ہماری لا وارث زبان


نسٹ یونیورسٹی اسلام آباد میں دوران تدریس ملک بھر میں مردم شماری جاری تھی، رومی ہاسٹل میں بھی مردم شماری کے فارم پر کروائے گے۔ بہاولپور ساہیوال، لاہور اور پنجاب کے بیشتر علاقوں سے تعلق رکھنے والے اکثریتی شاگردوں کے ناموں کے آگے ’اردو‘ کو مادری زبان دیکھ کر انتہائی خیریت ہوئی، دریافت کرنے پر معلوم ہوا جی ہم تو اردو بولتے ہیں پنجابی امی ابو کو آتی ہے لیکن انہوں نے شروع سے ہم سے اردو یا انگریزی بولی ہے ہاں البتہ نوکروں سے پنجابی میں بات کرتے ہیں۔

ہمارے لئے یہ بات کوئی زیادہ نئی نہیں تھی کیوں کہ ہم پنجابی دنیا کی شاید وہ واحد قوم ہیں جنہیں اپنی زبان اور ثقافت پر شرمندگی ہوتی ہے، جو لکھنو یا برطانوی زبان بولنے پر کسی نوسرباز کو پڑھا لکھا اور مادری زبان بولنے والے کسی اعلی تعلیم یافتہ معزز شخص کو جاہل اور گنوار شمار کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی زبان سے اس قدر حقارت ہے کہ ہمارے کئی لوگ جعلی معزز بننے کے لئے اردو اور انگریزی سے ایسے گتھم گتھا ہوتے ہیں کہ حلقہ احباب کی تفریح کا باعث بنتے ہیں۔ گلابی اردو بھی ہم پنجابیوں کی ایجاد کردہ ایک اصطلاح ہے۔ ایک دفعہ دوران سفر بس میں میرے پچھلی نشست پر ایک خاتون اپنے بچے سے کچھ یوں مخاطب تھی ”بیٹا پاپڑ ’ایٹ‘ کر لو پھر ’پلے‘ بھی کرنا ہے“

پنجاب کی تہذیب اور ثقافت کو عام پنجابیوں کے بعد دوسرا بڑا نقصان برطانوی سامراج کے نتیجے میں احساس کمتری کا شکار ہونے والی پنجابی اشرفیہ نے پہنچایا ہے۔ ہندوستانی معاشرے میں آج بھی گوری رنگت اور ویسٹرن فیشن کو ترقی سے اور اردو یا مادری زبان کو پسماندگی سے تدبیر کیا جاتا ہے۔ ایک سوچ یہ بھی پائی جاتی ہے کہ پنجابی بولنا اور خود کو پنجابی قوم کہنا ملکی سالمیت کے لیے خطرہ ہے جو ملک کو توڑنے کا باعث بن سکتا ہے حالانکہ اس ملک کی باقی قومیں نہ صرف اپنی ثقافت کو اپناتی ہیں بلکہ فخر بھی کرتیں ہے اور یہ ثقافتی تبادلہ لوگوں کو توڑنے نہیں بلکہ جوڑنے کے کام آتا ہے۔

ایک اور بڑا ظلم ہمارے پنجاب کے تعلیمی بورڈز کا بھی ہے، پنجاب کے 90 فیصد سکولوں میں پنجابی کی کوئی تعلیم نہیں دی جاتی نہ ہی کسی ٹیکس بک میں پنجاب کی ثقافت اور تاریخ کے بارے کوئی بنیادی معلومات تک موجود ہے۔ ہمارے بچے یہ تک نہیں جانتے کہ ہمارے روایتی رقص کون سا ہے، لوک گیت کون سے ہیں، بابا بھلے شاہ، وارث شاہ اور بابا فرید کون تھے؟ رنجیت سنگھ، احمد خان کھرل، بھگت سنگھ اور دلا بھٹی کا ہندوستان کی تاریخ میں کیا کردار ہے؟

پستی کا یہ عالم ہے کہ پنجابی لٹریچر پر موجودہ دور کا کوئی قابل ستائش کام موجود نہیں۔ مجھے بھی یہ تحریر اردو میں لکھنی پڑ رہی ہے کیوں کہ پنجابی لکھنے اور پڑھنے والے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ یہ تو بھلا ہو ہمارے گلوکاروں، سٹیج و تھیٹر فنکاروں اور چڑھتے پنجاب کے سینما کا جنہوں نے بولی جانے والی یا سپوکن پنجابی کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ اسی طرح پنجاب کی چند تنظیموں کا اس سلسلے میں بڑا مثبت کردار ہے جن میں ’پنجابی پرچار‘ اور ’سجاگ‘ کی کاوشیں قابل ذکر ہیں۔

پنجابی دنیا کی دسویں بڑی زبان ہے، جو کہ ایک انتہائی جامع زبان مانی جاتی ہے جس کی وسٰعت کا اندازہ پنجابی لٹریچر پڑھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی زبان ہونے کے باوجود اس کو کوئی own کرنے کو تیار نہیں، گویا اس کا حال 5 بیٹوں کی بڑھی ماں جیسا ہے جیسے بیٹے بہووں کے پیچھے لگ کر اپنے ساتھ رکھنے کو تیار نہیں ہوتے۔ ضرورت اس امر کی ہے دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی طرح ہم بھی اپنی مادری زبان سے ناروا سلوک چھوڑ دیں اور اپنی زبان کو اپنانا شروع کر دیں کیونکہ نہ تو ماں کو بدلا جاسکتا ہے نہ ماں کی زبان کو اور نہ ہی اپنے پیدائشی علاقے کو۔ ترقی یافتہ زبانیں ضرور سیکھیں اور بولیں لیکن اپنی زبان کی بے حرمتی نہ کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments