زندگی، سفر اور کامیابی


نیپال کے ڈاکٹر راکیش کی کہانی نے مجھے بہت متاثر کیا۔ ایک دن سارے اسٹوڈنٹس حالیہ ریسرچ کا جائزہ پیش کر رہے تھے۔ جب ڈاکٹر راکیش کی باری آئی تو انہوں نے اچھی طرح پاور پوائنٹ کے ذریعے اپنا جائزہ پیش کیا۔ پس منظر میں سے ایک گائے کی آواز بار بار آ رہی تھی جس پر انہوں نے معذرت چاہی لیکن بقایا ٹیم نے انہیں یہی کہا کہ اس میں معذرت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ بلکہ یہ تو ایک قابل تحسین بات ہے کہ وہ نیپال کے دور دراز گاؤں سے وقت کے ساتھ قدم ملا کر تعلیم حاصل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

جون کے مہینے کی آن لائن اینڈوکرائن روٹیشن میں سب اسٹوڈنٹس نے اپنی پرسنل اسٹیٹمنٹ پڑھی جو کہ ریذیڈنسی کی درخواست کا ایک اہم حصہ ہے۔ انہوں نے اپنی پرسنل اسٹیٹمنٹ پڑھنے سے پہلے کہا کہ میں معذرت چاہتا ہوں اگر میری کہانی آپ کو ڈرامائی لگے لیکن یہ میری زندگی کی اصل کہانی ہے۔ اس کہانی کا ترجمہ مندرجہ ذیل ہے جو کہ ڈاکٹر راکیش کی اجازت کے ساتھ ہم سب میگزین کے لیے کیا گیا ہے۔

”میں نیپال کے جنوبی علاقے کے ایک کاشتکار خاندان میں پیدا ہوا تھا۔ میں نے دور دراز کے ایک چھوٹے سے دیہی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ میرے باپ دادا کسان تھے جنہوں نے بیلوں کی مدد سے کھیتوں میں ہل چلایا اور کنویں سے پانی حاصل کیا۔ مجھے اپنے بھائی کے ساتھ اسکول جانے کے لئے ایک گھنٹے کے قریب چلنا یاد ہے۔ گھریلو کام مکمل کرنے کے بعد میں نے ایک چراغ کی مدد سے تعلیم حاصل کی جس سے ہمارے گھر میں روشنی ہوتی تھی۔ میرے اہل خانہ نے مجھے محنت، لگن، اور برادری کی اہمیت کی قدر سکھائی۔

مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے جب میں نے ایک بڑے شہر میں رہنے کی امیدوں کے ساتھ اپنا گھر چھوڑا تھا۔ میں خوش قسمت تھا کہ کھٹمنڈو میڈیکل کالج ٹیچنگ اسپتال میں ایم بی بی ایس کرنے کے لئے مجھے داخلے کے امتحان میں قوم میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے پر سرکاری اسکالرشپ ملا۔ میں نے ساری زندگی اسکالرشپ کے تحت تعلیم حاصل کی ہے۔ مجھے اس تحفے کی قدر اور ذمہ داری کا احساس ہے کیونکہ مجھے بچپن سے اپنے کنبہ اور برادری کو واپس دینے کی اہمیت سکھائی گئی ہے۔

میڈیکل کالج میں تعلیم کے دوران اپنے اعلی تعلیم یافتہ پروفیسرز کی رہنمائی میں کام کرتے ہوئے مجھے اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کا اور اس علم کو مریضوں میں عملی طور پر ان کی بھلائی کے لیے استعمال کرنے کا موقع ملا۔ اناٹومی، فزیالوجی، پیتھالوجی کا علم سیکھتے ہوئے میری طب کے میدان میں دلچسپی بڑھتی گئی۔ گریجوئیشن کے بعد میں نے قریب ڈھائی سال ایک میڈیکل افسر کے طور پر ایک دیہی علاقے میں کام کیا۔ میرے کلینک میں کوئی جدید سہولیات موجود نہیں تھیں۔

میرے پاس جو بھی محدود وسائل تھے انہی کے استعمال کے ساتھ میں نے مریضوں اور ان کے خاندانوں کا علاج کرنا شروع کیا۔ میرے بہت سے مریض ایسے تھے جنہوں نے کبھی کوئی ڈاکٹر نہیں دیکھا تھا۔ وہ تقریباً سارے ہی میلوں پیدل چل کر کلینک میں علاج کے لیے آتے تھے۔ میرے مریضوں نے مجھے اپنی مشکلات سے آگاہ کیا۔ ان کے ذریعے میں نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح ان دور دراز علاقوں میں انسان صدیوں سے آباد ہیں اور ہر طرح کی آفات کے باوجود آج بھی اپنے آبا و اجداد کی طرح وہاں رہائش پذیر ہیں۔

وہاں میں نے مریضوں کی بات غور سے سننے اور سمجھنے پر توجہ دی جو میں سمجھتا ہوں کہ ہر ڈاکٹر کے لیے ضروری ہے۔ میں نے سیکھا کہ مریضوں کی جسمانی صحت کے علاوہ ان کی جذباتی صحت پر بھی دھیان دینا ضروری ہے۔ یہ طریقہ اس وقت خاص طور پر مفید رہا جب میں نے کورونا کی وبا کے دوران نیپال میں میڈیکل کے شعبے میں خدمات انجام دیں۔ یہاں پر مجھے ویسے ہی چہرے اور کہانیاں دکھائی دیں جن کو میں اپنے گاؤں میں پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ میرے لیے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ کس طرح لوگ آج بھی چراغ سے روشنی حاصل کر رہے ہیں اور اب بھی کنویں سے پانی نکالتے ہیں۔ میرے گاؤں کا بچپن اور اس کی کہانیاں میرے خیالوں میں بھی موجود تھیں اور میں ان کو اپنے سامنے حقیقت میں بھی دیکھ رہا تھا۔

میرے ایک چچا کو ذیابیطس ہو گئی تھی اور اس کی وجہ سے ان کو فالج کا دورہ پڑا اور ان کا دایاں بازو کمزور ہو گیا۔ ان کو ایک نیورولوجسٹ اور کارڈیالوجسٹ کو دکھایا گیا۔ جب ان کا سی ٹی اسکین کیا گیا تو تشخیص ”سب کلیوین سٹیل سنڈروم“ آئی۔ کتابوں سے باہر یہ تشخیص دیکھ کر میں حیران ہو گیا تھا اور اس سے مجھے انسانی جسم کی بیماریوں کی پیچیدگیوں پر سوچنے کا ایک موقع ملا۔ عام کسان جو دو دفعہ کھانے پر گزارا کرتے ہوں وہ کس طرح یہ باتیں جان سکتے ہیں؟

یہ جدوجہد دنیا میں ہر جگہ جاری ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ان کمیونیٹیز کی زندگی بہتر بنانے پر کام کروں۔ میں نے دیکھا کہ کس طرح میرے والدین اور دیگر رشتہ داروں میں ہائی بلڈ پریشر کی بیماری عام ہے جس کی وجہ سے ان کو دل کے دورے پڑنے کا خطرہ لاحق ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں ایک کارڈیالوجسٹ بنوں اور آج کے جدید علاج کو دنیا کے دور دراز علاقوں میں پہنچانے پر کام کروں۔ مثال کے طور پر، نیپال کے کھٹمنڈو میڈیکل کالج میں، مجھے دیہی آبادی میں ہائی بلڈ پریشر کے پھیلاؤ کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔

مجھے دل کے عارضے کی وجوہات کا مطالعہ کرنے کے لئے محکمہ برائے امراض قلب میں کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ میری تحقیق نے طبی علم کے نقطوں اور بطور طبی ماہر تجربے کو مربوط کرنے میں میری مدد کی۔ میری تحقیق نے مفروضوں کی جانچ کرنے کے لئے سائنسی تکنیک کی نشاندہی کرنے اور ان کو انجام دینے میں مدد دی۔ تاہم، اس نے مجھے صحت کی عدم مساوات کے بارے میں بھی سکھایا کہ کس طرح غریب، اقلیت اور دیہی آبادی پر ان کا منفی اثر پڑتا ہے۔

اپنی طبی تعلیم کے دوران، میں نے روٹری کلب کے سکریٹری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں اور دیہی علاقوں میں کئی ہیلتھ کیمپ لگائے۔ اس دوران مجھے جونیئر میڈیکل طلباء کی رہنمائی کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے، میں مقامی پولیٹیکل انتظامیہ کے دفتر کے زیر اہتمام مختلف بیماریوں، زچگی اور بچوں کی صحت اور ذہنی صحت کے پروگراموں کی اسکریننگ میں بھی شامل تھا۔

امریکہ ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں طب میں ٹیکنالوجی کا جدید ترین نظام موجود ہے۔ اضافی تربیت سے نیپال میں حاصل کیے ہوئے میرے تجربات میں اضافہ ہوگا۔ امریکہ میں تربیت حاصل کر کے میں جدید دوائیوں اور ٹیکنالوجی کے فوائد مقامی آبادی کے علاوہ دنیا کے دور دراز علاقوں میں فراہم کر نے پر کام کر سکتا ہوں۔ مثال کے طور پر، میں تپ دق نیپال کے لاکھوں غریب افراد کو لاحق ہے جس سے وہ پریشانی کا شکار ہیں۔ میں دنیا کے مختلف علاقوں اور نیپال میں اپنے ساتھی ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر افراد اور برادریوں کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہوں۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ طب کی دنیا میں ایک عالمی رہنما ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے امریکہ میں مزید تعلیم و تربیت حاصل کر کے بطور معالج اپنی صلاحیتوں کو بڑھا نے اور معیار زندگی میں بہتری لانے کی کوشش میں مدد ملے گی۔ مجھے زندگی میں مسلسل سیکھنے، مستقل آگے بڑھنے اور پیشہ ورانہ میدان میں معنی خیز ترقی کی خواہش ہے۔ ”

ہماری ساری اینڈوکرائن ٹیم نے ڈاکٹر راکیش کی ہمت، ان کی محنت اور خود کو اور دنیا کو بہتر بنانے کی کاوشوں پر تہہ دل سے سراہا۔ ہم سب دنیا کو بدل دینا چاہتے ہیں۔ ساری دنیا کو بدل دینا تو ایک انسان کے لیے شاید ممکن نہ ہو لیکن ہم سب اپنے حصے کا کام کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments