1977 کا مارشل لا: بھٹو حکومت کے خاتمے کو امریکی سفارت خانہ کیسے دیکھ رہا تھا؟

وقار مصطفیٰ - صحافی و محقق



بیس دسمبر 1971 سے 13 اگست 1973 تک پاکستان کے صدر اور پھر 14 اگست 1973 سے وزیراعظم رہنے کے باعث ذوالفقار علی بھٹو، 1976 کے اواخر تک اقتدار کے پانچ سال مکمل کر چکے تھے۔

وزارت عظمیٰ کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے میں البتہ لگ بھگ ڈیڑھ سال باقی تھا۔ ادھر امریکہ میں ڈیموکریٹ امیدوار جمی کارٹر انتخابات جیت کر صدارت سنبھالنے کو تھے۔ یہ معمول ہے کہ ہر ملک کا سفارت خانہ اپنی تعیناتی کی جگہ کے حالات سے اپنی حکومت کو آگاہ کرتا، اس سے ہدایات لیتا اور اس کی پیغام رسانی کرتا ہے۔

یہ عمل عام طور پر خفیہ رہتا ہے مگر امریکی قوانین کے تحت ایک خاص عرصہ کے بعد اہم پالیسی امور سے متعلق یہ دستاویزات امریکی محکمہ خارجہ کو اپنے دفتر تاریخ کے ذریعہ افشا کرنا ہوتی ہیں۔

مورخ کے بھلے کو بیشتر معاملہ طشت ازبام ہو جاتا ہے کیوں کہ پیغامات یا خطوط کے حاشیہ میں لکھے الفاظ بھی حذف نہیں کیے جاتے۔

امریکہ اور پاکستان کے بنتے، بگڑتے تعلقات کی ہماری آج کی کہانی ڈی کلاسیفائیڈ یا افشا کیے گئے ان ٹیلی گرامز، ایرگرامز (خطوط) اور پیغامات پر مبنی ہے جن کا تبادلہ پاکستان میں امریکی سفارت خانے اور امریکی حکومت کے درمیان پاکستانی تاریخ کے اہم ترین برسوں میں سے ایک، 1977 میں ہوا۔

چودہ جنوری 1977 کو ایک ٹیلی گرام میں امریکی سفارت خانہ نے بھٹو کے اقتدار کے پانچ سال مکمل ہونے پر کیے گئے تجزیہ پر مبنی ایک روز پہلے بھیجے گئے ائر گرام کا خلاصہ یوں کیا:

’وزیر اعظم پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر محیط ہیں اور اس عمل میں ہونے والی ملک کے اداروں کی کایا پلٹ نے اس امر کو ممکن بنانے میں مدد کی ہے۔ پانچ سال میں ان کی روک ٹوک کے بغیر بڑھتی طاقت اور شخصیت پرستی سے گویا اردشاہی بھٹو نے جنم لیا ہے۔ ہمارا اندازہ یہ ہے کہ بھٹو اپنے اقتدار میں آنے کے پہلے دنوں کی نسبت اب کم مقبول ہیں۔ بھٹو نظام، مرکز میں وزیر اعظم کی طاقت ور شخصیت پر بہت زیادہ منحصر ہے، اور یوں ان کے ذاتی انداز کا عکاس ہے۔ امکان ہے کہ موجودہ شکل میں سیاسی منظر سے ان کے چلے جانے کے بعد یہ قائم نہیں رہ پائے گا۔‘

امریکی سفیر ہینری بائروڈ کے اس ٹیلی گرام سے پہلے پانچ جنوری کو حزب اختلاف کی نو جماعتیں پاکستان قومی اتحاد کے نام سے متحد ہو چکی تھیں۔ ذوالفقار بھٹو نے سات مارچ 1977 کو قبل از وقت عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا۔

بائروڈ، جو 23 اپریل 1977 تک پاکستان کے سفیر رہے، نے اپنے 28 فروری کے ٹیلی گرام میں امریکی وزیر خارجہ سائرس وینس کو لکھا: ’بھٹو اگر معمولی اکثریت سے جیت جاتے ہیں تو قیاس ہے کہ ہم ایک غیر موثر حکومت کے دور میں داخل ہوں گے۔ اگر اپوزیشن جیتی تو حکومت میں انتشار شاید زیادہ ہی واضح ہو کیونکہ حزب اختلاف کے مابین بہت کم ہم آہنگی ہے اور عنان اقتدار سنبھالنے یا ملک چلانے کے بارے میں ان کی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں۔‘

تین مارچ 1977 کو نئے امریکی صدر جمی کارٹر نے وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کو خط میں ’ماضی کی مشکلات اور غلط فہمیوں سے قطع نظر‘ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی مضبوطی، چین کے ساتھ تعلقات اور ایٹمی عدم پھیلاؤ میں مدد کے لیے براہ راست رابطہ کی خواہش کا اظہار کیا۔

دس مارچ کا ٹیلی گرام یہ تھا: ’خلاصہ: انتخابات کے بعد وزیر اعظم بھٹو نے اپنا غالب مقام برقرار رکھا ہے۔ ہمارا غیر حتمی خیال یہ ہے کہ شاید سات مارچ کو کافی دھاندلی ہوئی تھی۔ گو کہ عام تاثر یہ ہے کہ سات مارچ کو حزب اختلاف کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے، ہمیں اس امر میں کوئی شک نہیں کہ حکومت جلد ہی اس چیلنج پر قابو پا لے گی۔‘

اسلام آباد سے 12 مارچ کو ٹیلی گرام کے ذریعے، سفارت خانے نے اطلاع دی کہ ’پاکستان قومی اتحاد کی قیادت نے پیر 14 مارچ سے پاکستان بھر میں مطالبات پورے ہونے تک مظاہروں کا اعلان کیا۔ پی این اے کے مطالبات یہ ہیں ( 1 ) وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کا استعفیٰ، ( 2 ) نئے الیکشن کمیشن کا تقرر، ( 3 ) صدر کی جانب سے پی این اے کی مشاورت سے پاکستان میں عبوری حکومت کا قیام، ( 4 ) عبوری حکومت کے ذریعہ فوج کی معاونت سے نئے انتخابات کا انعقاد۔‘

تیرہ مارچ کے ٹیلی گرام میں، سفارت خانے نے بھٹو کے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے تک مبارکباد کا پیغام ملتوی کرنے کی سفارش کی کیونکہ ’اب بھیجا ہوا پیغام انتخابات کی متنازع شفافیت کے بارے میں ہمارے سوچے سمجھے فیصلے کا عکاس سمجھا جا سکتا ہے۔‘

چودہ مارچ کے ٹیلی گرام کا خلاصہ یہ تھا: ’بھٹو کو اس بڑھتے ہوئے عوامی تاثر کا سامنا ہے کہ انھوں نے سات مارچ کو بڑے پیمانے پر دھاندلی کی۔ ہمیں اس خیال کی حمایت میں رپورٹس موصول ہوتی رہتی ہیں۔ وزیر اعظم نے 12 مارچ کو قوم سے خطاب میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اور الیکشن کمیشن میں اپیلوں کے ذریعہ پی این اے کو قومی اسمبلی میں اپنی نشستوں میں اضافہ کی امید دلائی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تشدد کو آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ انھوں نے قومی اتحاد کے رہنما مفتی محمود کو خط میں‘ غیر مشروط ’مذاکرات کی پیش کش کی ہے۔‘

پاکستانی پریس، بشمول حکومتی اخبارات کے، حیران کن طور پر اپوزیشن کے بیانات اور سرگرمیوں کو مکمل اور درست کوریج دے رہا ہے اور یہ ابھی تک انتخابی مہم سے پہلے کی حزب اختلاف کی خبروں کے تقریباً بلیک آؤٹ کی روش پر واپس نہیں آیا ہے۔ ’

23 مارچ کا ٹیلی گرام کچھ یوں تھا: ’(چند روز پہلے ) کراچی میں اس قدر تشدد برپا ہوا کہ امن کی بحالی کے لیے فوج کو بلانا اور مزید تشدد کو روکنے کے لیے سخت کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ اپوزیشن کا پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور واحد بندرگاہ کو بند کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھٹو کو کیسے گمبھیر مسائل درپیش ہیں۔‘

25 مارچ کے ٹیلی گرام میں بیان ہے : ’قومی اتحاد کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش مسترد کیے جانے کے بعد بھٹو نے حزب اختلاف سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بیشتر بڑے رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے اور چاروں صوبوں میں لٹیروں اور فسادیوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔ مظاہرے ہو رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کا اجلاس کل بروز پیر، 26 مارچ کو ہو گا۔‘

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3