سپیشل بچے۔ والدین کی ایک بڑی ذمہ داری


چند ماہ پہلے کرونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی بدحالی کا شکار ہونے والے کچھ افراد کی مالی امداد کی فراہمی کے سلسلے میں اپنے آبائی گاؤں جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک گھر کی ڈیوڑھی میں جوں ہی ہم داخل ہوئے تو ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک جوان چارپائی پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے دونوں پاؤں میں زنجیر ڈال کر اسے چارپائی سے باندھا ہوا تھا۔ پاؤں میں بندھی زنجیر کی وجہ سے اس کے پاؤں زخمی تھے۔ اس کے کپڑے بہت گندے تھے۔

بڑی ہوئی داڑھی اور منہ سے رالیں بہہ بہہ کر منہ بھی گندا ہو رہا تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے بہت ہی برا لگا۔ گھر والوں سے پتہ چلا کہ وہ ذہنی طور پر معذور ہے، صحیح طرح سے چل پھر بھی نہیں سکتا، لیکن پھر بھی گرتا پڑتا بار بار گھر سے باہر چلا جاتا ہے، اس لئے اسے باندھ دیتے ہیں۔ نوجوان کے والدین فوت ہوچکے ہیں، بھائی اس کو سنبھال رہے ہیں۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر بہت دکھ ہوا اور ہم نے فوری طور پر اس کے لئے کچھ بہتر انتظام بھی کیا۔

اس کے بعد جب میں نے اپنے معاشرے اور اپنے ارد گرد سپیشل بچوں کے بارے میں مشاہدہ کرنا شروع کیا تو مجموعی صورت حال دیکھ کر دل دہل گیا۔ غربت اور بچوں کی معذوری نے والدین کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔

معذوری دو طرح کی ہوتی ہے
ایک جسمانی معذوری دوسری ذہنی معذوری

جسمانی معذوری میں عموماً  پولیو کی وجہ سے مختلف اعضاء سے معذوری۔ پیدائشی یا بیماری کی وجہ سے بہرہ اور گونگا پن ہونا۔ پیدائشی نابینا ہونا یا تیز بخار کی وجہ سے بینائی کھو دینا شامل ہے۔ جسمانی طور پر معذور بچے ذہنی طور پر بالکل ٹھیک ہوتے ہیں۔ اپنے کافی سارے کام خود کر سکتے ہیں۔ البتہ نابینا افراد کو کافی مشکلات پیش آتی ہیں۔ ان کو چلنے پھرنے، کھانے پینے اور جسمانی صفائی میں مدد درکار ہوتی ہے۔

ذہنی طور پر معذور بچوں اور بڑے افراد کو بہت ہی زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بچوں کو بالکل سمجھ بوجھ نہیں ہوتی۔ یہ اپنی تکلیف سے آگاہ نہیں کر سکتے۔ بہت سے بچے صحیح طرح سے چل نہیں سکتے۔ بات نہیں کر سکتے۔ خود کھا پی نہیں سکتے۔ کچھ افراد میں ذہنی بیماری شدید ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنا آپ سنبھال نہیں سکتے۔ ان کے منہ سے ہر وقت رالیں ٹپکتی رہتی ہیں۔ ناک بہتا ہے۔ وہ اپنے حوائج ضروری کو خود کنٹرول نہیں کر سکتے اور نہ ہی وقت پر کسی کو بتا سکتے ہیں۔ ان کے لئے گھر والوں کو ہر وقت الرٹ رہنا پڑتا ہے۔

اس کے علاوہ جسمانی معذوری بیماری کی شدت سے بھی ہو سکتی ہے جس میں بینائی متاثر ہوتی ہے۔ کچھ بیماریوں کی وجہ سے پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں اور انسان چلنے پھرنے سے معذور ہو جاتا ہے ۔ آج کل بچوں میں ایک کامن ذہنی بیماری خود فکری (Autism) عام ہو رہی ہے۔ یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے جس سے بچہ خود فکری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ خود ہی اپنے آپ سے کھیلتا رہتا ہے، اپنے کاموں میں کسی کی دخل اندازی پسند نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کو اپنے کھیل میں شامل کرتا ہے۔ یورپ اور برطانیہ میں اس مرض کے بہت سے مریض بچے ہیں۔

پاکستان میں کچھ جرائم پیشہ افراد چھوٹے بچوں کو اغوا کر کے ان کو ہاتھ اور پاؤں سے زبردستی معذور بنا دیتے ہیں اور پھر ان سے ساری عمر بھیک منگواتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں میڈیکل کی ریسرچ بہت اعلی ہونے کے باوجود معذور بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ انتہائی ترقی یافتہ ممالک کا ریسرچ میں ایڈوانس ہونے کے باوجود ان ممالک میں معذور بچوں کی پیدائش میں کمی نہیں آ سکی ہے۔ لیکن ان ممالک نے معذور بچوں کی دیکھ بھال کا ایک بہترین نظام وضح کر رکھا ہے۔ وہاں سپیشل بچوں کے لئے حکومتی سطح پر مختلف ادارے کام کرر ہے ہیں جہاں ان کی پرورش اور نگہداشت کا بہت اچھا بندوبست کیا جاتا ہے۔ سپیشل بچوں کے لئے علیحدہ اسکول بنے ہیں جہاں ان کی تعلیم اور تربیت کا بہت اچھا انتظام ہوتا ہے۔

پاکستان ایک غریب اور ترقی پذیر ملک ہے جہاں حکومتی سطح پر ان سپیشل بچوں کے لئے کوئی خاطر خواہ انتظام موجود نہیں ہے۔ ہمارے حکمران اور ارباب بست و کشاد تندرست افراد کے لئے کچھ نہیں کرتے چہ جائیکہ وہ معذور افراد کے لئے کچھ کریں۔ ہمارا معاشرہ بھی معذوری کو قبول نہیں کرتا۔ اگر کسی گھر میں کوئی معذور بچہ ہے تو اس کو گھر والے سب سے چھپا کر رکھتے ہیں۔ اس کو گھر میں آئے ہوئے مہمانوں کے سامنے نہیں آنے دیتے۔ ان حالات میں اگر کسی گھر میں پیدائشی معذور بچہ ہو یا کسی وجہ سے معذور ہو جائے تو پورا خاندان کس کرب سے گزرتا ہے، اس کا اندازہ آپ ایسے بچوں کے والدین کو دیکھ کر لگا سکتے ہیں۔

والدین اگر معاشی طور پر کمزور ہوں تو رہی سہی کمر بھی ٹوٹ ہی جاتی ہے۔ اپنے معذور بچے کی پرورش اور نشوونما اور اس کے مستقبل کے بارے میں سوچ سوچ کر والدین پریشان ہو جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے اور سوسائٹی میں ایسے بچے والدین کے لئے کسی کڑے امتحان سے کم نہیں ہیں۔ میرے مشاہدے میں بہت سی ایسی مائیں ہیں جنہوں نے اپنا سکھ اور اپنی زندگی کی ہر آسائش اپنے ان بچوں کے لئے تیاگ دی اور ہمہ وقت ان کی خدمت میں لگی رہتی ہیں۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسلام آباد میں انیس سو اسی کی دہائی کے وسط میں معذور بچوں کے لئے ایک اسکول قائم ہوا تھا جو انہوں نے اپنی معذور بیٹی کی وجہ سے بنایا تھا۔ لیکن ان کے جانے کے بعد اس کا انتظام بھی بے توجہی کا شکار ہو گیا۔ ایک برطانوی انگریز مصنف نے 1880 کے لگ بھگ متحدہ ہندوستان کا دورہ کیا اور یہاں کی دیہاتی زندگی کا بھرپور مشاہدہ کر کے اس پر دو حصوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی تھی جس کا اردو ترجمہ کافی عرصہ پہلے میری نظر سے گزرا تھا۔ اس نے اپنی ریسرچ میں لکھا تھا کہ انڈیا میں اگر کوئی بچہ آنکھ۔ کان یا ہاتھ پاؤں سے معذور ہو جائے تو مذہب کا سہارا لے کر اس کو مسجد کا پیش امام۔ مندر کا پروہت۔ یا چرچ کا پادری بنا دیا جاتا تھا۔ ذہنی معذور افراد کو مجذوب کا درجہ دے دیا جاتا تھا۔ عموماً لوگ اپنے معذور بچوں کو چھپا کر رکھتے تھے۔

ترقی اور سمجھ داری کے اس دور میں بھی معذور بچے اکثر والدین کی بے توجہی کا شکار نظر آتے ہیں۔ ذہنی طور معذور بچوں کے ایک ادارے کے سربراہ خواجہ ظفر اقبال نے گزشتہ دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں بتایا کہ ان کے ادارے کے سپیشل بچوں نے لاہور میں منعقدہ سپیشل بچوں کے کھیلوں میں حصہ لے کر میڈل حاصل کیے۔ ہم نے ان بچوں کے لئے ادارے میں ایک تقریب کا انتظام کیا اور ان بچوں کے والدین کو بلایا۔ ایک سپیشل بچی کے گھر سے کوئی بھی نہیں آیا۔

حسب معمول ہم نے اسے میڈلز کے ساتھ اس کے گھر ڈراپ کروا دیا۔ اگلے دن اس کی والدہ سکول میں آئیں۔ تقریب میں نہ آنے پر روتے ہوئے معافی مانگی اور بتایا کہ اس بچی کو سب گھر والے فالتو سمجھ کر کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے لیکن یہ میڈل جیت کر وہ سب بہن بھائیوں میں سپیشل ہو گئی ہے اور سب بہن بھائی اب اس پر فخر کرر ہے ہیں۔

پندرہ بیس سال پہلے تک پاکستان اور آزاد کشمیر میں ان سپیشل بچوں اور بڑوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ لیکن پھر کچھ لوگ سامنے آئے انہوں نے ان جسمانی اور ذہنی طور پر معذورافراد کو معاشرے کا ایک فعال فرد بنانے کے لئے کام کرنا شروع کیا۔ سوسائٹی اور معاشرے نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ بہت ساری این جی اوز وجود میں آئیں۔ مختلف تنظیموں نے مختلف شعبوں کو منتخب کر کے اس میں اپنا کام شروع کر دیا۔ اچھے برے لوگ ہمارے معاشرے میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔

کچھ تنظیموں نے تو اس کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنا لیا لیکن زیادہ تر تنظیموں نے اس شعبے میں بہت اچھا کام کیا۔ ان تنظیموں نے ادارے تو قائم کر لئے، لیکن سپیشل بچوں کو ان میں داخل کرنا ایک بہت ہی مشکل مرحلہ تھا کیونکہ والدین اپنے بچوں کو ان اداروں میں بھیجنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ کچھ والدین نے تو اپنے معذور بچوں کو اپنی فیملی سے بھی چھپایا ہوا تھا۔ ان اداروں میں ان سپیشل بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی تعلیم کے لئے تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی کا بھی سامنا تھا۔ ان اداروں نے اس پر کافی کام کیا۔

اس وقت آزاد کشمیر میں سپیشل بچوں کے لئے تین چار بڑے ادارے کام کر رہے ہیں جنہوں نے جسمانی اور ذہنی معذوری کا شکار بچوں کو اپنی زندگی گزارنے کے لئے کافی حد تک فعال بنایا۔ نابینا بچوں کی تعلیم کے لئے پروفیسر الیاس ایوب نے اکاب کے نام سے میرپور میں ایک اسکول شروع کیا تھا جو ان کی شب و روز کی محنت، معاشرے کے مخیر افراد اور بیرون ملک تارکین وطن کی امداد سے ایک بہت بڑا ادارہ بن چکا ہے۔ یقیناً اس میں پروفیسر الیاس ایوب کی محنت اور مستقل مزاجی کا بہت بڑا ہاتھ ہے جو خود بھی آنکھوں کی بینائی سے محروم ہیں۔

اسی طرح انصاری ویلفیئر ٹرسٹ نے گونگے اور بہرے بچوں کے لئے ڈاکٹر امجد انصاری کی سربراہی میں کشمیر انسٹیٹیوٹ آف سپیشل ایجوکیشن کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جہاں گونگے اور بہرے بچوں کے لئے اشاروں کی زبان میں تعلیم کا بندوبست کیا گیا ہے۔ کچھ بچوں کو سپیچ تھراپی سے بولنے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ زوبیا نازلی ٹرسٹ نے خواجہ ظفر اقبال کی سربراہی میں ذہنی طور پر معذور بچوں کے لئے زوبیا نازلی اسکول کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ ان کا کام سب سے مشکل ہے کیونکہ ذہنی طور پر معذور بچوں کو اپنا بھی ہوش نہیں ہوتا۔ وہ اپنا آپ بھی سنبھال نہیں سکتے۔ ان کو زیادہ نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کام میں ان کے حوصلے کی داد دینی پڑتی ہے۔ دارالزینت کے نام سے بھی ایک معذور بچوں کا سکول اچھا کام کر رہا ہے۔

یہ ادارے چلانے والے سب ہی اصحاب کا کہنا تھا کہ شروع میں لوگ ہم سے بھی اپنے سپیشل بچوں کو چھپاتے تھے۔ ہمارے اداروں میں بچوں کو بھیجنے سے گھبراتے تھے۔ ہمارے اصرار پر انہوں نے اپنے بچوں کو ان اداروں میں بھیجنا شروع کیا تو پھر ان کی دیکھا دیکھی بہت سے لوگوں نے اپنے سپیشل بچوں کو ان اداروں میں داخل کروایا۔

ان اداروں میں کام کرنے والے اساتذہ اور بچوں کی نگہداشت کرنے والے سٹاف کو سپیشل بچوں کو ہینڈل کرنے کے لئے منفرد تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان افراد کا بچوں کے ساتھ رویہ بچوں کی نشو و نما اور ان کی تعلیم پر بڑے گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اب ان اداروں سے فارغ التحصیل بچے نہ صرف اپنا آپ سنبھال رہے ہیں بلکہ ان میں سے بہت سے بچے اپنی تعلیم مکمل کر کے برسر روزگار ہیں اور اپنے خاندان کا سہارا بنے ہیں۔ کھیلوں کے شعبے میں ان تینوں اداروں کے بچوں نے پاکستان کے علاوہ انٹرنیشل لیول پر سپیشل اولمپکس میں شرکت کی اور وہاں سے بہت سارے میڈل جیت کر پاکستان اور اپنے اداروں کا نام روش کیا۔ پاکستان کی بلائنڈ کر کٹ ٹیم نے کرکٹ کا ورلڈ کپ بھی جیتا۔ اس کے علاوہ اب یہ بچے دوسرے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے گھر والے ایسے بچوں پر پوری توجہ دیں جس سے ان میں خود اعتمادی پیدا ہو گی اور وہ اپنی معذوری کے خلاف لڑ سکیں گے۔ اس کے بعد جن اداروں میں یہ بچے تعلیم اور نگہداشت کے لئے داخل ہوتے ہیں ان کا رویہ ان بچوں کے ساتھ مشفقانہ ہونا چاہیے تا کہ وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔ معاشرے کے تونگر طبقے کا فرض ہے کہ ایسے بچوں کی پرورش کے لئے ایسے اداروں کی دل کھول کر امداد کریں۔ لیکن اس سے پہلے ادارے کا اچھی طرح جائزہ ضرور لے لیں کہ وہ کیسا کام کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments