کامیاب زندگی کے راز (خط نمبر 4)


محترمہ مقدس مجید صاحبہ!

مجھے آپ سے اس ادبی ’سماجی اور نظریاتی مکالمے سے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ ہزاروں میلوں کے جغرافیائی اور کئی دہائیوں کے عمر کے فاصلوں (جسے روایتی لوگ جنریشن گیپ کہتے ہیں ) کے باوجود ہم ایک دوسرے سے بامعنی مکالمہ کر رہے ہیں۔ مجھے اس بات کی بھی مسرت ہے کہ آپ کسی خوف‘ ڈر اور سنسر شپ کے بغیر اپنا پورا سچ لکھ رہی ہیں۔

آپ کا ادب پارہ پڑھ کر مجھے اپنے محبوب گروپ PINK FLOYDکے البم THE WALLکے ایک گانے کی چند مصرعے یاد آ رہے ہیں جو اساتذہ اور بچوں کے بارے میں ہیں WE DON ’T NEED NO EDUCATION
WE DON ’T NEED NO THOUGHT CONTROL
TEACHERS LEAVE THE KIDS ALONE

جب اس البم کے اس گانے کو فلمایا گیا تو اس میں بھی ان بچوں کو گریجوایشن کے وقت روبوٹ کی طرح دکھایا گیا تھا جو اپنے معاشرے کی روایتوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔

یہ گانا اتنا انقلابی تھا کہ اسے امریکہ میں بھی کچھ عرصے کے لیے BAN کر دیا گیا تھا۔
محترمہ مقدس مجید صاحبہ!
آپ نے اپنے خط میں مجھ سے میرا کامیابی کے تصور کے بارے میں پوچھا ہے۔ میری نگاہ میں ہر معاشرے میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں روایتی اکثریت کے لوگ جو روایت کی شاہراہ پر اور تخلیقی اقلیت کے لوگ جو اپنے من کی پگڈنڈی پر چلتے ہیں ان دونوں گروہوں کے ذہنوں میں کامیابی کا تصور مختلف ہوتا ہے۔

پہلے گروہ۔ روایتی اکثریت کے ذہن میں جو خواہشیں اور آرزوئیں ہوتی ہیں میں انہیں MIDDLE CLASS VALUES کا نام دیتا ہوں۔

ایسے لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ
۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں
۔ ایک اچھی سی ملازمت کریں
۔ ایک بڑا سا گھر بنائیں
۔ ان کی ایک خوبصورت سی بیوی یا شوہر ہو
۔ دو تین پیارے پیارے بچے ہیں
۔ ایک قیمتی کار ہو
۔ بڑا سا بینک بیلنس ہو
اور وہ خوشحال اور باعزت زندگی گزاریں۔
دوسرا گروہ تخلیقی اقلیت کا ہوتا ہے۔ اس گروہ میں اس دور کے ادیب اور شاعر، سائنسدان اور دانشور، فنکار اور فلاسفر شامل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ بہت سی دنیاوی چیزوں۔ نام نمود اور نمائش۔ سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ ان کے خواب ذاتی زندگی تک محدود نہیں ہوتے۔ وہ ایک انسان کے مستقبل کی بجائے ساری انسانیت کے مستقبل کے بارے میں سنہرے خواب دیکھتے ہیں اور پھر دیگر غیر روایتی لوگوں کے ساتھ مل کر ان خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ علیحدہ بات کہ اس راستے میں انہیں بہت سی قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں۔

چونکہ آپ مجھے زیادہ نہیں جانتیں اس لیے اس گفتگو کو آگے بڑھانے کے لیے میں آپ کو اپنی زندگی کے بارے میں چند باتیں بتانا چاہتا ہوں تا کہ ان خطوط میں میریBIOGRAPHY اور میری PHILOSOPHY ساتھ ساتھ چلتے رہیں۔

مجھے اپنی نوجوانی میں ہی یہ احساس ہو گیا تھا کہ میرا تعلق روایتی اکثریت کی بجائے تخلیقی اقلیت سے ہے۔ مجھے اوائل عمر میں ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ میری زندگی فطرت کا ایک تحفہ ہے۔ اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے میں نے چار خواب دیکھے تھے

۔ پہلا خواب ماہر نفسیات بننے کا
۔ دوسرا خواب ایک لکھاری بننے کا
۔ تیسرا خواب ساری دنیا کی سیر کا اور
۔ چوتھا خوب مختلف رنگ ’نسل‘ زبان ’مذہب اور کلچر کے دوست بنانے کا خواب تھا۔

میں نے چند سال پیشتر اپنی ماضی کی زندگی پر نگاہ ڈالی تو مجھے یہ جان کر مسرت ہوئی کہ میرے چاروں خواب شرمندہ تعبیر ہوئے

۔ پہلا خواب اس وقت شرمندہ تعبیر ہوا جب تیس برس کی عمر میں میں نے کینیڈا میں نفسیات کے شعبے میں FRCP کا امتحان پاس کیا اور ماہر نفسیات بن گیا۔ اب میں اپنی CREATIVE PSYCHOTHERAPY CLINIC میں اپنے مریضوں کا خیال رکھتا ہوں۔

۔ دوسرا خواب اس وقت پورا ہوا جب میری انگریزی اور اردو میں تیس سے زیادہ کتابیں شائع ہو گئیں۔ کینیڈا کے ہائی سکول کے بچوں کی کتاب GLOBAL SAFARI میں میرا افسانہ۔ جزیرہ۔ ISLAND شامل کیا گیا اور ہندوستان کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طالبہ شبانہ خاتون نے ’جنہیں میں کبھی نہیں ملا‘ میرے افسانوں پر اپنا ایم فل کا تھیسس لکھا۔

میرا تیسرا خواب اس وقت پورا ہوا جب میں نے کینیڈین پاسپورٹ لیا اور میں نے شمالی امریکہ اور جنوبی افریقہ ’یورپ اور مشرق وسطیٰ کے بہت سے شہروں کی سیر کی۔

میرا چوتھا خواب اس وقت پورا ہوا جب میں نے کینیڈا میں 2002 میں سات ادبی دوستوں کے ساتھ مل کرFAMILY OF THE HEART بنائی جس کے 2020 تک انٹر نٹ پر سات ہزار ممبر بن گئے۔ کووڈ 19 کی وبا سے پہلے ہم سب مل کر ادبی و سماجی محفلیں منعقد کرتے تھے۔ ہم نے پچھلے مہینے زوم پر بھی ایک محفل سجائی تھی جس میں ساری دنیا کے دوستوں نے شرکت کی تھی۔

میں اپنے کلینک میں جس گرین زون فلسفے سے استفادہ کرتا ہوں اس فلسفے میں کامیاب زندگی کی منزل کی طرف تین راستے جاتے ہیں۔

پہلا راستہ۔ CREATING ہے۔ میری نگاہ میں ہر انسان کو فطرت نے ایک خاص تحفہ دیا ہے۔ اس تحفے کو جاننا کامیابی کی زندگی کی ابتدا ہے۔ والدین اور اساتذہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں میں اس تحفے کو پہچانیں اور پھر اس خفیہ صلاحیت کو پروان چڑھائیں تا کہ بچہ ان صلاحیتوں کو اجاگر کر سکے۔

دوسرا راستہ۔ SHARING۔ ہے۔ اپنی تخلیقی صلاحیت کے اظہار کے بعد اسے دوستوں سے شیر کرنے سے دوستوں کا حلقہ بنتا ہے جسے میں فیمیلی آف دی ہارٹ کہتا ہوں۔

تیسرا راستہ۔ SERVING ہے۔ یہ وولنٹیر ورک ہے تا کہ انسان خدمت خلق کر سکے اور اپنے معاشرے میں تعمیری کام کر سکے۔

میں گرین زون فلسفہ اپنے مریضوں اور شاگردوں کو سکھاتا بھی ہوں اور اس پر خود بھی عمل کرتا ہوں۔ میں کہا کرتا ہوں

I TEACH WHAT I PRACTICE AND I PRACTICE WHAT I TEACH
میری نگاہ میں کامیاب زندگی کے دو راز ہیں، PASSION AND COMPASSION۔ لکھنے پڑھنے سے میرے PASSION کا اور مریضوں کی خدمت کرنے سے میرے COMPASSIONکا اظہار ہوتا ہے۔ اب میں ایک پرسکون گرین زون زندگی گزارتا ہوں۔

میں ہر ہفتے کچھ پڑھتا ہوں کچھ لکھتا ہوں کچھ۔ ہم سب پر چھپواتا ہوں۔ کچھ تخلیقی دوستوں سے تبادلہ خیال کرتا ہوں۔ کچھ مریضوں کا علاج کرتا ہوں۔ میں مذہبی انسان نہیں ہوں لیکن اپنا تخلیقی کام اور مریضوں کی خدمت عبادت سمجھ کر کرتا ہوں۔

یہی میری کامیاب زندگی کا راز ہے۔
محترمہ مقدس مجید صاحبہ!
اس خط میں میں نے آپ کے کامیاب زندگی کے بارے میں سوال کا انفرادی اور اجتماعی۔ ذاتی اور پیشہ ورانہ۔ نفسیاتی اور فلسفیانہ حوالوں سے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے بچوں اور شاگردوں کو کامیاب زندگی کے راز سکھانے چاہییں تا کہ وہ اپنی خفیہ صلاحیتوں کو جان اور پہچان سکیں اور پھر ان کا اظہار کر کے کامیاب اور خوشحال زندگی گزار سکیں۔

اس خط کے آخر میں میں آپ سے چند سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ آپ ایک تخلیقی شخصیت کی مالک ہیں جو ایک روایتی معاشرے میں زندگی گزار رہی ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ آپ ایک عورت بھی ہیں۔ آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ کے لیے ایک روایتی معاشرے میں زندگی گزارنے کی کیا قیمت ادا کرنی پڑتی ہے؟ آپ کو ایک تخلیقی عورت ہونے کے ناتے کیا قربانیاں دینی پڑتی ہیں؟ اور آپ کی جو سہیلیاں ہیں انہیں لڑکی اور عورت ہونے کی وجہ سے کس قسم کے مسئلوں اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

آپ کے اگلے خط کا انتظار رہے گا۔
۔ آپ کا تخلیقی دوست۔
خالد سہیل24 مئی 2021
۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل
اس سیریز کے دیگر حصےنئی نسل کے نئے سوال۔۔۔۔خط نمبر 02کیا ہم زومبی ہیں؟ (خط نمبر 3)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments