محبت سے بے رغبتی


حضرت آدم علیہ السلام کو ”جنت“ میں ”احساس تنہائی“ دلایا گیا اور پھر اماں حوا کو ان کی ساتھی بنایا گیا، جب کہ اماں حوا کو تنہائی کے تجربے کے بغیر ہی حضرت آدم علیہ السلام کا ساتھ ملا۔ جنت میں ساری نعمتیں اور پسندیدہ ساتھی ہونے کے باوجود دونوں شیطان کے بہکاوے میں آ گئے اور انہیں جنت سے نکلنا پڑا۔ البتہ حوا اور آدم علیہما السلام کا ساتھ برقرار رہا۔

سو کہا جا سکتا ہے کہ حضرت انسان کا گزارہ جنت کے بغیر تو ہو گیا لیکن ساتھی کے بغیر نہیں۔

سب کچھ پا لینے کے بعد بھی تجسس کا مادہ انسان کو نچلا بیٹھنے نہیں دیتا۔ اور اسی تجسس کے وجہ سے انسان کو جنت سے بے دخل ہو نا پڑا۔ اور اب یہی تجسس ہے جس کی مدد سے وہ کائنات کو مسخر کر، دنیا کو جنت بھی بنا سکتا ہے اور مسخری کر جہنم بھی۔

جنت میں انسان کو سب کچھ بغیر محنت کے مہیا تھا جب کہ دنیا میں انہیں اپنا رزق آپ کمانا تھا۔ لیکن رزق کے ساتھ ساتھ ساتھی کی ضرورت بھی اس کو قدم قدم پر رہی۔ اور آج تک ہے۔ جب کہ جانور تک کو اس ضرورت سے استثنا نہیں۔ وہ بھی کچھ مستثنیات کے علاوہ جوڑوں کی یا جھنڈ کی صورت میں رہتے ہیں۔ تنہا نہیں۔ سو کوئی ساتھی اور کسی کا ساتھ انسان کی فطرت کا لازمہ ہے۔

اور اس ساتھ کا مہذب دنیا میں مقبول ترین طریقہ شادی ہے۔ لیکن کچھ لوگ شادی نہیں بھی کرتے۔ ہم سمجھتے تھے کہ شادی نہ کرنے کی وجوہات شاید صرف مندرجہ ذیل ہو سکتی تھیں :

الف: آپ بدھ (گوتم بدھ یا بدھ مت کے پیرو) ہیں۔ یا پھر راہب ہیں۔
ب) یا پھر آپ بہت زیادہ بدھی مان یعنی کہ دانشور ہیں۔
ج) نامرد یا نا عورت ہیں؟ یا نہ مرد ہیں نہ عورت ہیں!
د) بدھو ہیں یا آپ کی بدھی نشٹ ہو گئی ہے۔

ان زمرہ جات کے علاوہ تقریباً ہر انسان، ہندو خواہ مسلمان، خواتین خواہ حضرات شادی کے شائق ہیں۔ لیکن اب پتہ چلا ہے کہ شادی نہ کرنے کا ایک سبب اشتہا کی کمی بھی ہے۔ اور اس بات کا پتہ ہمیں ”ہم سب“ میں ڈاکٹر لبنی ٰ مرزا صاحبہ کا مضمون بعنوان ”عورتوں میں جنسی خواہش کم ہونے کی وجوہات“ پڑھ کر چلا۔ یہ یقیناً اتفاق تھا کہ راقم نے جب ڈاکٹر صاحبہ کی عورتوں کی جنسی بے رغبتی کے بارے میں تحریر پڑھی تو اسی کے ساتھ ہی مختلف ویب سائٹس پر کم از کم دو اداکاراؤں کے بارے میں ایسی خبریں پڑھیں اور دیکھیں جن میں ایک خاتون کو کہنا تھا کہ وہ ”فی الحال کام کرنا چاہتی ہیں،“ جب کہ دوسری کا خیال تھا کہ ”فی الحال انہیں شادی کی طلب نہیں“ ۔ جب کہ اس سے قبل ایک اور اداکارہ کا اس قسم کا بیان چھپا تھا کہ، ”جاؤ بابا، معاف کرو۔ مجھے شادی نہیں کرنی!“

اگرچہ خواتین بعضے ہمیں بھی بابا پکار لیتی ہیں لیکن ہمیں یقین ہے یہاں بابا سے مراد ہم قطعی نہیں لیکن ہم پھر بھی انہیں معاف کرتے ہیں!

ہمیں پتہ ہے ان بے اشتہا خواتین نے کبھی اپنا فیصلہ تبدیل بھی کیا تو کم ازکم انہوں نے ہمیں تو اپنی شادی کی دعوت نہیں دینی اس لیے ہمیں ان سے دلی ہمدردی ہے اور ہماری دعا ہے کہ یہ خواتین ”شاد۔ کام“ بھی ہوں اور ”کام۔ شاد“ بھی، لیکن اگر ہم ڈاکٹر صاحبہ کا مضمون نہ پڑھتے تو یقیناً ہمیں اس بات پر کافی حیرت ہوتی کہ ہماری ہر فلم کا مرکزی خیال عام طور پر محبت اور شادی ہوتا ہے اور ہر سو ڈراموں میں 99.9 میں بھی ”عشق پر زور نہیں“ کے نعرے کے ساتھ ”شادی پر ہی زور“ دیا جاتا ہے۔ اور یہ ”کام“ سے دلچسپی رکھنے کے باوجود شادی سے دلچسپی یا اس کی طلب سے محروم خواتین ان ڈراموں میں یا تو دلہن بنی نظر آتی ہیں، یا پھر دلہن بننے کی کوشش کرتی، یا دلہن بن جانے کے بعد اپنے آپ کو اچھی بہو ثابت کرنے کے مہم یا جدوجہد میں مصروف ہوتی ہیں۔

پھر بعضے اس قسم کے گیت بھی سنائی دیتے ہیں :
اللہ کرے میں بھی دلہن بن جاؤں،
دلہن بنوں میں تیری،
یا شادی تجھی سے ہو میری چاہے شادی کے دن مرجاؤں
اور، میرا یار بنا ہے دولہا۔ وغیرہ۔
یہ لطیفہ بھی بے محل نہیں :

ایک ٹیچر نے کلاس میں بچے سے پوچھا، ”بڑے ہو کر کیا کرو گے؟“ بچے نے جواب دیا، ”شادی۔“ ٹیچر نے وضاحت کی ”میرا مطلب ہے کیا بنو گے؟“ بچے نے کہا، ”دلہا۔“ ٹیچر نے پھر سوال کیا، ”میرا مطلب بڑے ہو کر زندگی میں کیا حاصل کرنا چاہو گے؟“ بچے نے جلدی سے کہا، ”دلہن۔“ ٹیچر کو غصہ آ گیا، کہنے لگیں، ”بدتمیز، بڑے ہو کر اپنے امی، ابو کے لئے کیا لاؤ گے؟“ بچے نے معصومانہ انداز میں کہا، ”بہو لاؤں گا۔“ ٹیچر نے پھر کہا، ”ارے بے وقوف، تمہارے ابو تم سے کیا چاہتے ہیں؟“ بچے نے جلدی سے کہا، ”پوتا۔“ ٹیچر کا غصہ اپنے عروج پر پہنچ گیا، ”ابے نالائق، تمہاری زندگی کا مقصد کیا ہے؟“ بچے نے شرماتے ہوئے کہا، ”شادی۔“

کچھ عرصہ قبل پیش کیے جانے والے دو ڈرامے تانا بانا اور چپکے چپکے ناظرین کو یاد ہوں گے۔ ان میں سے ایک میں خاتون تعلیم سے جان چھڑانے کے لیے شادی کرنا چاہتی ہیں اور آخرکار نہ صرف شادی کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں، بلکہ پڑھنے بھی لگ جاتی ہیں، جب کہ دوسرے ڈرامے میں دوسری خاتون شادی کے بعد بھی پڑھنا جاری رکھنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے اپنے ہونے والے شوہر سے ایک تحریری معاہدہ کرتی ہیں کہ وہ شادی کے بعد ان کی تعلیم میں رکاوٹ نہیں بنیں گے اور یہ بھی نہ صرف پڑھ پڑھا لیتی ہیں بلکہ سیریل ختم ہوتے ہوتے اپنے آپ کو اچھی بہو بھی ثابت کر دیتی ہیں۔

ہماری خواہش ہے کہ ہماری بچیاں پڑھیں بھی اور شادیاں بھی کریں۔ اور کوئی کام کرنا چاہیں تو کوئی انہیں کام سے بھی نہ روکے اور اگر وہ صرف خانہ داری کرنا چاہیں تو اسے بھی ان کے لیے طعنہ نے بنایا جائے کہ، ”یہ تو کوئی کام ہی نہیں کرتی!“ یعنی اگر کوئی بچی یا خاتون بے بی سٹنگ سے بے بے سٹنگ تک کی خدمات بلامعاوضہ سرانجام دیتی ہیں تو وہ کوئی کام ہی نہیں کرتیں؟

مندرجہ بالا ”معروضات“ کے روشنی میں ہم کہنا صرف یہ چاہتے ہیں کہ، اگر بات وہی ہے جو ڈاکٹر صاحبہ بتار ہی ہیں کہ جنسی بے رغبتی بھی ایک قسم کا مرض ہے اور اس کا علاج ہونا چاہیے نا کہ ایسی خواتین شادی ہی نہ کریں۔ نہ صرف یہ کہ شادی نہ کریں بلکہ شعوری یا لاشعوری طور پر تجرد کی نمائندہ اور وکیل بن جائیں۔ اس سلسلے میں پریشانی کی بات صرف اتنی ہے کہ ان خواتین کو موجودہ دور کی بچیاں رول ماڈل خیال کرتی ہیں اور ان کی ہر ہر ادا کو نقل کرنا قابل فخر سمجھتی ہیں۔

آدم کی اولاد کو تو جنت میں تنہائی کا تجربہ ہو چکا سو ہم نے کم ازکم شادی سے پہلے تو بہت ہی کم آدم زادوں کو شادی سے بیزار پایا ہے لیکن قلیل تعداد میں ہی سہی لیکن کچھ حوا زادیوں کا دل شاید، دیگر کئی اسباب کے علاوہ شاید جنت میں تنہائی کا تجربہ نہ ہونے کے سبب دنیا میں اس قسم کا تجربہ کرنے پر نسبتاً زیادہ مائل ہے۔ لیکن انہیں یہ خیال رکھنا چاہیے کی مڈل کلاس لڑکیاں یہ تجربہ افورڈ نہیں کر سکتیں۔ اس لیے یہ بے اشتہا خواتین شادی نہ کریں لیکن اس کا اعلان اور اشتہار بنا کر معصوم بچیوں کو شادی سے برگشتہ بھی نہ کریں۔

اور شادی صرف جسمانی رشتہ نہیں۔ دو میاں بیوی جب دن بھر کر سرگرمیوں کے بعد ساتھ ہوتے ہیں تو ان کا ایک دوسرے سے محبت بھرا یہ استفہام یا استفسار کہ، ”آج کا دن کیسا رہا؟“ نہ صرف ان کے دن بھر کی تکان کو دور کر دیتا ہے بلکہ ان کی رات اور زندگی کو بھی سکون سے بھر دیتا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ تنہائی کا ایسا تجربہ مڈل کلاسیوں کی بچیوں کے لیے قطعی نامناسب ہے، مڈل کلاسیے تو بچیوں کو پڑھاتے ہی اس لیے ہیں کہ کوئی اچھا رشتہ مل جائے اور خدا نخواستہ اچھا رشتہ آگے چل کر اچھا نہ رہے تو تعلیم یافتہ بچیاں اپنے طور پر خود کو سنبھال سکیں۔ اور افسوس کہ اس وقت بچوں کی تعلیم نوکری کے حصول کا ذریعہ ہے اور بچیوں کی تعلیم، تعلیم سے زیادہ حفظ ماتقدم کی ایک کوشش۔ کاش کہ ہم کبھی تعلیم برائے علم یا کم از کم تعلیم برائے تعلیم ہی کے بھی قائل ہو سکیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments