حکمرانوں کی شاہ خرچیاں اور بھوکے عوام



پنجاب کے ایک گاؤں کا خوبصورت منظر ہے۔ کھیتوں کے بیچوں بیچ ایک قطار میں چار شاندار قیمتی گاڑیاں کھڑی دکھائی دے رہی ہیں۔ گاڑیوں کے عین پیچھے ایک سرخ قالین بچھا ہوا ہے۔ کئی درجن گارڈز ان ویران کھیتوں میں پوزیشنیں سنبھالے ہوئے ہیں۔ اچانک ایک ہیلی کاپٹر فضا میں نمودار ہوتا ہے۔ اور سرخ قالین کے دوسرے سرے پر اتر جاتا ہے۔ ہیلی کاپٹر کا دروازہ کھلتا ہے۔ اور ایک نہایت اہم سرکاری شخصیت بڑے باوقار انداز کے ساتھ باہر نکلتی ہے۔ اور سرخ قالین پر خراماں خراماں چلتے ہوئے ایک گاڑی میں بیٹھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجاتی ہے۔ شاید یہ شخصیت اپنے آبائی گاؤں کے نجی دورے پر تشریف لائی ہے۔

ایک اور منظر میں چیف منسٹر بلوچستان کا نو عمر صاحبزادہ قیمتی اور چمکدار گاڑیوں کے لاؤ لشکر کے ساتھ صوبے کے دوردراز علاقوں کی طرف رواں دواں ہے۔ پولیس کی گاڑیوں کے علاوہ دیگر لگژری گاڑیوں کی ایک لمبی قطار اس کے کانوائے میں شامل ہے۔ جام کمال خان کے بیٹے کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر ان عربی شہزادوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ جو ماضی میں شکار کی غرض سے پاکستان کے ریگستانی علاقوں کا رخ کیا کرتے تھے۔ اس وقت ان کے ساتھ بھی گاڑیوں اور محافظوں کا لاؤ لشکر جنگل میں منگل کا منظر پیش کر رہا ہوتا۔ ان کے قافلے میں لینڈ کروزر، پجیرو اور دیگر بیش قیمت گاڑیوں کی اچھی خاصی تعداد شامل تھی۔ اس دورے کے دوران شاید چیف منسٹر کے لاڈلے صاحبزادے اپنی حاکمیت میں شامل اس پسماندہ ترین صوبے کی غریب رعایا کو اپنی شان دکھانے نکلے تھے۔

اس طرح کے بے شمار واقعات جس میں نمود و نمائش کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اور ہمارے پسماندہ ترین ملک کے خزانے کو بے دردی سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ لیکن وہ میڈیا کی نظروں سے بوجوہ اوجھل رہتے ہیں۔ ملک کے بیش قیمت اثاثوں کو گروی رکھ کر قرض لیا جاتا ہے۔ اور ان سے حاصل رقم کو بڑی بے دردی اور سفاکی کے ساتھ اللوں تللوں پر ضائع کر دیا جاتا ہے۔ اگر اس مقروض دھرتی کے بیٹے وطن کی مٹی پر سرخ یا سبز قالین ڈالے بغیر قدم نہیں رکھیں گے۔ تو اس پاک مٹی کا قرض کیسے ادا ہوگا۔ ان لاکھوں بزرگوں، ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی قربانیوں کا صلہ کیسے ادا ہوگا۔ جنہوں نے مملکت پاکستان کے قیام کے وقت اپنی عصمتیں لٹائیں۔ اور جانوں کے نذرانے پیش کیے ۔
خبروں کے مطابق پاکستان 47 ارب ڈالر سے زیادہ کا مقروض ہے۔ بدقسمتی سے ہم اپنے شاہانہ اخراجات پورے کرنے کے لئے کشکول لئے پوری دنیا کا چکر لگاتے ہیں۔ مگر اپنے ٹھاٹھ باٹھ اور قالین کلچر کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ دفاتر کی تزین اور آرائش ہو یا افسران اور وزراء کے لئے شاندار گاڑیوں کی خریداری کرنی ہو۔ اس غریب اور افلاس کی ماری قوم کے منہ سے نوالہ چھین کر دل کھول کر پیسے ضائع کیے جاتے ہیں۔ خبروں کے مطابق پنجاب حکومت وزراء کرام کے لئے چھیالیس نئی گاڑیاں خرید رہی ہیں۔ جس کے لئے ہمارے مقروض ملک کے خزانے سے کروڑوں روپوں کی رقم مختص کی جائے گی۔

جب کہ دوسری طرف پیسوں کی کمی کی وجہ سے لاکھوں بچے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ یہی حال صحت کے شعبے کی زبوں حالی کا ہے۔ عوام کی ایک کثیر تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ان کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول محال ہے۔ مگر پاکستان کی اشرافیہ کے رہن سہن کو دیکھیں تو ایسے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان ایک غریب نہیں بلکہ ترقی یافتہ ملک ہے۔ یہ عیاشیاں، سرخ قالین ریسیپشن اور سیر سپاٹے اس شخص کے ناک کے نیچے ہو رہے ہیں۔

جو اس ملک کا اصلی چہرہ دنیا کے سامنے لانا چاہتا ہے۔ جو شروع دن سے ریاست مدینہ جیسی ویلفیئر سٹیٹ بنانے کا آرزو مند ہے۔ جس نے امریکہ جیسی سپر پاور کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا ہے۔ مگر اس تمام قصے کا المناک پہلو یہ ہے کہ ہم امریکہ کو آنکھیں تو دکھاتے ہیں۔ مگر اس کی امداد کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے۔ اگر ہم نے ایک خوددار قوم بننا ہے۔ تو ہمیں بطور قوم زندگی کے ہر شعبے میں سادگی اور کفایت شعاری کو فروغ دینا ہوگا۔ وزیراعظم صاحب اگر ملک کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ تو انہیں اپنے گھر کی صفائی کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ اپنی کرسی بچانے کے لئے مافیاز کے ساتھ مفاہمت سے انکار کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ صرف تقریروں اور دعووں سے ملک کا سافٹ امیج بحال نہیں ہو سکتا ۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر دفتر اور عدالت میں بابائے قوم کی تصویر آویزاں کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے مگر ہم اپنے قائد کے فرمودات کو پست پشت ڈال کر ہر وہ کام کرتے ہیں۔ جس کی انہوں نے سختی سے ممانعت کی تھی۔ بانی پاکستان محمد علی جناح کی شبانہ روز محنت اور طویل جدوجہد کے بعد پاکستان کا قیام ممکن ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اپنے فرمودات کے ذریعے سادگی اور کفایت شعاری کی نہ صرف تلقین کی۔ بلکہ بطور گورنر جنرل اس پر خود بھی عمل پیرا ہوئے۔ وہ رات کو خود گورنر جنرل ہاؤس کی فالتو بتیاں گل کر دیتے۔ انہوں نے اپنی ذاتی استعمال کی چیزیں سرکاری خزانے سے کبھی نہیں خریدیں۔ گورنر جنرل ہاؤس میں ہونے والے اجلاسوں میں شرکاء کو صرف پانی پیش کیا جاتا تھا۔ ان کی وفات کے بعد قائد ملت لیاقت علی خان نے بھی سادگی کے کلچر کو فروغ دیا۔

آج ہمارے شاہ خرچ حکمران سینکڑوں اراکین پارلیمنٹ کو بجٹ کی منظوری کے موقع پر یا کوئی اہم بل پاس کرانا ہو پرتکلف دعوت پر مدعو کرتے ہیں۔ اور قسم قسم کے کھانوں کا لطف اٹھایا جاتا ہے۔ سرکاری اور اتحادی جماعت کے اراکین کو کروڑوں روپوں کی رشوت ترقیاتی فنڈ کے نام پر ادا کی جاتی ہے۔ جب کہ اقتدار میں آنے سے پہلے ہمارے موجودہ حکمران ترقیاتی فنڈ کی تقسیم کو کرپشن سے تشبیہ دیتے تھے۔ اس دوغلی پالیسی کی وجہ سے ہمارا پیارا وطن تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔

وزیرخزانہ شوکت ترین نے اپنی بجٹ تقریر میں وزیراعظم کی معاشی پالیسیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ کہ کپتان کی قیادت میں معیشت کی کشتی کو طوفانوں سے نکال کر ساحل تک لے آئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا تھا۔ کہ موجودہ حکومت کے عوامی فلاحی اقدامات کی بدولت عمران خان کے ریاست مدینے کے نعرے کو تقویت ملی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف چند لاکھ افراد کو احساس پروگرام کے تحت رقم کی تقسیم سے مدینے کی ریاست قائم ہو سکتی ہے۔ کیا حکمران اندھے اور بہرے ہیں۔ ان کو وہ کروڑوں لوگ نظر نہیں آتے۔ جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جن کو اپنے گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑھتے ہیں۔ ان کے بچے روزگار کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

اگر ہم ریاست مدینہ کی طرز پر انصاف اور قانون پر مبنی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔ تو اقتدار کے ایوانوں پر بیٹھی ہوئی شخصیات کو قربانی دینی پڑے گی۔ قوم کے پیسوں کو امانت سمجھ کر استعمال میں لانا ہوگا۔ بے جا شان و شوکت اور نمائش سے اجتناب کی روش اپنانا ہوگی۔ زندہ قومیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر ہی اپنی منزل حاصل کر سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments