ایک تقریب ڈاکٹر مغیث مرحوم کی یاد میں!


استاد محترم ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کو رخصت ہوئے ایک برس بیت گیا۔ اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔ ہمارے ہاں یہ روایت کم ہے کہ اس جہان فانی سے رخصت ہونے والوں کو یاد رکھا جائے۔ خصوصی طور پر شعبہ تعلیم و تدریس میں ایسی کوئی روایت نظر نہیں آتی۔ کیسے کیسے نامور اور عالی مرتبت استاد گزرے۔ مگر ان کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ ڈاکٹر مغیث اس حوالے سے خوش قسمت ٹھہرے۔ انہیں دوستوں، ہمعصروں اور شاگردوں کا ایسا حلقہ میسر ہے جس نے ان کی یاد کو تازہ رکھا ہے۔ ان کے نام پر سوشل میڈیا پر کئی گروپ قائم ہیں۔ ان گروپوں میں ان کا ذکر خیر سننے پڑھنے کو ملتا ہے۔ صدقہ جاریہ کے کاموں کی اطلاع بھی ملتی رہتی ہے۔

چند دن قبل ان کی برسی کے ضمن میں ایک تقریب جامعہ پنجاب کے اسکول آف کمیونیکیشن اسٹڈیز میں منعقد ہوئی۔ سوشل میڈیا پر اس تقریب کی خبر پڑھ کر ان کے دوست احباب، رفقاء اور شاگرد تقریب میں چلے آئے۔ مقررین میں ماہر تعلیم ڈاکٹر نظام الدین صاحب، سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی صاحب، سجاد میر صاحب، اور سلمان غنی صاحب شامل تھے۔ ڈاکٹر نظام کا ڈاکٹر مغیث سے نہایت گہرا تعلق تھا۔ کسی زمانے میں ڈاکٹر نظام جامعہ پنجاب میں پروفیسر ہوا کرتے تھے۔

پھر گجرات یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے اور یہاں سے ہجرت کر گئے۔ لیکن ڈاکٹر مغیث سے ان کا رشتہ و تعلق ہمیشہ قائم رہا۔ مجھے یاد ہے یہ یونیورسٹی قائم ہوئی تو ڈاکٹر نظام الدین نے ڈاکٹر مغیث صاحب کو اور مجھے یونیورسٹی کی ایک علمی سرگرمی میں مدعو کیا۔ ڈاکٹر نظام الدین صاحب کی کار میں ہم لاہور سے گجرات پہنچے۔ راستہ بھر یہ دونوں حضرات علمی گفتگو کرتے رہے۔ وہاں پہنچے تو ڈاکٹر نظام نے ہمیں گجرات یونیورسٹی کا دورہ کروایا۔

اس کی عمارت اور طرز تعمیر کے حوالے سے خصوصی معلومات دیں۔ ڈاکٹر مغیث کے یوم وفات پر ہونے والی تقریب میں ڈاکٹر نظام روسٹرم پر آئے تو گفتگو کے آغاز میں فرمایا کہ ڈاکٹر مغیث ایک ادارہ ساز شخصیت تھے۔ انہوں نے شعبہ ابلاغیات سمیت ان تمام نجی تعلیمی اداروں کا ذکر کیا، ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر مغیث نے جن کی آبیاری کی تھی۔ آج وہ پودے تناور درخت بن چکے ہیں۔ ڈاکٹر نظام کہنے لگے کہ گجرات یونیورسٹی قائم ہوئی تو ایم۔

فل اور پی۔ ایچ۔ ڈی کے پروگرام شروع کروانے میں ڈاکٹر مغیث کا بہت بڑا دخل تھا۔ اگر وہ اس وقت میرا ساتھ نہ دیتے تو ہم گجرات یونیورسٹی میں اتنی جلدی یہ بڑے ڈگری پروگرام شروع نہیں کر سکتے تھے۔ ڈاکٹر نظام صاحب نے ڈاکٹر مغیث کی محبت میں ان پر ایک کتاب مرتب کروانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس کتاب کا تذکرہ اگلے کسی کالم میں۔

سینئر صحافی سلمان غنی صاحب ڈاکٹر مغیث کے شاگردوں میں شامل ہیں۔ ان دونوں کا ساتھ کئی عشروں پر محیط ہے۔ سلمان صاحب نے بتایا کہ کس طرح ڈاکٹر مغیث اپنے شاگردوں کو حق گوئی اور بے باکی سے بات کرنے کا درس دیا کرتے تھے۔ اپنی کلاس میں وہ طالب علموں کو اختلافی نقطہ نظر پیش کرنے کی آزادی دیے رکھتے۔ نظریہ پاکستان اور اسلامی روایات کے حوالے سے وہ نہایت یکسو تھے۔ سلمان غنی صاحب نے بجا طور پر کہا کہ علی مغیث اور ان کے گھر والے ہی ڈاکٹر مغیث کی فیملی نہیں ہیں۔ بلکہ ہم سب شاگرد بھی ڈاکٹر مغیث کے خاندان کا حصہ ہیں۔

ڈاکٹر مغیث ساری عمر اپنے شاگردوں کی سرپرستی کرتے رہے۔ شاگردوں کے لئے ہمہ وقت دستیاب رہا کرتے۔ ان کے مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے رہتے۔ سجاد میر صاحب کی گفتگو سن کر مجھے اندازہ ہوا کہ اپنے ہمعصروں اور دوستوں کے ساتھ بھی ڈاکٹر مغیث کا یہی رویہ تھا۔ پرانی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے سجاد میر صاحب نے کہا کہ جب میں کراچی سے لاہور آیا تو دو شخصیات ایسی تھیں جنہوں نے ہمیشہ میرا خیال رکھا۔ ایک شامی صاحب اور دوسرے ڈاکٹر مغیث مرحوم۔

کہنے لگے کہ ڈاکٹر مغیث عہد قدیم اور عہد جدید کے درمیان ایک پل تھے۔ شعبہ صحافت کی تاریخ کا تذکرہ ہوا تو میر صاحب نے کہا کہ ایک زمانے میں یہاں وارث میر، مسکین علی حجازی اور ڈاکٹر مہدی حسن ہوا کرتے تھے۔ نظریاتی اختلافات کے باوجود ان اساتذہ کا دور بہت اچھا تھا۔ بعد میں کافی حد تک یہ کمی ڈاکٹر مغیث، ڈاکٹر اے۔ آر۔ خالد، اور ڈاکٹر مجاہد منصوری نے پوری کی۔ سجاد میر صاحب نے ان کی علمی ذہانت کا تذکرہ بھی کیا۔ بتایا کہ سارے شہر میں ان کی ریسرچ میتھالوجی پر گرفت کے چرچے تھے۔ مشکل تھا کہ لاہور میں اس حوالے سے ان کے ہم پلہ کوئی شخص دستیاب ہو۔

مجیب الرحمن شامی صاحب نے مائیک سنبھالا تو بتایا کہ ہماری عمروں میں محض چند برس کا فرق تھا۔ افکار و نظریات میں بے حد یکسانیت تھی۔ کہنے لگے کے برسوں ہم اکٹھے رہے، ان گنت یادیں ہیں۔ کس کس بات کا ذکر کروں۔ شامی صاحب نے بتایا کہ جب وہ کرونا کی وجہ سے ہسپتال داخل ہوئے تب پہلی مرتبہ انہیں معلوم ہوا کہ ڈاکٹر مغیث کے گردے خراب تھے۔ وہ باقاعدگی سے ڈائیلسز کروایا کرتے تھے۔ کہنے لگے کہ ان کی بلند ہمتی دیکھیے کہ اپنی بیماری سے متعلق کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہونے دی۔

وہ معمول کے مطابق دفتر آیا کرتے، سارے کام نمٹاتے۔ طویل علمی ملاقاتیں کرتے۔ شام تلک دفتر میں بیٹھے رہتے۔ مگر ان کی خرابی صحت سے ہم سب ہی نا واقف تھے۔ شامی صاحب نے فرمایا کہ وہ پیدائشی استاد تھے۔ ایسا نہیں کہ کہیں نوکری نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے پیشہ تدریس اختیار کیا تھا۔ بلکہ یہ ان کی شدید خواہش تھی۔ ایک مرتبہ وہ جامعہ پنجاب میں کسی تقریری مقابلے میں شرکت کے لئے آئے اور پھر دل میں ٹھان لی کہ یہی جگہ ان کا آخری ٹھکانہ ہے۔

اس تقریب میں ڈاکٹر مغیث کے اسکول کے ہم جماعت بھی موجود تھے۔ ان کے خاندان کے افراد بھی۔ ان کے دوست احباب شاگرد بھی۔ سب ہی ان کا ذکر خیر کر رہے تھے۔

ان کے بیٹے علی مغیث نے ڈاکٹر مغیث کے نام پر تین علمی وظائف کا اجراء کیا ہے۔ اس تقریب میں ان تین طالب علموں کو یہ وظائف عطا کیے گئے۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ وظائف ذہین طالب علموں کے لئے ہیں یا ضرورت مندوں کے لئے۔ بہت اچھا ہو اگر یہ تینوں وظیفے ذہین لیکن مستحق طالب علموں کو عطا ہوں۔ ڈاکٹر مغیث ساری عمر مستحق اور ضرورت مند طالب علموں کی امداد کرتے رہے۔ بیسیوں شاگرد ایسے ہیں جن کا ہاتھ ڈاکٹر مغیث نے تھامے رکھا۔

انہیں معاشرے کے کامیاب شہری بنا کر چھوڑا۔ ہم برسوں ان ہمعصروں اور ہم جماعتوں کے ساتھ رہا کرتے۔ مگر کسی کو خبر نہیں ہوئی۔ برسوں بعد انہی دوستوں کی زبانی معلوم ہوتا کہ ڈاکٹر مغیث ان کی فیس اپنی جیب سے ادا کیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے ڈاکٹر مغیث کی کتاب کی تقریب رونمائی میں، میں نے اپنی تقریر میں ان کی اس خوبی کا ذکر کیا تھا۔ ڈاکٹر مغیث نے جواباً کہا تھا کہ یہ بات انہوں نے مجیب الرحمن شامی صاحب سے سیکھی کہ کس طرح دوسروں کی مدد کرنی چاہیے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک مجھ جیسوں کو بھی ایسے نیک کاموں کی توفیق دے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کے شاگردوں اور پیروکاروں کو ہمت حوصلہ عطا فرمائے کہ وہ ڈاکٹر مغیث کا علمی اور تحقیقی مشن آگے بڑھا سکیں۔ آمین۔

۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments