نوجوان دیہی خواتین کے متاثرکن کاروباری اقدامات


زکیہ ایک نوجوان کاروباری خاتون ہیں جن کا تعلق لیہ سے ہے۔ زکیہ نے ایک دیہاتی علاقے میں پرورش پائی جہاں عام طور پر خواتین گھروں یا کھیتوں میں ہی کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ زکیہ کے والد ان کے گھر کے واحد کمانے والے تھے۔ والد صاحب کی دو بیویوں کے سبب دو دو گھروں کے اخراجات اٹھانا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ کم عمری سے ہی بہت سی ضروریات ادھوری رہیں تو زکیہ کو احساس ہونے لگا کہ صرف والد پر انحصار گھاٹے کا سودا ثابت ہو گا۔

2017 میں وہ نوجوانوں کی ایک تنظیم ’برگد‘ کے ساتھ وابستہ ہوئیں اور اوکسفیم کے ایک پراجیکٹ ایمپاور یوتھ فار ورک (EYW) کا حصہ بنیں۔ 2018 میں انھوں نے نوجوانوں کے چھوٹے کاروبار کے حوالے سے ایک ٹریننگ میں شمولیت اختیار کی۔ اس ٹریننگ کے بعد زکیہ کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوا اور بہت سی ادھوری ضروریات جو پوری ہوتی دکھائی نہ دیتی تھیں اب زکیہ نے خود ان کو پورا کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیہ میں EYW پراجیکٹ کا ایک حب موجود تھا جس میں زکیہ نے اپنا کیفے کھولنے کے لئے درخواست جمع کرائی۔

عمل درآمد کے بعد ان کی درخواست کو قبول کر لیا گیا۔ برگد نے ان کو کیفے کا بنیادی سامان فراہم کیا۔ کیفے کا باقاعدہ آغاز مارچ 2019 میں ہوا اس وقت زکیہ کی عمر تئیس سال تھی۔ زکیہ نے چائے، سموسوں اور حب کے مختلف ٹریننگ سیشنز میں آئے لوگوں کی ریفریشمنٹ کا انتظام کرنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی مٹی کے مرتبانوں میں وہ خود کا ڈالا ہوا اچار بھی بیچتی ہیں۔ ان کا اچار علاقے بھر میں ایک نام پیدا کر چکا ہے اور ”تعبیر ہم اچار EYW“ کے نام سے اپنی الگ پہچان بھی رکھتا ہے۔

ابتداء میں زکیہ کے گھر والوں کو ان کے اس اقدام کی خبر نہ تھی۔ معلوم ہونے پر ان کے بھائی اور علاقے کے چند لوگوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر زکیہ اپنے مشن پر ڈٹی رہیں۔ آج وہ نہ صرف اپنے آپ کو معاشی طور پر خودمختار کر چکی ہیں بلکہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے تعلیمی اخراجات اور گھر کے دیگر اخراجات بھی اٹھا رہی ہیں۔

روشنی انور یونیورسٹی آف سندھ جامشورو کی ایک بائیس سالہ طالبعلم ہیں۔ جنوری 2021 میں روشنی نے اپنا کاروبار شروع کیا اور ان چند مہینوں میں اپنی لگن اور محنت سے نہ صرف خود کو بلکہ اپنے کاروبار سے منسلک دوسری خواتین کو معاشی طور پر خودمختار بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ روشنی نے 2019 میں چھوٹے کاروبار کے حوالے سے اوکسفیم کی ایک ٹریننگ میں شرکت کی تھی۔ روشنی کا کہنا ہے کہ اس ٹریننگ سے پہلے وہ نو سے پانچ والی ملازمت کے حصول کا ارادہ رکھتی تھیں۔

ٹریننگ کے بعد انھیں اندازہ ہوا کہ وہ اپنا مستقبل اور بھی طریقوں سے سنوار سکتی ہیں۔ انھوں نے اپنے اردگرد مختلف ضروریات پر غور کیا۔ ان کے علاقے میں لڑکیوں کے معیاری ہاسٹل دستیاب نہ تھے جس کی وجہ سے دور دراز سے آئی لڑکیوں کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔ روشنی نے لڑکیوں کے ہاسٹل بنانے کا فیصلہ کیا اور اپنی اسٹریٹجی میں صنفی مساوات، مناسب روزگار اور آب و ہوا کے خیال رکھنے کے سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ گولز کو بھی شامل کیا۔

اپنے علاقے میں ہی انھوں نے ایک کشادہ عمارت کا انتخاب کیا اور کرائے پر اس کو حاصل کرنے کے بعد اس کی مرمت کروائی اور ہاسٹل کے لئے بنیادی سامان کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ روشنی نے بیس ہزار کی انوسٹمنٹ سے اپنے کاروبار کا آغاز کیا۔ انھوں نے ہاسٹل کے لان سے لے کر ٹیرس اور کمروں کے باہر بھی پودے لگائے۔ ہاسٹل کو بھرپور طریقے سے آرام دہ بنایا اور کھانے کے معیار کو بھی سامنے رکھا۔ روشنی بتاتی ہیں کہ شروع شروع میں چند ایک ہی لڑکیاں ہاسٹل میں رہنے کے لئے آئیں جس پر روشنی کو مایوسی ہوئی کہ شاید انھیں اپنی محنت کا صلہ نہیں ملے گا مگر وہ اپنے کام کو اور بہتر بناتی گئیں۔

ہمت نہ ہارنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہاسٹل نوجوان لڑکیوں میں مقبول ہونے لگا اور روشنی نہ صرف اپنے اس کاروبار سے خود معاشی طور پر خودمختار ہوئیں بلکہ وہ دوسری کچھ لڑکیوں کو مناسب ملازمت دے کر خود مختار کر سکیں۔ روشنی کا ماننا ہے کہ آؤٹ آف دی باکس سوچنا ہی کافی نہیں بلکہ اس پر عمل کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔

رباب رشید ایک اکیس سالہ نوجوان کاروباری خاتون ہیں۔ رباب سوشیالوجی کی طالبعلم ہیں اور سندھ کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے والد ایک صحافی ہیں اور والدہ بھی تعلیم یافتہ خاتون ہیں جس کی وجہ سے رباب کے گھر کا ماحول دیگر دیہی گھروں سے مختلف رہا۔ ان کے والد اپنی بیٹیوں کی اعلیٰ تعلیم اور سنہرے مستقبل کے خواہشمند ہیں مگر وہ اپنے گاؤں کو بھی چھوڑنے کو تیار نہیں کیونکہ وہ اپنے گاؤں میں رہ کر یہاں کے لوگوں کو پڑھانا چاہتے ہیں اور ان کی سوچ میں مثبت تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں۔

اس وجہ سے رباب کو احساس تھا کہ انھیں جو بھی کرنا ہو گا گاؤں میں رہتے ہوئے ہی حاصل کرنا ہو گا۔ رباب اور ان کی چھوٹی بہن رمشہ نے انسٹاگرام پر اپنا اکاؤنٹ بنایا اور آن لائن میک اپ بیچنے کا کام شروع کیا۔ نوجوانوں کے کاروبار کے حوالے سے ٹریننگ لینے کے بعد ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا اور اپنے کاروبار کو آگے بڑھانے کے نئے طریقوں سے بھی آگاہ ہوئیں۔ انھوں نے مختلف سوشل میڈیا انفلوانسرز سے روابط قائم کر کے اپنے پراڈکٹس کی مشہوری شروع کی۔

یوں ان بہنوں کا کاروبار علاقہ بھر میں مقبول ہوتا چلا گیا۔ شروع شروع میں وہ صرف میک اپ کی فروخت کا کام کرتی تھیں مگر اب وہ جیولری اور بیگ وغیرہ بھی فروخت کرتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی مناسب دستیابی نہ ہونے کی بدولت رباب پریشان رہتی تھیں لیکن ڈیوائس کو ریچارج کرا وہ اپنے کاروبار کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ رباب کا ماننا ہے کہ اگر انٹرنیٹ کی فراہمی دیہی علاقوں میں ممکن بنا دی جائے تو ان جیسی بہت سی نوجوان خواتین کے خواب آسانی سے پورے ہو سکیں گے۔

اس کے علاوہ رباب اپنی اس کامیابی سے بہت خوش ہیں اور وہ پرامید ہیں کہ وہ اپنے اس کاروبار کو جاری رکھتے ہوئے نوجوان دیہی خواتین کے لئے مثال قائم کر سکیں گی۔

پاکستان ترقی کی راہوں پر گامزن ہے ایسے میں وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ملک بھر کے شہری اور دیہی علاقوں میں ڈیجٹل پلیٹ فارموں کی دستیابی اور معیاری انٹرنیٹ تک ہر نوجوان کی رسائی کو یقینی بنا کر نہ صرف بہت سے نوجوانوں کی معاشی خودمختاری کو یقینی بنایا جا سکتا ہے بلکہ اس سے پاکستان کی معیشت کو بھی بہترین فوائد پہنچائے جا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments