جتلا بھی دیا کہ بھیا مہنگا تو زیادہ ہونا تھا، وزیراعظم کے نیرو (یہ چین کی بانسری نہیں بجاتے، البتہ ٹویٹر پرچین چین ہی لکھتے ) ۔ ارے بھئی میری مراد معاون خصوصی برائے سیاسیات شہباز گل صاحب کے مطابق مہنگا تو چھ روپے ہونا تھا مگر کیونکہ عوام کا درد عمران خان کو چین نہیں لینے دیتا تو چھ روپے کی سمری کو دونوں ہاتھوں سے پھاڑ کر با امر مجبوری صرف دو روپے اضافہ کیا گیا۔

ارے شہباز گل صاحب ہم آپ کے اور ہمارے درد دل رکھنے والے وزیراعظم عمران خان صاحب دونوں کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں، کیونکہ آپ نے امریکہ کو منہ توڑ جواب دینے کے لئے یکے بعد دیگرے دیے جانے والے انٹرویوز، بیانات کی مصروفیت میں سے عوام کے لئے بھی وقت نکالا۔ پیٹرول مہنگا ہونے کی خبر کی سیاہی سوکھی ہی نہیں تھی کہ ساتھ ہی ایل پی جی بھی 19 روپے مہنگی کردی گئی، یاد رہے کہ یہ گزشتہ 30 دن میں چوتھی بار کیا گیا اضافہ تھا۔ الحمدللہ گرمیوں میں گیس کی بندش کا ریکارڈ اپنے نام کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو گرمیوں میں ایل پی جی کی قیمتیں بار بار بڑھانے کا بھی اعزاز حاصل ہوا ہے۔ اس سے پہلے تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایل پی جی کی قیمتیں گرمیوں میں بار بار بڑھائی گئی ہوں۔

صرف یہی نہیں ابھی کچھ ہی دن پہلے گھی اور تیل کی قیمتیں بھی 7 سے 20 روپے تک بڑھائی گئی تھیں، اب حالت یہ ہے کہ درجہ اول کا گھی 320 سے 330 روپے فی کلو اور درجہ دؤم کا 275 سے 285 روپے فی کلو مل رہا ہے۔ میرے تو دل سے آہ نکلتی ہے کہ کاش گھی کی جگہ عمران خان صاحب کے چین کے حق میں دیے گئے پھڑکتے ہوئے بیان کو ہانڈی میں ڈال کر تڑکا لگایا جاسکتا۔ یا پھر امریکا بہادر کو نہ کرنے کے بیان کو دکھا کر پیٹرول پمپ والے سے پیٹرول ڈلوایا جاسکتا، مگر ایسا صرف خوابوں خیالوں میں ہی ممکن ہے۔ یہاں ایک اور بری خبر دیتا چلوں کہ جولائی میں جب کبھی سی این جی سٹیشنز کھلے تو وہاں سے بھی اب سی این جی 9 روپے لٹر مہنگی ملنی ہے کیونکہ اوگرا نے درآمدی آر ایل این جی کے نرخ بڑھانے کی منظوری چند ہی دن پہلے دے دی ہوئی ہے۔

اگرچہ وزیراعظم کی جانب سے امریکا کو دو ٹوک نہ پر میں نے بھی کالم لکھنے کی غلطی سرزد کی تھی اور عمران خان صاحب کو قائد اعظم ثانی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی جس میں از حد معذرت خواہ ہوں۔ مگر جس وقت عمران خان دو ٹوک نہ فرما رہے تھے اسی دوران میں خود حکومتی ادارہ شماریات کے حقائق کے مطابق مہنگائی نئے ریکارڈ قائم کر رہی تھی۔ ویسے یہ بھی ہمیں ہی اعزاز حاصل ہے کہ جو اشیاء مہنگی ہوتی ہیں تو وہ خال خال ہی اپنے اصلی نرخ پر واپس آتی ہیں اب چکن کو ہی دیکھ لیں یہی کوئی 2 روپے کلو میں ملا کرتا تھا وہ بھی مہنگا ہو کر مگر اس دفعہ تو چکن نے یوں اڑان بھری کہ چھوٹی عید پر 500 روپے کو پہنچا، اب بڑی عید آنے والی ہے تاحال 350 سے اوپر میں دستیاب ہے۔

بہرحال بات کریں پاکستان شماریات بیورو کے اعداد و شمار کی تو گزشتہ ہفتے ٹماٹر کی قیمت میں 14.3 فیصد اضافہ، چکن 11.5 فیصد مہنگی، پیاز 8.3، آلو 3.1، لہسن 2.5، گھی اور کوکنگ آئل 1.5 فیصد مہنگے ہو گئے، آٹا دودھ اور دہی اس کے علاوہ ہیں۔ اس وقت روٹی دس روپے کی مل رہی ہے اور اس کا وزن بھی کم ملتا ہے، دودھ 110 روپے اور دہی 120 روپے مل رہی ہے۔ اب ایسے میں میرے جیسے 40 ہزار سے اوپر تنخواہ والے بندے کا گزارہ بڑی مشکل ہوتا ہے تو اللہ جانے ایک غریب مزدوری کرنے والا ایک 18 ہزار تنخواہ والا سکیورٹی گارڈ، چھ ماہ فصل کے تیار ہونے کا انتظار کرنے والا کسان، پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والے افراد کیسے گزارہ کرتے ہوں گے؟ وزیراعظم بخدا بیانات سے پیٹ نہیں بھرتا، جناب عمران خان صاحب ہم آپ کے بیانات پر نہال تو ہوتے ہیں مگر بھوکے پیٹ آب حیات بھی پیا ہو تو برداشت نہیں ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments