جمعیت علمائے اسلام ف کے سندھ کے سیکرٹری جنرل مولانا راشد محمود سومرو سے سربازار بدسلوکی


رات جمعیت علمائے اسلام ف کے سندھ کے سیکرٹری جنرل اور جماعت کے سرکردہ قائد مولانا راشد محمود سومرو اپنی معمر والدہ اور بیٹی کے ہمراہ جامشورو جا رہے تھے کہ ناکے پر رینجرز کے اہلکاروں نے ان کو روکا اور شدید بد تمیزی کی۔ مولانا صاحب ایک سنجیدہ، فہمیدہ اور مشہور و معروف شخصیت ہیں۔ وہ نہ صرف ملک گیر شہرت کے حامل ہیں بلکہ بیرون ملک بھی ہزاروں لوگ ان کو جانتے ہیں۔ اپنی جماعت کی طرف سے تقریباً ہر چینل پر اپنا نقطۂ نظر بڑے مدلل اور پر اثر طریقے سے پیش کرتے ہیں۔ وہ ایک جانی پہچانی اور سلجھی ہوئی شخصیت کے مالک ہیں۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ رینجرز کے اہلکار ان کو پہچانتے نہ ہوں۔ اور اگر بالفرض وہ انہیں نہیں بھی پہچانتے تھے تو ان کو عمر رسیدہ والدہ اور جواں سال بیٹی کے سامنے یوں بے عزت کرنا کہاں کی محافظت اور حسن انتظام ہے؟

کراچی میں ہی 8 جون 2011 کو رینجرز کے اہلکاروں نے سرفراز شاہ نامی نوجوان کو بڑی بے دردی سے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ اس اندھا دھند ظلم و بربریت پر پوری قوم سراپائے احتجاج بن گئی تھی۔ کیس چلتا رہا اور اس قتل میں ملوث ایک رینجرز اہلکار کو سزائے موت اور پانچ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی مگر جنوری 2018 میں اس وقت کے صدر ممنون حسین نے اہلکاروں کی سزا معاف کردی تھی۔

امن و امان کی صورت حال کو قائم رکھنے کے لیے کراچی میں ایک عرصے سے رینجرز تعینات ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انتہائی نا مساعد حالات میں رینجرز نے بہت اچھا کام کیا اور کراچی کے بے شمار علاقوں سے نو گو ایریاز ختم کر کے اہل شہر کو پر امن ماحول فراہم کیا ورنہ ایک وقت تھا کہ سارا شہر دہشت گردی کی وارداتوں سے لرز رہا تھا۔ روزانہ ٹارگٹ کلنگ کے درجنوں واقعات میں قیمتی جانیں ضائع ہوتی تھیں۔ کاروباری سر گرمیاں ماند پڑ گئی تھیں اور لوگوں کا گھروں سے نکلنا مشکل بنا دیا گیا تھا۔

رینجرز کی بروقت اور کارگر کارروائیوں کی وجہ سے آج کراچی میں امن و امان کی فضا قائم ہے۔ رینجرز کے اپنے بے شمار اہلکار بھی اس جنگ میں شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے لیے رینجرز کی کاوشیں اور قربانیاں لائق تحسین ہیں۔ ان سب قربانیوں کے باوجود رینجرز کے کسی اہلکار کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ امن و امان قائم رکھنے کے نام پر شریف اور پر امن شہریوں کو نا کوں پر روک کر ان کی تذلیل کرے۔ ان کی عزت نفس مجروح کریں اور گھر والوں کے سامنے انہیں بے عزت کریں اور خواتین تک کا خیال نہ کریں۔

مولا نا راشد سومرو کو ناکے پر روک کر ان سے بد تمیزی کی گئی۔ ان سے ڈرائیونگ لائسنس، شناختی کارڈ، کلاشنکوف وغیرہ طلب کر کے ان سب چیزوں اور گاڑی کی تصاویر بھی بنائی گئیں، جس میں ان کی والدہ اور بیٹی بھی بیٹھی ہوئی تھیں۔ اس کھلی بد معاشی اور بے عزتی پر مولانا نے رینجرز اہلکاروں سے پوچھا کہ آپ نے یہ سب کچھ کس قانون یا کس اتھارٹی کے حکم پر کیا ہے تو اس پر اہلکار مزید مشتعل ہو گئے۔ ترجمان ڈی جی رینجرز نے مولانا کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے کہ آپ کے ساتھ کچھ اور ہی کرنا پڑے گا۔

اس پر مولانا نے سینہ تان کر کہا کہ دھمکیاں نہ دیں مجھے گولی مار دیں۔ ہمیں مار ڈالیں مگر ناکوں پر ماوٴں بیٹیوں کی موجودگی میں یوں بے عزت نہ کریں۔ اس کے بعد مولانا نے وہیں بیچ سڑک دھرنا دے دیا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے جمعیت علمائے اسلام کے ہزاروں کارکنان اور عام شہری مولانا سے اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہو گئے۔ ٹریفک کی روانی بری طرح متاثر ہوئی۔ آخر کار رینجرز کے سینیئر افسران کی مداخلت پر معاملہ یوں رفع دفع ہوا کہ بد تمیزی کرنے والے اہلکاروں کو مولانا سے معافی مانگنا پڑی۔ اس موقعے پر مولانا راشد سومرو نے رینجرز اہلکاروں کو مخاطب کر کے جو کچھ کہا اسے سن کر خوف آتا ہے کہ ہمارے محافظوں اور عام شہریوں کے درمیان خلیج کس قدر بڑھ رہی ہے۔

ایک وقت وہ تھا کہ خاکی وردی عقیدت، محبت اور حفاظت کا مظہر ہوتی تھی۔ لوگ وردی پوشوں کو ٹرسٹ وردی اور سرفروش سمجھ کر سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔ ان کے حق میں نعرے لگاتے اور ان کی بلائیں لیتے تھے مگر کچھ سال سے اس عزت اور تو قیر میں بوجوہ کمی آ رہی ہے۔ جب سے نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا کر محب وطن فوج کے سیاسی عناصر کے کرتوتوں کو بے نقاب کیا ہے، اس کے بعد ادارے کی حیثیت سے پاک فوج کی توقیر میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔

اگر رینجرز اور فورسز کے ہاتھوں فاقوں سے نڈھال قوم کو ناکوں پر یوں ذلیل کیا جائے گا تو رد عمل بھی آئے گا کیونکہ آئین ہر شہری کو پورے ملک میں آزادانہ نقل و حمل کی اجازت دیتا ہے۔ امن و امان اور تلاشی کے نام پر شہریوں کو جگہ جگہ ذلیل کرنا ملک کے مفاد میں نہیں۔ یہ فوج سارے ملک کی ہے۔ اگر اس کے سر براہ اسے کسی ایک سیاسی پارٹی کا ٹریڈ مارک بنا کر ملک کی دوسری سیاسی پارٹیوں کے خلاف پارٹی بننے کی کوشش کریں گے تو فوج کا امیج خراب ہوتا جائے گا اور یہ کمزور ہوتی جائے گی۔

لطف کی بات یہ ہے کہ ہمارے ”آزاد“ اور ”بے باک“ الیکٹرانک میڈیا کو اس واقعے کی کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ یہ خبر سوشل میڈیا کے طفیل جنگل کی آگ کی طرح ہر سو پھیل پھیل گئی۔ الیکٹرانک میڈیا کی ریٹنگ روز افزوں گرتی جا رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ”ماسٹر پلانرز“ والوں کے حکم سے مین اسٹریم میڈیا کے ہاتھ بندھے، لب بستہ، آنکھیں بند، ٹانگیں لرزیدہ اور جگر ترسیدہ ہیں۔ اس بزدلی، بے جراتی اور کم ہمتی پر ہم مین اسٹریم میڈیا کو سلام پیش کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments