دارو سے مارو تک


پردیس میں رہنے والوں کا دل اپنے دیس میں ہی رہتا ہے اور آج میرا دل بہت اداس ہو گیا جب یہ سننے میں آیا کہ میرے آبائی ضلع خانیوال میں قصور کی زینب کے واقعے جیسا دل دہلا دینے والا واقعہ بدقسمتی سے ضلع خانیوال کی بیچاری ننھی زیبا کے ساتھ پیش آیا اور ایک دفعہ پھر ہماری آنکھوں کے سامنے زینب (قصور) کی تصویر منڈلاتی نظر آ رہی ہے جیسے زینب ہم سے، ہمارے معاشرے سے، ہمارے ارباب اختیار و اقتدار سے، ہماری پولیس سے، ہمارے حکمرانوں سے اور ہمارے سسٹم سے پوچھ رہی ہو کہ ابھی تک کیا دل بھرا نہیں؟

کیا ہوس کے طوفان تھمے نہیں، کیا اسلامی معاشرہ برائے نام کا رہ گیا، کیا ریاست مدینہ میں درندے بے لگام پھرتے ہیں، کیا مذہب یہی درس دیتا ہے، کیا مذہب اور غیر مذہب میں کوئی فرق نہیں رہا، ذرا بتائیے تو زیبا کی شکل میں اور کتنی زینب و زیبا کو ایسے انسان نما درندوں کے ہاتھوں ذلیل و رسوا اور پامال و قربان ہوتے دیکھتے رہیں گے۔

کوئی بتائے گا کیا آج کا پاکستان کلمہ، امن اور اسلام کے نام پہ بننے والا پاکستان ہے؟ کیا یہی وہ پاکستان ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا؟ کیا یہی وہ پاکستان ہے جس کو قائداعظم نے پروان چڑھایا؟ کیا یہی وہ عدل و انصاف پر مبنی ریاست مدینہ جیسا معاشرہ ہے جس کا ذکر موجودہ وزیراعظم کرتے نہیں تھکتے؟ اور کجا کیا یہ انسانی معاشرہ ہے بھی؟ ارے جنگل میں جانوروں کے بھی کچھ دستور ہوتے ہیں مگر یہاں تو انسان جانوروں کو بھی بدنام کرنے میں لگے ہیں۔

آج مجھے بابا جان شدت سے یاد آرہے ہیں جو کہا کرتے تھے بیٹا دنیا میں ایک انسان دوسرے انسان کا دارو ہے کیونکہ ایک انسان کو دوسرے انسان کی ہمدردی، مداوا، علاج، سہولت، ساتھ دینے کے لئے بنایا گیا ہے مگر اب تو سب کچھ الٹ نظر آتا ہے کہ انسان ترقی کرنے کی بجائے دارو کی بجائے مارو کی شکل اختیار کر چکا ہے اب ہر انسان دوسرے انسان سے غیر محفوظ ہو چکا ہے جو کہ انسان کی اشرف المخلوقات کے حامل خصوصیت پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ دیا۔ ارے ہم اشرف المخلوقات تو بہت دور کیا ہم انسان تک کہلوانے کے بھی لائق ہیں۔ دراصل تو ہم درجہ بدرجہ اخلاقی گراوٹ، اقدار کی پستی، حیا و شرم سے عاری، مہر و محبت سے ماورا انسانی زندگی کو درندگی کا لبادہ اوڑھ کر جیے جا رہے ہیں۔

یہ سب کچھ بار بار ہوتا دیکھ کر کسی بھی شہری کا پاکستان کے سسٹم اور ارباب اختیار و اقتدار کے قول و فعل سے مکمل اعتبار اٹھ سا جانا فطری تقاضا ہے کہ ہم اگر دین اسلام کے نام پر قائم شدہ اپنے ملک پاکستان میں اپنے بچوں کو اپنے ہی لوگوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتے تو کیا اس ملک میں رہنا مناسب ہے۔ ایسے ملک سے کوچ کر جانے والے شاید یہی سب سوچ کر ہی فیصلہ کرتے ہوں گے کہ جب وہ زینب اور زیبا جیسی ننھی بیٹیوں کو ایسے بے رحم اور درندہ صفت انسانوں کے ہاتھوں پامال و قربان ہوتا دیکھتے ہیں تو ہر والدین کا ایسا سوچنا و ڈرنا بنتا ہے۔

بدقسمتی سے بارہا بار ایسے ہولناک واقعات کے بعد ہمارا معاشرہ ایسا دیکھنے و سننے کا عادی ہو کر احساس سے عاری ہو چکا ہے اور یہی چیز کسی زندہ معاشرے کے لئے سب سے المناک ہے۔ کاش کہ کوئی آج زیبا کے والد اور والدہ سے پوچھے کہ ان کے اندر احساسات کا سمندر کس طرح طوفان برپا کرنے کو چاہ رہا ہے مگر افسوس کہ جہاں جاگیردارانہ و سامراجیت کا دور دورہ ہو، جہاں مذہبی منافرت عروج پر ہو وہاں کیا زینب اور کہاں زیبا کے والدین کی کیا مجال! یہ تو بس دو دن کی آنیاں جانیاں ہیں اور بس پھر سے کوئی نئی زینب اور زیبا کسی دوسرے شہر میں ایسے ہی پامال ہوتی پائی جائے گی اور بس چل سو چل!

یہاں پہ دیکھنا ہے کہ دراصل ایسے واقعات کا ذمہ دار ہے کون؟ توان قصورواران کی لمبی فہرست ہے جن میں سب سے پہلے تو گورنمنٹ ذمہ دار ہے جو کہ آٹھ اکتوبر سن 2019 کو پاس ہونے والے زینب الرٹ ایکٹ کے باوجود اس الرٹ کو پورے ملک میں نافذ العمل نہیں کروا سکی کہ جس سے قصور کی زینب بیٹی جیسا واقعہ دوبارہ نہ پیش آتا مگر شاید حکومت کو پتا ہے کہ پاکستانی عوام کسی واقعہ کو بھلانے میں دیر نہیں لگاتی اور اسی کا شاخسانہ بیچاری زیبا بنی اب پھر حکومت عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے کوئی نیا زیبا بل لے کر آئے گی اور اس بل کے پاس ہونے تک دو چار اور زینب و زیبا نشانہ بنتی نظر آئیں گی۔

قصورواران میں دوسرے نمبر پر بلا امتیاز ہمارے مذہبی رہنما آتے ہیں جو چند ایک کو چھوڑ کر باقی پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک مذہب کو امن و سلامتی کے درس کی بجائے مذہبی منافرت و انتشار پھیلانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ سب سے زیادہ اخلاقی و دینی ذمہ داری وہاں کے مذہبی رہنماؤں پر ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کے مثبت و تعمیری کردار میں اپنا کتنا کردار ادا کرتے ہیں مگر افسوس کہ یہاں تو وہ خود ایک دوسرے کے دست و گریبان ہونے میں ہراول دستہ موجود ہوتے۔

تیسرے نمبر پر ہم اور ہمارا تمام معاشرہ قصوروار ہے زینب و زیبا کا کہ ہم میں سے ہی کوئی انسانی درندہ کسی زینب و زیبا کو پامال و قربان کرنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتا اور ببانگ دہل ایسا کرتا چلا جاتا ہے اور ہم بس فقط دو چار دن کے افسوس کے ساتھ ہی کسی نئے واقعے کے لئے تازہ دم ہو جاتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ پھر سے کوئی درندہ سر اٹھانے کو کمر کس لیتا ہے۔

ہم سب کو اور ہمارے معاشرے کو اپنی سوچ و فکر کو بدلنا ہوگا زینب و زیبا کے لئے اور اس جیسی کئی ننھی کلیوں کے لئے کہ جن کے لئے کئی درندے گھات لگائے بیٹھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments