کیا عثمان کاکڑ کی استدعا “مجھے گم کھاتے میں نا ڈالا جائے” منظور ہوئی؟


وہ آواز جو لاپتہ بلوچ کی آواز تھی،
سندھی مسنگ پرسنز کی آواز تھی،

سڑک پر ہونے والے ہر احتجاج کی آواز، چاہے وہ ہیلتھ ورکرز، مزدور، سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی ہو یا سڑک پر (بلیک میلنگ کے لئے ) احتجاج کرتی ہزارہ برادری کی لاشیں ہوں۔ وہ ان سب کی آواز تھی۔

اس نے اپنے پورے سیاسی کیریئر اور سینیٹر شپ کے پورے 6 سال اپنے ذاتی مفاد یا دفاع/ تحفظ کے لیے ایک لفظ نہیں بولا۔

بس جاتے جاتے قتل کی دھمکیاں دینے والوں کا نام لے کر صرف اتنا کہا کہ ”اگر مجھے، میرے بچوں یا گھر والوں کو قتل کیا گیا تو مجھے کوئی پرواہ نہیں، بس (نشاندہی کر کے ) صرف اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ مجھے گم کھاتے میں نہ ڈالا جائے“

اسے شاید آنے والے خوفناک حالات کا ادراک تھا اور قتل ہو جانے کا یقین بھی، کیوں کہ ایک تو اپنے جدوجہد، موقف اور نظریہ سے اپنی جان کی قیمت پر بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے اور نہ ہی گم کھاتے میں داخل ہو کر کھاتے کو مزید طول دینے کا سبب بننا چاہتے تھے۔

اپنی پوری زندگی تو ہر ظلم اور گم کھاتوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہے مگر وہ اپنی موت کو بھی گم کھاتوں سے نکال کر یہ نامعلوم مظالم اور گم کھاتے ہمیشہ کے لیے بند کرنا چاہ رہے تھے۔

اس کے شواہد سینیٹر عثمان کے قتل پر غم و غصے اور اس کے جنازے کو پیش کی جانے والی والہانہ محبت و عقیدت جو کسی جنس، نسل یا نظریہ کے تابع نہیں تھا بلکہ اس کے اجلے کردار، بیباک و حقائق پر مبنی موقف/آواز اور عملی کردار کے مرہون منت ملا۔

ہمیشہ ہنستے مسکراتے سینیٹر عثمان کاکڑ کی اپنی پوری (سیاسی) زندگی/کیریئر اپنے قول و فعل کی بدولت گم کھاتوں اور نامعلوم مظالم کے خلاف ہمیشہ رکاوٹ رہا۔ کیا ان کی یہ قربانی یا قتل بھی ”نامعلوم کھاتے“ سے نکل کر اسے ہمیشہ کے لئے بند کرنے کا سبب بن سکتا ہے؟

”گم کھاتہ“ اب صرف لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں تک محدود نہیں رہا بلکہ بلوچستان کے بجٹ سے لے کر پہاڑیوں اور پکنک پوائنٹس پر قبضے تک بات پہنچ گئی اور ان سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ معاشرے کا کوئی بھی شخص، گروہ یا سیاسی جماعت جو اس ”گم کھاتے“ کے خلاف آواز اٹھاتا ہے وہ خود گم کھاتے کا حصہ بن جاتا ہے۔

لاپتہ افراد، انٹیلیجینس بیسڈ آپریشنز میں قتل ہونے والے نوجوان طلبا اور بم دھماکوں میں قتل ہونے عوام و سیکیورٹی اہلکاروں کی بات نہیں کرتے کیوں کہ ایک تو ان کی خبر کو اخبار کے کسی کونے میں کوئی جگہ یا بلیٹن میں چند منٹ مل جاتے اور دوسری طرف ففتھ جنریشن وار کے وفادار محب الوطن سپاہی بھی ان کی خوب خاطر مدارت کرلیتے ہیں۔

عثمان کاکڑ کا قتل اس کھاتے میں ڈالنا مشکل ہوگا۔ کیوں کہ جس حد تک حریف (گم کھاتے والے صاب) نے عثمان کاکڑ کے قتل اور جنازے پر جتنے گرے لگتا ہے کہ اگر عثمان کاکڑ کے فکری ورثاء ( ”گم کھاتے“ کے تمام متاثرین، بلا تفریق) اگر عثمان کاکڑ کے مشن اور آخری خواہش پوری کرنے کے لیے متحد ہو کر ڈٹ گئے تو ”صاب“ کو اس حد تک گرنا پڑے گا جو نہ وہ خود برداشت کر سکتے ہیں اور نہ ہی ملک یا عوام۔ اگر بات یہاں تک پہنچ گئی تو پھر کھاتے بند کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں بچے گا۔

عثمان کاکڑ کے اتنے بڑے تاریخی جنازے کا میڈیا سے مکمل بلیک آؤٹ، اتنے عظیم انسانی اجتماع کا بذات خود معاشرے کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہوتی ہے، چاہیے وہ کسی مقصد کے لیے بھی اکٹھے ہوئے ہوں۔ مگر یہاں مین سٹریم میڈیا پر مکمل بلیک آؤٹ۔

کسی بھی سرکاری یا آفیشل سطح پر تعزیتی بیان تک جاری نہیں ہوسکا یا ہونے نہیں دیا گیا۔

یہاں پر بھی کھاتے والے صاب رکتے نہیں، بلکہ عثمان کاکڑ کے قتل کو ”حادثہ“ ثابت کرنے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں۔ جبکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا کہ عثمان کاکڑ کی موت قدرتی یا حادثاتی طور پر نہیں ہوئی بلکہ موت سے پہلے اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

گم کھاتے میں اپنا ہر جرم ڈالنا اس لئے اتنا آسان ہوا ہے کہ اپنے تو تمام تر جائز و ناجائز وسائل اور اختیار کرتے ہی ہیں بلکہ اسے جائز اور سچا ثابت کرنے کے لئے میڈیا کے ذریعے اپنا بیانیہ بھی پوری طرح پہنچا چکے ہوتے ہیں۔

اس صورتحال میں ان کے لیے سب سے زیادہ خطرہ عثمان کاکڑ جیسے سر پھروں سے ہو رہا ہوتا ہے جو اکا دکا ہر جگہ مل جاتے اور ان کو نشان عبرت بنانا ان کے لئے ناگزیر ہو جاتا ہے۔

یہ لڑائی گھر کے اندر کی لڑائی ہے۔ سب اپنے گھر (ملک) میں ہی قتل ہو رہے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جوق در جوق لوگ قتل ہو رہے ہیں اور لواحقین کو پتہ تک نہیں چلتا کہ کیوں قتل کیا گیا؟ قاتل کون ہے؟

ان تک اتنا زیادہ جھوٹ پہنچایا گیا ہے کہ ان کے لئے اب اصل سچائی پر یقین کرنا ہی ناممکن سا ہو گیا ہے۔ گم کھاتے کی واحد بڑی طاقت یہ ”جھوٹا بیانیہ“ اور جھوٹ پر قائم بھرم ہے جس کے لیے سینکڑوں طرح کے پاپڑ مسلسل بنیادوں پر بیلے جا رہے ہیں۔

اب اگر عثمان کاکڑ کو اپنی آواز سمجھنے والے، دھرتی کے تمام مظلوم اور عثمان کاکڑ کے قتل اور غم کو اپنا سمجھنے والے، اگر وہ سینیٹر کاکڑ کی طرح بہادری اور دلیری سے متحد ہو کر سچ اور حق کے لئے ڈٹ جائے اور اپنی آواز و حقائق دنیا تک پہچانے اور منوانے کے لیے ضروری ہے کہ ”گھم کھاتے“ کے ہر گھناؤنے کردار کو ایکسپوز کیا جائے۔ گم کھاتے کے ہر منشی اور دلال (جن کی تعداد اب خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور کردار/جرائم انتہائی نچلے لیول تک پہنچ چکے ہیں ) کو ایکسپوز کر کے سامنے لایا جائے۔ اگر تمام مظلوم ہر ظلم کے خلاف متحد ہو کر اس نیت سے ڈٹ جائے کہ یہ ظلم ڈھانے والا ایک ہی ہے، نہ کہ مظلوم کون ہے۔ تو پھر ظالم چاہیے جتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو اس کے پاس ہار ماننے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments