سیاسی رہنماؤں کے روحانی بابے, پیر کاکی تاڑ اور سیکس تھراپسٹ جن جیان


ہماری سیاسی تاریخ میں روحانیت جسے ہمارے آکسفورڈین وزیراعظم ”رحونیت“ کہتے ہیں، کا خاصا عمل دخل ملتا ہے اور موجودہ وزیراعظم سے پہلے اگر ہم آکسفورڈین بے نظیر بھٹو کی طرف جائیں تو وہ بھی راوی کنارے ایک بابے ”دھنکا شریف“ سے ”روحانی تھپکی“ کے لیے جاتی ہوئی نظر آتی رہی ہیں، اس روحانی بابے کے کہنے پر بے نظیر بھٹو راوی دریا میں ننگے پاؤں کھڑی ہوئیں اور بتانے والے بتاتے ہیں کہ اس بابے نے بے نظیر بھٹو کو دو تین چھڑیاں بھی رسید کی تھیں جو کہ بابا جی کی اقتدار تک پہنچنے کے لیے ایک ”روحانی تھپکی“ کہی جاتی تھی اور سننے میں یہ بھی آیا تھا کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف بھی اس روحانی تھپکی ”کے لیے موصوف سے چھڑیاں کھانے والوں میں شامل تھے۔

سب پر بھاری آصف زرداری کی شہرت اس حوالے سے سب سے زیادہ رہی کہ پہلے صدارتی دور میں وہ ایوان صدر میں روزانہ دو عدد کالے بکروں کا صدقہ دیا کرتے تھے اور ان بکروں کا انتظام کرنے کے لیے ایک بندے کی سپیشل ڈیوٹی لگی ہوئی تھی اور پھر موصوف کے ایک ”پیر ابرا“ کا نام بھی بڑا گونجا تھا جس نے انہیں برے اثرات اور مصائب سے بچنے کے لیے پہاڑوں سے دور اور سمندر کے پاس رہنے کی صلاح دی تھی اور ضعیف الاعتقاد زرداری سارا ملکی نظام ایک طرف رکھ کر کراچی منتقل ہو گئے تھے۔ ان دنوں اس پیر ابرا کے حوالے سے بڑی دلچسپ کہانیاں بھی مارکیٹ میں گردش کیا کرتی تھیں اور بہت اہم تقریبات میں ان پیر صاحب کو اکثر دیکھا جاتا رہا تھا بلکہ ان کی رہائش ایوان صدر میں مستقلاً بتائی جاتی رہی ہے۔ یہ پیر صاحب زرداری صاحب کی کار پر دم کرتے بھی سنے گئے تھے۔

ہمارے موجودہ وزیراعظم کی ضعیف الاعتقادی سب سے سوا ہے اور مغرب میں اتنا عرصہ گزارنے کے باوجود بھی ان کا حال خوش عقیدہ مریدوں کی مانند ہے۔ پہلے ان کے پیر صاحب گوجر خان کے ایک پروفیسر احمد رفیق اختر ہوا کرتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ جب موصوف الیکشن مہم کے دوران کنٹینر سے گرے تھے تو ان کے ایک دوست کالم نگار کے بقول انہی گوجر خانی صاحب نے ہمارے نوجوانوں کے محبوب ترین لیڈر کو کوئی دودھ ہلدی پر دم کر کے دیا تھا اور وہ بھلے چنگے ہو گئے تھے، انہوں نے جب ملک کا صدر عارف علوی، پنجاب کا وزیراعلی عثمان بزدار بنایا تو کسی نے ”اندر کی خبر“ دی تھی کہ انہیں ایک ”روحانی شخصیت“ نے حرف ”ع“ سے نام والوں کو ان مناصب پر رکھنے کا کہا تھا کہ

”یہ حرف“ ع ”آپ کے لیے اچھے شگون والا ثابت ہوگا“

پھر یکے بعد دیگرے ایسے بہت سے واقعات سننے میں آئے اور عثمان بزدار کی بری پرفارمنس کے باوجود بھی اسے نہ ہٹانے کے پیچھے اسی ”روحانی شخصیت کا ہاتھ“ کہا جاتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی اس plus کی ناقص پرفارمنس سے ناخوش ہے اور پنجاب جو کہ بڑا صوبہ ہے وہاں کسی متحرک، دانا اور تیز طرار بندے کو لانا چاہتی ہے، وہ متعدد بار اس بارے اپنے ”تحفظات“ سے بنی گالہ والے صاحب کو آگاہ کرچکی ہے لیکن وہ ضد پر اڑے ہوئے ہیں اور اس plusکے سر سے ہاتھ نہ اٹھا ریے جو وزیراعلی کا منصب پانے کے باوجود میڈیا سے کھلے عام کہتا ہوا نظر آیا کہ ”ابھی میں سیکھ رہا ہوں اور آہستہ آہستہ سیکھ جاؤں گا“

ان کے علاوہ بھی دیگر سیاسی لیڈروں اور حکمرانوں نے مختلف روحانی بابوں سے دعا سلام رکھی ہوئی تھی لیکن کچھ سیاسی اپنے کچھ ”خاص معاملات“ کے لیے بعض افراد پر مہربان دیکھے جاتے رہے ہیں، اس ضمن میں ممتاز، صحافی مسعود ملک نے 90 کی دہائی میں اپنی ایک رپورٹ کے ذریعے یہ سنسنی خیز انکشاف کیا تھا کہ ایک چینی شخص ”جنگ جیان“ کو سب سے بھاری ایک سیاسی رہنما نے اپنا ”سیکس تھراپسٹ“ رکھا ہوا اور اس کے عوض اسے نہ صرف پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جاری کروایا ہوا بلکہ اسے کئی سہولیات کے ساتھ ساتھ بھاری بھرکم مشاہرہ بھی دیا جاتا ہے۔

90 کی دہائی کے آخری سالوں میں بھاٹی گیٹ لاہور کے پاس ایک پیر صفدر علی شاہ المعروف پیر کاکی تاڑ کا بڑا شہرہ تھا اور وہ اپنے تئیں ایک بوبی نامی طوائف کے رقص کے ذریعے اپنے مریضوں کا علاج کیا کرتے تھے۔ خاکسار جب حسن نثار صاحب سے ملنے ٹمپل روڈ ان کے ”روزنامہ اساس و لشکر“ کے آفس پہنچا تو یہ پیر کاکی تاڑ حسن نثار سے ملاقات کے لیے ریسپشنسٹ کو رجسٹر میں اپنا نام درج کروا رہے تھے اور اس روز ان کا ”دیدار“ کرنے کی ”سعادت“ حاصل ہوئی تھی۔ یاد رہے کہ اس پیر کاکی تاڑ نے ایک بھری محفل میں اس وقت سینیٹ کی ڈپٹی چیئرپرسن ڈاکٹر نورجہاں پانیزئی کو سب کے سامنے کہا تھا

”توں کاکے تاڑ ایں تے میں کاکی تاڑ آں“
(تم لڑکوں کو تاڑتی ہو اور میں لڑکیوں کو)
اس بات کا ذکر حسن نثار نے اپنے ایک کالم میں بھی کیا تھا شاید


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments