طالبان کی فتح


پاکستان، چین، ایران، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے ساتھ ملتی سرحدیں یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ کہ افغانستان کو ایشیا میں وہی مقام حاصل ہے جو انسانی جسم میں دل کو۔ تین کروڑ بیس لاکھ جنگجو نفوس پر مشتمل یہ کرہ ارض اپنی نظیر آپ ہے۔ نائن الیون کا خود ساختہ سانحہ بذات خود ایک بہت بڑی سازش تھی۔ جو کرنے والوں کے لئے ایسا کمبل ثابت ہوئی جس سے جان چھڑانے میں بیس سال لگ گئے۔ افغانوں کی تاریخ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

انہوں نے دنیا پر حکومت کی ہے۔ ان کو کوئی فتح نہیں کر سکا۔ چنگیز خان، ہلاکو خان ظہیر الدین بابر، نادر شاہ سارے اسی دھرتی کے سپوت تھے اور سارے افغانوں کا خمیر مجاہدانہ سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ماحول کا مرہون منت ہے۔ جس کی صدیوں پرانی روایت ہے۔ اور اسی روایت کی تکمیل کے لیے جدید علم سے بے بہرہ، موت و زندگی میں فرق نہ کرنے والے یہ سادہ لوح جنگجو منافقانہ سوچ کی بھینٹ چڑھتے رہنے میں ہی خوش رہتے ہیں۔

یہ چھ مختلف النسل اقوام اپنے اندر ایک ہی طرح کا جذبہ رکھتے ہیں اور اسے اپنی سادگی کے عوض کبھی سستا اور کبھی مہنگا بیچتے رہتے ہیں۔ اور ان کی سادہ طبیعت ان دیکھے جنت کے لئے اپنے آپ، ماں باپ اور ملک کو نیست و نابود کرنے کی کوششوں میں معاون و مددگار ثابت ہوتی رہتی ہے۔ اب رہا مسئلہ امریکہ نے نائن الیون کی سازش کیوں کی، اس سے خود امریکہ کو کتنا نقصان اٹھانا پڑا اور مزید کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ تو اس کا بہت مصدقہ اصول موجود ہے، جسے کبھی کسی نے جھٹلایا نہیں۔

کہ جو جتنا تجربہ کار ہو گا وہ اتنے ہی بڑے فیصلے کرے گا اب یہ فیصلے کے نتائج پر منحصر ہوتا ہے کہ فیصلہ کتنا صائب تھا۔ امریکہ کا اپنا ماضی بتاتا ہے۔ جب سے امریکا دنیاوی سپر پاور بنا ہے اس نے کھربوں ڈالر جنگ میں جھونکے ہیں۔ مگر کبھی کوئی جنگ جیتا نہیں۔ اگر امریکا نے سبق سیکھنا ہوتا تو ویتنام کی جنگ سے سیکھتا، سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے سے سیکھتا۔ اور اب بھی خدانخواستہ اس جنگ میں شکست فاش کے بعد امریکہ گھر ہرگز نہیں بیٹھے گا۔

جس طرح افغان ایک انتہا ہیں اسی طرح امریکا دوسری انتہا۔ اور ایک تیسری عقلی دلائل کے تانے بانے بننے والی انتہا بھی ہر وقت دستیاب ہوتی ہے۔ جو اپنی محدود مگر واقعاتی سوچ کے تابع کبھی امریکہ کے بغیر دنیا کو ادھورا سمجھتی ہے اور کبھی یہ سمجھتی ہے۔ رہا سوال امریکہ کے ہارنے کا اور افغانوں کے جیتنے کا تو نہ امریکا ہار کر سکون سے بیٹھے گا، بلکہ امریکن تھینک ٹینکس پوری مستعدی سے کوئی اور سازش ٹیبل کر چکے ہوں گے۔ جہاں امریکا نے دنیا کی بہتری کے لئے ٹانگ اڑانے کی کوشش کرنی ہے۔ امریکہ کے لئے بقول شاعر

دنیا کو سیدھی راہ پہ لگانے کے نام پر
دنیا کا خون کیے جا رہا ہے وہ۔

سجدے کیے جا رہا ہے رعونت سے دمبدم جیسے خدا کو بھی خیرات دیے جا رہا ہے وہ۔ رہا سوال افغانیوں کا تو دنیا کی سپر پاور کو شکست دینے کے بعد سجدہ شکر ادا کریں گے اور سارے مل بیٹھ کر افغانستان کی تعمیر و ترقی کے لیے کام شروع کر دیں گے تو ایسا بالکل نہیں ہو گا۔ پچھلے 2000 سال کی افغانستان کی تاریخ بتاتی ہے۔ افغانی مائیں بچے صرف مارنے اور مرنے کے لئے جنتی ہیں۔ بہتر معاشرے کی تکمیل کے لئے نہیں۔

علامہ اقبال سو سال پہلے فرما گئے ہیں۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔

نائن الیون کے بعد نیٹو فورسز اور امریکی افواج نے افغانستان پر چڑھائی کی۔ افغانستان کی تاریخ بتاتی ہے آج تک اس سرزمین نے کبھی شکست قبول نہیں کی۔ یہاں تک کہ سوویت یونین کا ایک زمانے میں بڑا طوطی بولتا تھا۔ لیکن انہوں بھی نہ صرف گھٹنے ٹیکے بلکہ خود کو بھی تار تار کر دیا۔ لیکن اس سبق کے باوجود نیٹو افواج اور امریکی افواج کو اپنی طاقت کا بہت گھمنڈ تھا۔ ڈر اور خوف صرف اس انسان کو ہوتا ہے۔ جس کو اپنی زندگی سے پیار ہو۔

لیکن امریکی افواج کو شاید معلوم نہیں تھا۔ وہ کن سے پنجہ آزمائی کرنے جا رہے ہیں وہ ایک ایسا پہاڑ ہیں ان سے جو بھی ٹکرائے گا وہ پاش پاش ہو جائے گا۔ کیونکہ ان کو زندگی سے کوئی پیار نہیں اور سب سے بڑی بات ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں اور یہ ایک ایسی چیز ہے جو ہر مشکل کو عبور کر سکتی ہے۔ طالبان کا دور اقتدار 1996 سے 2001 تک رہا اس دور میں پورے ملک کے اندر اسلامی شریعت نافذ تھی اکتوبر 2001 کے اندر امریکی فورسز نے طالبان کو اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا۔

2011۔ 12 ایک وقت ایسا بھی آیا جب افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب غیر ملکی فوجی طالبان کے خلاف جنگ کر رہے تھے۔ ان فوجیوں کے پاس دنیا کا جدید ترین جنگی ساز و سامان موجود تھا۔ پھر امریکی صدر بارک اوباما نے اپنی فوج میں کمی کی۔ اس وقت افغان سکیورٹی فورسز کی تعداد تین لاکھ پچاس ہزار ہے۔ ان سیکورٹی فورسز کو گزشتہ بیس سال کے دوران امریکی اور نیٹو فورسز نے تربیت دی ہے۔ 2015 سے لے کر اب تک 30 ہزار افغان فوجی اس جنگ میں ہلاک ہو چکے ہیں۔

17۔ 18 دسمبر 2020 کو متحدہ عرب امارات میں ہونے والے مذاکرات میں یہ فیصلہ کیا گیا۔ اب وہاں پر غیر ملکی فوجی نہیں رہیں گے۔ ستمبر میں نیٹو افواج کے انخلاء کی آخری تاریخ کے بعد افغانستان کے اندرونی حالات یکسر تبدیل ہو جائیں گے اور طالبان نے واضح الفاظ میں اپنا پیغام دیا ہے ستمبر کے بعد افغانستان میں کسی بھی غیر ملکی فوجی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ افغانستان میں نیٹو کا بیس سال جاری رہنے والا فوجی مشن بغیر کسی نتیجے کے ختم ہونے کو ہے اور کابل میں بدستور تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔

گزشتہ بیس سال کے دوران جاری رہنے والے اس فوجی آپریشن میں کھربوں ڈالر پہاڑوں میں جھونک دیے گئے اور نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ صرف کابل محل تک ہی محدود رہے۔ ان بیس سالوں میں بھی افغانستان پر اصل حکمرانی طالبان کی ہی تھی۔ وہ کتنے طاقتور ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے مئی کے مہینے میں ایک ہزار سے زائد افغان فورسز کے فوجی اپنی جانیں بچا کر افغانستان کے صوبے بدخشاں کے ساتھ جڑی سرحد تاجکستان کو عبور کرتے ہوئے وہاں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔

طالبان نے بدخشاں صوبے کے 16 اضلاع پر مکمل کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ امریکی افواج کے جانے کے بعد سیکورٹی فورسز کا مورال گر چکا ہے۔ افغان سیکورٹی فورسز کے جوان طالبان سے خوفزدہ ہو کر اپنی جان بچانے کے لئے اپنے ملک کی سرحدیں عبور کر رہے ہیں۔ یہ باتیں اس بات کی گواہی ہیں کسی بھی ملک پر آنکھیں بند کر کے آپ چڑھائی نہیں کر سکتے۔ طاقت کا نشہ بیس سال کے بعد نیٹو فورسز اور امریکی افواج کا زمین بوس ہو گیا ہے۔ طالبان پہلے سے زیادہ ابھر کر سامنے آئے اور میڈیا رپورٹس کے مطابق ان کے پاس وسیع پیمانے پر غیر ملکی افواج کا چھوڑا ہوا اسلحہ اور گاڑیاں موجود ہیں۔

جب دنیا بھر کی خود کو طاقتور سمجھنے والی افواج طالبان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے تو افغانستان سیکورٹی فورسز ان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہو رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کابل سے صرف چار گھنٹے کی دوری پر ہیں۔ بیس سال جاری رہنے والی یہ جنگ بالآخر طالبان کی فتح پر ختم ہوئی۔ جس جنگ کا آغاز غیر ملکی افواج نے کیا تھا انہوں نے پھر وہاں سے دم دبا کر بھاگ جانا مناسب سمجھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور یہی نام نہاد طاقتور افواج جو اپنی طاقت کے نشے میں اتنے مست تھے ان کو کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔

اگر یہی مذاکرات کا راستہ اس وقت اپناتے اور افغانستان کو اپنے اندرونی سیاسی حالات کو خود حل کرنے دیتے اور اس بات کی کوشش کرتے وہاں آزادانہ اور شفاف انتخابات ہوتے ہیں اور افغانستان کی عوام جس کو منتخب کرتے اقتدار اس کو منتقل کر دیا جاتا۔ ان بیس سالوں میں جو کھربوں ڈالر پہاڑوں میں جھونک دیے گئے وہ افغانستان کی تعمیر و ترقی پر خرچ ہوتے۔ وہاں پر جدید سکول، کالج، یونیورسٹیاں بنائی جاتی۔ عوام کے لیے ہسپتال بنائے جاتے۔ کھیلوں کے میدان بنائے جاتے وہاں پر انڈسٹری لگائی جاتی۔ افغانستان کے پہاڑوں میں چھپے ہوئے خزانے تلاش کیے جاتے۔ افغانستان کی نوجوان نسل کو تعلیم اور روزگار مہیا کیا جاتا۔ نوجوان نسل کے ہاتھوں سے بندوق لے کر قلم پکڑایا جاتا۔ عوام میں شعور بیدار کیا جاتا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا اب بھی سبق سیکھ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments