افغانستان میں معاملات کیسے آگے بڑھائے جائیں؟


افغانستان میں متعدد ایسے اضلاع پر طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کی حالیہ اطلاعات سے طالبان حکومت کی واپسی کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں، جہاں پہلے سے فریقین میں عسکری کشمکش جاری تھی۔ افغانستان کے بارے میں حالیہ خبروں اور ذرائع ابلاغ کے تبصروں نے اس خوف و ہراس کی یاد تازہ کردی ہے جو 2011 میں عراق سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد پیدا ہوا تھا۔

طالبان کی حالیہ جنگی کامیابیوں کی وجہ یہ ہے کہ افغان حکومت کے دستے ان دور دراز اور الگ تھلگ چھاؤنیوں سے انخلا کر رہے ہیں، جہاں رسد (سپلائی) کے راستے مخدوش تھے اور جہاں فضائی طاقت کے بغیر دفاع ممکن نہیں تھا۔ اگرچہ گزشتہ دو برس میں افغان قومی سلامتی کی افواج نے طالبان کے خلاف لڑائی میں 90 فیصد کردار ادا کیا ہے لیکن ان کا مکمل انحصار امریکی فوج، اس کے ذیلی اداروں اور فضائی امداد پر تھا۔ اب امریکی دستوں اور فضائی افواج کی واپسی کے بعد صورت حال تبدیل ہونا ناگزیر تھا۔

آئندہ گیارہ ستمبر کی ڈیڈ لائن تک امریکی فوج کو افغانستان سے نکالنے کے لئے بے تاب بائیڈن انتظامیہ نے افغان فورسز کو فضائی مدد کی فراہمی جاری رکھنے کے لئے کوئی ہنگامی منصوبہ نہیں بنایا۔ اس کے بجائے یہ امید رکھی گئی کہ ٹرمپ انتظامیہ کے شروع کردہ ناقص امن عمل سے کسی نہ کسی طرح کام چلا لیا جائے گا۔

طالبان کی فوجی کارروائیوں نے جہاد پر ان کے بدستور اصرار کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے اپنے بیانات میں اعلان کیا ہے کہ وہ فتح کے لئے لڑائی جاری رکھیں گے۔ امریکی مذاکرات کاروں نے غیر دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان بیانات کو نظرانداز کرنے کی پالیسی اختیار کی۔

طالبان کی نظر میں امن کی تعریف یہ ہے کہ دوسرے افغان ان کی اطاعت قبول کریں۔ طالبان نے امریکہ کے ساتھ سقم آلود دوحہ معاہدے میں تشدد کے خاتمے کا کوئی واضح وعدہ نہیں کیا۔ وہ امریکی انخلا کو طالبان کی فتح کے طور پر دیکھتے ہیں اور وہ افغان جمہوریہ کی بجائے اپنی آمرانہ اسلامی امارات کو طاقت کے بل پر مسلط کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں۔

دوحہ معاہدے کا واحد مثبت نتیجہ نکلا ہے کہ اس نے امریکی فوجیوں کو نسبتاً محفوظ اور منظم انداز میں انخلا کا موقع دے دیا ہے۔ تاہم یہ معاہدہ افغانستان کے بارے میں مستقبل کی پالیسی کے بارے میں کوئی قابل ذکر لائحہ عمل پیش نہیں کرتا۔

اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے ہوئے ایک ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن طالبان نے القاعدہ کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع نہیں کیے ۔ امریکی سکریٹری برائے دفاع لائیڈ آسٹن نے حال ہی میں کانگریس کو بتایا تھا کہ القاعدہ آئندہ دو برس کے اندر افغانستان کو اپنا اڈا بنا کر بین الاقوامی دہشت گرد حملے شروع کرنے کی صلاحیت دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔

طالبان سے مذاکرات میں یہ مفروضہ کارفرما تھا کہ امریکی القاعدہ کو ختم کرنے کے لئے افغانستان گیا تھا اور اگر طالبان بین الاقوامی دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم نہ کرنے کا وعدہ کرتے ہیں تو جنگ کے بغیر بھی یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔

اگر طالبان القاعدہ سے تعلقات برقرار رکھتے ہیں تو پھر اس معاہدے کو برقرار رکھنے یا مبینہ طور پر خلیل زاد کے ذریعے طالبان سے حاصل کیے گئے خفیہ وعدوں پر بھروسا کرتے چلے جانے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔

امریکا کے سکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے بالآخر اس امکان کو تسلیم کر لیا ہے کہ طالبان صرف امریکی انخلا چاہتے ہیں اور دوسرے افغانوں کے ساتھ امن مذاکرات میں کوئی حقیقی دلچسپی نہیں رکھتے۔ بلنکن کے مطابق، امریکہ اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ آیا طالبان افغانستان میں تنازعہ کے خاتمے کے لئے سنجیدہ ہیں۔

یہ جائزہ جس قدر جلد مکمل ہو جائے اور امن معاہدے میں طالبان کے ممکنہ امریکی شراکت دار ہونے کے بارے میں غیر حقیقت پسندانہ توقعات ترک کر دی جائیں، اتنا ہی آسان ہو گا کہ امریکہ افغانستان پر طالبان کے ممکنہ قبضے کے خلاف افغان عوام کی مزاحمت کے لئے امداد کا منصوبہ تیار کر سکے۔

گزشتہ ہفتے افغان صدر اشرف غنی کے وائٹ ہاؤس کے دورے کے موقع پر بائیڈن نے افغان حکومت کی حمایت کا وعدہ کیا تھا تاہم اس بات پر زور دیا تھا کہ ملک کا مستقبل اس وقت افغانوں کے ہاتھ میں ہے۔

ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ صدر اوباما نے 2011 میں عراق سے امریکی فوجوں کے انخلا کے وقت بھی یہی کہا تھا۔ اس انخلا کے بعد عراقی سرزمین کے وسیع حصوں میں داعش کے عروج اور اس کی برق رفتار کامیابیوں کا آغاز ہوا تھا۔ آئی ایس آئی ایس (داعش) نے مغربی یورپ، امریکا اور دوسرے علاقوں میں دہشت گرد حملوں کی لہر میں تحرک پیدا کیا بلکہ ایسی حملوں کے لئے راستہ ہموار کیا۔

کم از کم اوبامہ انتظامیہ نے داعش کے ساتھ امن مذاکرات کے امکان کا واہمہ نہیں پالا تھا۔ تاہم ٹرمپ اور بائیڈن انتظامیہ ایک غیر لچکدار حریف کو امن مذاکرات میں سنجیدہ فریق سمجھنے کے جال میں پھنس چکے ہیں۔

عراق میں داعش کو بالآخر تبھی شکست کا سامنا کرنا پڑا جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے وسائل، خفا اطلاعات، ساز و سامان، تربیت اور ماہرانہ رہنمائی کے ذریعے عراقی حکومت کی حمایت کی۔ کابل حکومت بھی اسی طرح کی بیرونی حمایت کے ساتھ طالبان کی منہ زور پیش قدمی کو پلٹ سکتی ہے۔

امریکا افغانستان کی فضائی صلاحیت برقرار رکھنے اور چلانے میں مدد دینے کے لئے رضاکارانہ طور پر وہاں جانے کے خواہش مند امریکیوں کے علاوہ بیرونی ٹھیکیداروں کو بھی رقم ادا کر سکتا ہے۔ امریکی تکنیکی مہارت سے افغان فوجی وسائل کو براہ راست مدد مل سکتی ہے جبکہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد ایک موثر تربیتی اور مشاورتی مشن بھی جاری رہ سکتا ہے۔

افغانستان میں ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ افغان شہریوں نے طالبان کے خلاف مزاحمت کے لئے ملیشیائیں تشکیل دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ امریکی فوج نے مختلف عراقی ملیشیاؤں کو داعش کے خلاف مسلح کیا تھا اور کوئی وجہ نہیں کہ افغانستان میں ایسی ہی حکمت عملی اختیار نہیں کیا جا سکتی۔

صدر اشرف غنی کے دورے کے موقع پر بائیڈن کا پیغام یہ تھا کہ امریکی فوجی افغانستان سے رخصت ہو سکتے ہیں لیکن افغان فوج کو برقرار رکھنے میں مدد اور افغانستان کی معاشی اور سیاسی مدد کے سلسلے میں ہماری حمایت ختم نہیں ہو رہی۔ ”

افغانوں کی حمایت برقرار رکھنے کا پہلا قدم یہ ہے کہ دوحہ معاہدے کے ذریعے افغانستان کے مستقبل کے بارے میں امریکہ نقطہ نظر میں ابہام ختم کیا جائے۔ امریکی مفاد اسی میں ہے کہ

امریکہ کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ افغان جمہوریہ کا تحفظ کرے اور طالبان کو افغانستان پر دوبارہ قبضہ کرنے سے باز رکھے۔

https://thehill.com/opinion/national-security/560683-the-way-forward-in-afghanistan?rnd=1624974582

ترجمہ: وجاہت مسعود


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments