فطرت کی متلاشی۔ شبنم گل


جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں، مگر ایسے بھی ہیں

میری نظر میں سرور بارہ بنکوی کا یہ شعر جس شخصیت پر پورا اترتا ہے وہ کوئی اور نہیں حساس دل و دماغ کی مالک، ادیبہ اور شاعرہ شبنم گل ہیں۔ جن سے میری شناسائی کا دورانیہ گو طویل نہیں مگر گہرا ضرور ہے۔ شبنم کی گفتگو میں سندھ کے لہجہ کی سادگی، مٹھاس اور دھرتی کے انسانوں سے محبت اور درد مندی کی مہکار ہے۔ وہ فطرت کی اتنی دلدادہ ہیں کہ ہر گفتگو کے بعد مجھے ایسا لگتا جیسے میری ملاقات ٹھنڈے شفاف پانی کے بہتے جھرنے، سرسراتی ہوا کی طاقت سے ڈولتے درختوں، حد نظر پھیلے سبزہ زار، پودوں کی شاخوں پہ ڈولتے خوش رنگ حسین پھولوں اور ان پہ گری شفاف شبنم کے قطروں اور فضا میں بسی زمین کی مسحور اور مخصوص مہک سے ہو گئی ہے۔

ہمہ وقت فطرت کی خوبصورتی کی متلاشی شبنم گل کی جستجو انہیں نگری نگری لے جاتی ہے۔ وہ متحیر ہو کر ان مناظر کو اپنی آنکھوں میں بساتی اور وجود میں جذب ہی نہیں کرتیں بلکہ اپنے محسوسات کو لفظوں میں پروتی ہیں۔ اور سرسری گزرنے کے بجائے اپنی علمی اور کھوجتی فطرت کی بناء پہ اس کی پوری تاریخ بھی بیان کرتی ہیں۔ اس طرح وہ قاری کا ہاتھ پکڑ کر ہر اس گوشہ کی سیر کراتی ہیں کہ جس نے ان کے دل کے تاروں میں ارتعاش پیدا کیا۔

ان کا تازہ سفر نامہ دنیا کے خوبصورت ممالک اور سیاحت کے اہم مراکز سری لنکا اور تھائی لینڈ کے متعلق ہے۔ شبنم نے جس دلچسپی اور انہماک سے اپنے سفری مشاہدے کو لفظوں کی مالا کا روپ دیا ہے وہ حیران کن ہے۔ لیکن جو بات میں نے ان کی تحریر میں خاص طور پہ چھلکتی محسوس کی وہ ان کا فطرت سے پیار ہے۔ چاہے وہ سری لنکا کے بادلوں سے ڈھکے پہاڑ، پھول اور پودے ہوں یا آگ اور جانوروں مثلاً مور سے مستعار مخصوص رقص۔ جس کے متعلق مصنفہ نے لکھا ”ناچ فطری آزادی کا استعارہ ہے جو منفی رویوں سے لڑ سکتا ہے“ ۔ شبنم کا وجود قدرتی طور پہ اپنی وطن کی مٹی کی یادوں سے گندھا ہوا ہے۔ لہٰذا جب راما اور سیتا کے آگ کے رقص کو دیکھا کہ جب سیتا اپنی پاکدامنی کا ثبوت دینے کے لیے آگ سے کھیل جاتی ہے تو شبنم کو عمر ماروی کی لوک داستاں یاد آتی ہی کہ جو محبوب کی بدگمانی کو دور کرنے کے لیے دہکتے انگارے ہاتھ میں لے لیتی ہے۔

ایسے موقعہ پہ وہ اپنی روحانیت اور انسانی ذہن میں دلچسپی کے حوالے سے لکھتی ہیں ”ذہن کی طاقت سے انگارے بھی راکھ ہو جاتے ہیں“ ۔ تاہم ہمارا سوال یہ ہے کہ آخر اپنی پاکدامنی کے ثبوت کے لیے عورت ہی کیوں آگ سے کھیل جائے؟ مرد بھی تو اپنی وفا کا ثبوت دے۔

شبنم کا فطرت سے پیار اپنی جگہ لیکن انسانی ذہن کی طاقت کو وہ قدرت کا معجزہ تصور کرتے ہوئے ایک ایسے ماحول کی متمنی ہیں کہ جو انسانوں میں سکون اور خوشیوں سے مالا مال کردے۔ انسانی نفسیات کے علم کی پرتجسس طالب علم ہونے کے حوالے سے انہوں نے رویوں کا واضح فرق، سری لنکا کے رہنے والوں، بالخصوص عورتوں میں دیکھا جو جنسی تفریق کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے باوجود اسے حقیقت پسندانہ انداز میں دیکھتی اور سلجھاتی ہیں۔ اطمینان ایثار اور سکون قلب کے ساتھ۔ اور پھر وہ اس رویے کا اپنے ملک کے لوگوں سے تقابل کرتی ہیں کہ جہاں ”ہر سمت تشنگی کا احساس ہے۔ پیاسے چہرے اکٹھے احساس کو ترستے حتی کہ روح تک خشک اور بے جان۔ تازہ جھونکے سے محروم“ ۔

سری لنکا جہاں بدھا کی تعلیمات کا رنگ گہرا ہے جس میں محبت جیسے لافانی جذبے کو افضلیت ہے۔ بدھا کا تصور زندگی ہے کہ ”خواہشات، نفسانی ترغیبات اور منفی سوچ انسان کے اندر پنجرے کی مانند ہیں“ ۔ اور یہ لکھتے ہوئے انہیں بلے شاہ بھی یاد آتے ہیں کہ جن کے مطابق ”وجود میں نفی کو محسوس کریں اور بقا میں فنا کا جشن منائیں“ ۔ اور اس کے علاوہ یہاں لوگوں میں خود انحصاری، سادگی اور علم نمایاں ہے، تعلیمی شرح 98 فی صد ہے۔ اور یہاں تعلیم اور صحت بالکل مفت ہے۔ اپنے ورثہ اور علم سے دلچسپی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ہر جگہ مثلاً چائے خانے ریسٹورنٹ وغیرہ سے متصل اس کا ایک میوزیم ہوتا ہے۔ جس میں وہ بڑے فخر سے ہر چیز کی نمائش کرتے ہیں۔

سری لنکا کی شہرت مصالحوں کے باغات، جڑی بوٹیوں، چائے کے باغات، قیمتی پتھروں اور مختلف پھل ہیں بالخصوص ناریل جس سے وہ سو ملین زرمبادلہ کماتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کے روزمرہ کے کھانوں میں ان کا استعمال ہے۔ یہاں علاج بھی قدرتی طریقہ پہ ہوتا ہے مثلاً اروما تھرپی، ایکوا تھرپی وغیرہ

کولمبو جیسے مشہور شہر میں بھی متانت سادگی اور وقار اور پرسکون لوگ اور ان کی ٹریفک کے قوانین کی پابندی نے انہیں یقیناً پاکستان کی ٹریفک کی یاد دلا کے اداس تو کیا ہو گا۔ یہی نہیں شبنم نے لکھا کہ یہاں انگریزی جاننے کے باوجود اپنی سنبھالی اور تامل زبان ہی بولتے ہیں اور بڑھ بڑھ کے بلند آواز میں باتیں بنانے کے بجائے وہ کم گو، دھیمے لہجہ میں گفتگو کرنے والے اور منکسر المزاج ہیں۔ گو ہم آزاد قوم ہیں مگر شبنم کا خیال درست ہے کہ ”کسی بھی آزادی کا جشن ادھورا ہوتا ہے جب تک انسان ذہنی طور پہ اس غلامی سے آزاد نہ ہو“ ۔

البتہ سری لنکا سے محض ڈھائی گھنٹوں کی ڈرائیو پر موجود تھائی لینڈ میں انہیں قدرتی حسن تو نظر آیا اور پانی کے پرکشش راستے بھی مگر وہ ٹھہراو اور سکون نہیں جو سری لنکا میں پایا تھا۔ اپنے ملک جیسا شور اور بے کلی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوگی کہ وہ ایک بڑا تجارتی مرکز ہے جس کے باعث بھانت بھانت کے لوگ یہاں آتے اور جاتے ہیں۔ ستر ملین کی آبادی میں 2.8 ملین لوگ جسم فروشی کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ یہاں جا جا مزار اور ہر عمارت سے متصل روحوں کے گھر ہیں۔ تاکہ وہ ان لوگوں کی سوچ کے مطابق مصیبت اور پریشانیوں سے پاک رہ سکیں۔ شبنم کا کہنا ہے کہ ”وابستگی مکڑی کے جالے کی طرح ہے۔ جس میں انسان کا ذہن الجھتا ہی جاتا ہے۔ خود غرضی، حرص و لالچ تکلیف دہ راستے ہیں“ ۔

مجھے امید ہے صوفی مزاج اور سکون کی متلاشی مصنفہ شبنم گل کا یہ سفر نامہ آپ کو بھی روح کی تلاش کے ایک نئے سفر کی جانب لے جائے گا۔ امن آتشی اور سکون کی نگری میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments