یہ ریلو کٹا کہاں ہے؟



خط نمبر 1۔

محترمی و مکرمی ایڈیٹر صاحب۔ یہ آج سے کوئی تین ساڑھے تین سال پہلے کا واقعہ ہے کہ Darren Sammy یا simmi نام کا ایک شخص کام و دہن کی آزمائش سے دو چار گھومتا گھماتا ہمارے یہاں آیا اور چوک مزنگ چونگی میں بلا اجازت اہل محلہ کے رہنا شروع کر دیا۔ یہ شخص کبھی جمعہ یا عیدین کی نماز میں شریک دیکھا گیا اور نہ ہی اس نے مقامی میلاد کمیٹی کو اپنی بابت کوئی اطلاع دی۔ اب یہ یاد نہیں پڑتا کہ ایسا راقم الحروف کی ہی تحریک پر ہواء یا کسی اور ذمہ دار شہری کی۔ بہر حال چند مخلص اور دردمند احباب نے تحقیق کی تو معلوم ہواء کہ یہ غریب الوطن نہ صرف مذہبا عیسائی ہے بلکہ اس کا ڈومیسائل بھی باہر کا یعنی ویسٹ انڈیز کا ہے۔

مکرمی! یہ آدمی اگرچہ شکل سے شیر فروش ٹائپ لگتا تھا اور کچھ عجب نہیں کہ اپنے ملک میں یہ کسی دودھ دہی کی دکان کا مدارالمہام ہی ہو، مگر یہاں اس نے اپنے تئیں خود کو گیند گھماؤ یعنی باؤلر، بلا باز اور کرکٹر وغیرہ مشہور کر رکھا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کو اس کھیل میں کچھ ملکہ بھی ہو۔ کیونکہ بعد میں باوجود کالی رنگت اور ہر چہار گناہ کبیرہ میں مبتلا ہونے کے، یہ پاکستان سپر لیگ نامی نیم مذہبی، نیم تفریحی تنظیم میں شامل ہو گیا تھا۔

اس نے وہاں کیا چاند ماری کی؟ کون میچ کھیلا؟ کون دشمن کو چت کیا؟ اس کا علم آج تک کسی کو نہ ہو سکا۔ کیونکہ اس کا ذکر نہ تو کسی میچ جیتنے والی ٹیم میں آیا اور نہ کسی جواء جیتنے والی ٹیم میں۔ لگتا ہے اس کی کارکردگی وہاں واجبی اور بے حد عمومی سی رہی۔ پھر یہ سپر لیگ کیا ہے؟ اس کا کیا قضیہ ہے؟ یہ بھی عوام کو بتانا چاہیے۔ جس ملک میں نون لیگ، قاف لیگ، ج لیگ اور ف لیگ طرز کی کئی لیگیں پہلے سے موجود ہوں اور ملکی سیاست میں روبہ عمل ہوں وہاں اس نئی لیگ کا کیا جواز؟

یہ بھی نا انصافی کی انتہا ہی ہے کہ اس تنظیم کو بنے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے کہ اس کے اشتہارات ہر شہر، ہر گوٹھ اور قصبے کے گوشے گوشے میں چسپاں ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی کا بھی کوئی پروگرام اس کے ذکر سے خالی نہیں۔ حتی کہ آٹو رکشا جات کی عقبی چقیں جو زیر تربیت شعرا کی مشق سخن اور اظہار عشق کا واحد ذریعہ ہیں اور محبوب لوگوں کے جورو ستم کی عینی شاہد ہیں ان پر بھی اب اس تنظیم کے بورنگ اشتہار نظر آتے ہیں۔

کہ فلاں کا فلاں سے میچ دیکھو۔ لاہور قلندر بمقابلہ پشاور زلمی۔ کراچی کینگز بمقابلہ سلطنت مغلیہ۔ کیا پدی، کیا پدی کا شوربہ؟ پھر شہر کی وہ دیواریں جن کے اوپری حصہ پر خاندانی اطباء و حکماء کے پتے اور نچلے حصہ پر ضبط نفس کی کمی کا شکار لا پرواہ اور بے صبرے لوگوں کو کچھ نہ کرنے کی تنبیہ منقش ہوتی ہے ان پر بھی اس تنظیم کے ممبران کی تصاویر کنندہ ہیں۔ اب امراض حیوانیہ میں مبتلا روگی بھی ایک ہاتھ ناف پر اور ایک کولہے پر رکھے ان تصویروں کو دیکھتے ہیں اور کہتے پھرتے ہیں۔ لو میاں ہم چلے۔ اب اس دیوار پی ہمارا کوئی حق نہیں۔ یہ چمن ہے تمہارا، ہمارا نہیں۔ اب ہم یہاں نہیں آئیں گے۔

خیر قریب تھا کہ یہ شخص بھی دوسرے لکھوکھ ہا انسانوں کی طرح گمنامی اور عسرت کی زندگی گزار کر اس دنیائے فانی سے چلا جاتا کہ ہمارے ہی یہاں زمان پارک کے ایک صاحب کشف بزرگ نے اس کا ماتھا جو دیکھا تو بے اختیار اس کو کہا ”بیٹا آج سے اپنے آپ کو ریلو کٹا کہلوانا۔ خدا تجھے بہت عزت و شرف دے گا۔ تو جس چیز کو بھی ہاتھ لگائے گا وہ دودھ مکھن ہو جائے گی۔ دیکھ اس راہ میں تجھے جو بھی مشکل پیش آئے اس پر صبر کرنا اور گھبرانا مت۔

اگر تجھ پر کچھ ایسی آ بنے جو بنائے نہ بنے، تو سات قدم میرے آستانے کی طرف چلنا اور کہنا۔ میں گھبرایا نہیں، تو آیا نہیں۔ میں نے دکھڑا کسی کو سنایا نہیں۔ بس بعد اکیس روز کے تیرا کام ہو جائے گا۔ خبردار اس وظیفہ میں ناغہ نہ آئے۔ اور اس عمل کو کسی دنیاوی مقصد یعنی روزگار، بجلی، گیس کے بل یا تن کی آسائش لیے ہرگز استعمال نہ کرنا۔ ورنہ تیرا حال بھی وہی ہو گا جو اس ملک کے دیگر عوام کا ہوا ہے“ ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یہ شخص اس بشارت پر خوشی سے پھولے نہ سماتا، خداوند مال و مویشی کا صد ہزار شکر ادا کرتا۔ نہ چوں کرتا نہ چراں بلکہ اس امر کو غیب کا اشارہ سمجھ کر فوری طور پر آپ کے ہی مؤقر روزنامے میں اس مضمون کا اشتہار دیتا ”راقم الحروف نے آج سے حضرت صاحب کی ہدایت کے موافق اپنا نام Darren Sammy سے بدل کر ریلو خان المعروف ریلو کٹا رکھ لیا ہے۔ اگر کسی کو اس پر کوئی اعتراض ہوتو عرصہ سات یوم کے اندر زیر دستخطی کو تحریری طور پر مطلع کرے۔ نیز آئندہ مجھے اسی نام سے لکھا اور پکارا جائے۔ تمام کٹے بھی نوٹ فر ما لیں۔

المشتہر ریلو خان المعروف ریلو کٹا“ مگر صاحب بد نصیبی نہ رنگ دیکھتی ہے نہ انت۔ بجائے اس کے کہ یہ نصیحت بالا پہ عمل کر کے اپنا مقدر جگاتا اور اپنے چارہ گر کا چارہ کھاتا، یہ بد نصیب عرصہ تین سال تک گواچی گاں کی طرح تھاں تھاں پھرتا رہا اور باں باں کرتا رہا۔ پھر اس نے لا پروائی اور سخت مغروریت کے عالم میں بے ادبی بزرگاں کی تمام حدیں بھی پار کر ڈالیں۔ اگرچہ نجی مجلسوں میں یہ تو اپنے آپ کو ریلو کٹا کہلواتا رہا اور اس بات پر فرح و شاداں بھی نظر آیا مگر سرکاری طور پر اب تک نہ تو اس نے اپنا نام تبدیل کیا ہے اور نہ ہی ایسا کوئی اشتہار دیا ہے۔

حال ہی میں پولیو قطرے پلانے والی ٹیم کی استانی نے بھی جب ڈرائیپر اس کی زبان کے قریب رکھا اور پولیو قطرہ گراتے ہوئے اس سے پوچھا کہ ”کاکا تیرا نام کی اے؟“ تو یہ لیت و لعل سے کام لینے لگا اور بجائے سیدھی سادی پنجابی میں یہ کہنے کے ”تائی مینوں ریلو کیندے آ“ کی بجائے انگریزی میں اول فول بکنے لگا۔ اور اپنے آپ کو آئی ایم سیمی آئی ایم سیمی کہتا رہا۔ جب اس استانی نے، جس کا اپنا تعلق بھی چک 53 گ ب تحصیل سمندری، ضلع فیصل آباد کے ایک شیر فروش گھرانے سے ہی ہے، اس کو ریلو کٹا کہنے پر بے حد اصرار کیا تو اس کوڑ مغز نے ”میرا جسم میری مرضی“ کا زنانہ نعرہ بلند کیا اور گھر کے کواڑ بند کر لیے ۔ اس کے اس فعل کو خواتین کے حقوق سے کھلی چشم پوشی اور کار سرکار میں بے جا مداخلت نا کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟

لگتا ہے ہماری انصاف پسند حکومت کو ان سنگین واقعات کی خبر ہی نہیں ہوئی۔ اب سنا ہے کہ حکومت نے اس نا فرمان کو قومی ایوارڈ سے بھی نواز ڈالا ہے اور وطن عزیز کی اعزازی شہریت بھی دے دی ہے۔ پوچھنا چاہیے کہ اس شخص میں وہ کیا پارس تھا جو اس کو بلا مانگے سب کچھ دے دیا گیا؟ کیا شہریت دینے سے پہلے کسی نے اس سے نیک چال چلن کا سرٹیفیکیٹ طلب کیا؟ کیا کسی نے قومی ٹیم کے حالیہ یا سابقہ کسی بھی ایسے کھلاڑی سے جس نے خود ماضی قریب میں محاربات جواء اور اشغال گنجفہ سے توبہ کی ہو، اس شخص کی بابت تحقیق کی؟

کیا کسی نے اس کا فارم ب چیک کیا اور ذات برادری کے ساتھ ساتھ یہ دیکھا کہ کیا اس نے اپنا نام ریلو کٹا ہی لکھوایا ہے؟ یا یہ نادان اب بھی گرفتار ماضی ہے اور خود کو Darren Sammy وغیرہ ہی سمجھتا ہے؟ ایک طرف ہم نے تو اس شخص پر الطافات و عنایات کی بارش کر دی مگر دوسری طرف اس کا اپنا رویہ کیا رہا؟ شہریت اور ایوارڈ ملنے کے بعد یہ کندہ ناتراشیدہ کرونا کی آڑ میں اہل محلہ کو بتائے بغیر منظر عام سے غائب ہو گیا۔

آج جو جیٹھ کی 15 تریخ ہے، آج دن تک اس کی کوئی خیر خبر نہیں۔ الٹا اس کی طرف تین ماہ کا کرایہ اور بجلی کا بل بھی واجب الادا ہے۔ کیا اس کا یہ فرض نہ تھا کہ مملکت خدا داد کا شہری بنتے ہی ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں چندہ وغیرہ اکٹھا کرنے کی کوئی تدبیر کرتا؟ انکم ٹیکس کا گوشوارہ بھرتا اور فائلر ہونے کا اعزاز حاصل کرتا۔ کم ازکم یہ اتنا تو کر ہی سکتا تھا کہ تبلیغی ٹیم کے ساتھ کرکٹ کے دورے پر یا کرکٹ ٹیم کے ساتھ تبلیغی دورے پہ چلا جاتا؟

شنید ہے کہ اس نے ملک بھی چھوڑ دیا ہے اور اب علاقہ غیر یا قزاقستان ٹائپ کسی ملک میں پناہ گرین ہے۔ اور اپنی روداد زندگی کو ”حیات ڈیرن“ کے نام سے مرتب کرنے میں مصروف ہے۔ حالانکہ اس کتاب کا نام حیات ریلو کٹا ہونا چاہیے نہ کہ کچھ اور۔ بعض احباب کا کہنا ہے کہ سپر لیگ کے اندر کسی نے اور تو اس کو کچھ نہیں کہا مگر کالا اور کلو کہہ کہہ کر چھیڑا ضرور۔ جس کی بنا پر یہ سخت ناراض ہے۔ راقم کے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔

اگر ایسا ہوا تو بہت برا ہوا۔ ہمارے یہاں کٹوں کو بھولا، بھورا، راجہ اور چٹا وغیرہ تو کہا جاتا ہے، کالا یا کلو ہر گز نہیں۔ ایسا مشرقی آداب کے بھی خلاف ہے۔ جس نے بھی ایسا کیا، اس نے کٹوں کا دل دکھایا۔ مگر یہ کوئی ایسی بات نہ تھی جس کو بہانہ بنا کر یہ اپنے شہری فرائض سے مسلسل اغماض برتتا او یوں منظر عام سے غائب ہو جاتا۔

مکرمی! اب آپ کے مؤقر روزنامے کے توسط سے حکومت اور دیگر محب وطن حلقوں سے درخواست ہے کہ اس سوختہ نصیب کو ڈھونڈا جائے۔ اور جیسے بھی ہو اسے ملک میں واپس لایا جائے۔ اس کی دلجوئی کی جائے اور اس کو وطن عزیز کی شہریت کے فوائد کثیرہ کا استحباب کروایا جائے۔ اس کے ذہن میں جو بھی خرخشا ہے، جو بھی مخمصہ ہے اسے دور کیا جائے۔ ہمیں اپنے سلوک سے اس کا دل جیتنا چاہیے۔ چاہے اس میں لاکھ خرابیاں ہوں، ہمیں اس شکوہ سنج کو اپنا سمجھنا چاہیے اور اس کوتاہ بین کی غلطیوں سے در گزر کرنا چاہیے کیونکہ بزرگوں کا کہنا ہے کہ اپنی چھاچھ کو کھٹا مت کہو۔

اس کو یقین دلانا چاہیے کہ ریاست اس کے ساتھ ہر لحاظ سے برابری کرے گی۔ اور جب یہ گربہ شعار مل جائے تو وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے واقعی اس کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا جائے تو ریاست دوسرے ملکوں سے ڈی پورٹ ہونے والے اپنے باقی شہریوں سے روا رکھتی ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے تو اس کا پاسپورٹ، شناختی کارڈ، ایوارڈ اور شہریت وغیرہ واپس لے لی جائے۔ دوم اس سے پہلے کہ یہ خود کوئی بات کرے یا انسانی حقوق وغیرہ کا کوئی طنطنہ دکھانے کی کوشش کرے، اس سے تین ماہ کا کرایہ اور بجلی کا بل بمع جرمانہ یکمشت وصول کر لیا جائے۔

کیونکہ داناؤں کا کہنا ہے کہ انسان تن اور من کا مندا دیکھے تو دیکھے، دھن اور دھان کا ہرگز نہیں پھر دیکھا جائے کہ یہ شخص واقعی ایک اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت کا شہری بن بھی سکتا ہے کہ نہیں؟ اس کا عقیدہ کچھ بھی ہو، ہمیں اس سے غرض نہیں۔ استاد غامدی کے بقول ہمارا کام دین حق کے داعی کا ہونا چاہیے اور ہمیں پوری ایمانداری سے اس تک ذات حق کا پیغام پہنچانا چاہیے۔ تا ہم اگر یہ از خود دولت ایمان سے سرفراز ہو چکا ہو تو کیا ہی کہنے۔

مگر پھر بھی عوام الناس کی تسلی کے لئے اس سے ہر شش کلمہ جات ہمراہ شرائط ایمان، آیت الکرسی اور دعائے قنوت وغیرہ تجوید سن کر تسلی کر جائے۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ اس کی توجہ مختن ہونے کی طرف دلائی جائے۔ لیکن ایسے معاملات میں جبر کا رویہ درست نہیں۔ ہماری تہذیب بھی ہمیں برداشت اور صبر کا سبق دیتی ہے۔ اس لیے اس کو نہایت پیار اور توجہ سے دھیرے دھیرے سنت ابراہیمی کی تکمیل کی ترغیب دلائی جائے اور کسی ماہر سرجن یا خاندانی باربر سے ملوایا جائے جس کے ہاتھ میں خدا نے شفاف رکھی ہو۔ اگر درجہ بالا امور سے اس شخص کے اندر قبولیت حق کے آثار پائے جائیں تو اس کو ”ریلو کٹا“ نام کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کر دیا جائے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو اس مار آستین کو نیب کے حوالے کیا جائے اور اس کے بیرون ملک اثاثوں کی تفتیش کی جائے۔ ہو سکتا ہے اس کے نصیب میں ہدایت یوں ہی لکھی ہو۔

منجانب
چوہدری چاند خاں
صدر انجمن شیر فروشاں مزنگ چونگی لاہور


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments