قومی سلامتی کی بریفنگ، ہلکی پھلکی سیاسی مصلحت اور قومی اتحاد


قومی سلامتی کی میٹنگ میں عمران خان کی غیر حاضری اور کچھ سیاسی لوگوں کا تذکرہ پاکستان کی سیاست میں بحث کا موضوع گفتگو بنے رہے۔ عمران خان اس بریفنگ میں جانا نا جانا میرے لئے اتنا معنے نہیں رکھتا۔ کیونکہ پہلے کون سا عمران خان اپوزیشن کے ساتھ کبھی کسی بھی مسئلے کے لئے بیٹھے ہیں؟ اور اب تو یہ بریفنگ بھی اپوزیشن کے کہنے پر دی گئی تھی۔ تو ایسے میں عمران خان اپوزیشن کے ساتھ خاص کر شہباز شریف اور عسکری قیادت کی ڈائریکٹ بریفنگ کیسے برداشت کر لیتے۔

عمران خان کو بہت اچھی طرح سے اندازہ ہو گیا ہے۔ کہ اب مسلم لیگ نون اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان سیز فائر ہو چکا ہے۔ اور یہ ابھی نہیں ہوا۔ اس کا آغاز کافی عرصہ پہلے ہی ہو چکا ہے۔ اور سب سے بڑی وجہ اور عمران خان کے لئے وزارت عظمی کا امیدوار شہباز شریف صاحب ہی ہیں۔

اور جب تک شہباز شریف ہیں۔ عمران خان مسلم لیگ نون کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

آرمی چیف کے ایک بیان کو توڑ مروڑ کر غلط شخصیت مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف صاحب کے ساتھ منسوب کر کے پیش کیا گیا۔

بلاول بھٹو زرداری صاحب نے چائے کے سیشن کے دوران آرمی چیف سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ ”آپ علی وزیر کو بھی معاف کر دیں“

بلاول بھٹو زرداری صاحب کے علی وزیر کے مکالمے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے کہا۔
علی وزیر کی پاکستان کی فوج سے متعلق نفرت انگیز تقاریر ان ریکارڈ موجود ہیں۔ انھوں نے لوگوں کے نام لے کر نفرت انگیز اور انتشار پر مبنی بیانات دیے۔ انھوں نے نام لے کر لوگوں کو پھانسی دینے تک کی بات کی ہے۔ اور علی وزیر کو اپنے ان بیانات پر معافی مانگنی ہو گی۔ تنقید تو نواز شریف صاحب نے اور ایاز صادق صاحب نے بھی میری ذات پر کی ہے۔ لیکن میں نے برداشت کی ہے۔
” میں اپنی ذات پر تو تنقید برداشت کر لوں گا۔ لیکن پاکستان کے ادارے پاک فوج پر تنقید برداشت نہیں کی جائے گی“

جیسے بعد میں اس مکالمے کو نواز شریف صاحب سے منسوب کر کے پھیلایا گیا۔ پتہ نہیں یہ بات جان بوجھ کر کیوں پھیلایا گیا۔ شاید سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے۔ لیکن مسلم لیک ن کے سوشل نے اڑتا ہوا تیر پکڑ کر ضرور سارا دن ٹرینڈ ضرور چلایا۔

ویسے بھی مسلم لیگ نون والوں کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ یا تو فیصلے کرنے میں دیر کر دیتے ہیں۔ یا پھر فیصلے کرنے میں اتنی جلد بازی کرتے ہیں کہ بعد میں پتہ چلتا ہے یہ ہم نے ایسا کیا تو کیا کیوں۔ میں اس کا کریڈٹ اس جماعت کی کچھ لیڈرشپ کے اردگرد موجود نا پختہ ذہین رکھنے والے لوگوں کو دوں گی۔

بہرحال اس آرمی چیف کے اس بیان سے پاک فوج کے نوجوانوں کے حوصلے بلند ضرور ہوئے ہیں۔ اور جو لوگ سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان لفظی گولہ باری کو پرسنل کہہ رہے تھے۔ آرمی چیف کے اس بیان سے یہ تو واضح ہو گیا۔ کہ یہاں پرسنل کچھ بھی نہیں ہے۔

ہاں اس قومی سلامتی کی میٹنگ میں چائے کے دوران یہ بات بھی ضرور ہوئی کہ اپ نون لیگ پر ہاتھ ہلکا رکھیں جس کا جواب آرمی چیف نے ہنستے ہوئے حکومتی نمائندے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کچھ اس انداز میں دیا کہ ”یہ بھی ہیں“

انھوں نے یہ اشارہ کر کے پیغام بھی دے دیا۔ کہ ہم ہی نہیں یہ حکومت بھی بہت کچھ کرتی ہے۔

اسی بات کی طرف میں بہت عرصے سے لکھ رہی ہوں۔ کہ اپوزیشن کے خلاف سب کارروائیوں کے پیچھے عسکری قیادت نہیں ہوتی۔ عمران خان بائیس سالہ جدوجہد کے بعد اقتدار کے اعلی منصب پر پہنچا ہے۔ اس نے بھی تو اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کو دکھانا ہے۔ جو وہ اپنے ووٹر سے وعدہ کیے ہیں۔ میں ان کرپٹ چور، لٹیروں کو نہیں چھوڑوں گا۔ انھیں جیلوں میں بند کروں گا وغیرہ اور وہ اپنے ووٹر بنک کی خوشی کے لئے ہی سب کر رہے تھے۔ جیسے اسٹیبلشمنٹ نے مزید سب کچھ کرنے سے روک رکھا ہے۔

قومی سلامتی کی یہ بریفنگ دراصل آنے والے وقت میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری درجہ حرارت کو کم کرنے کا باعث ضرور بنے گی۔

بہت عرصے کے بعد پاکستان کی حکومت سمیت اپوزیشن نے مل کر پوری دنیا کو متحد اور منظم پیغام دیا ہے۔ وہ قابل ستائش بات ہے۔ اور اس کا کریڈٹ صرف اور صرف آرمی چیف اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے۔ کیونکہ اج سے پہلے بہت کم ایسا ہوتا رہا ہے۔

پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن کو سیکورٹی بریفنگ ایک اچھا شگون ہے۔ اور یہ آرمی چیف کے پر اعتماد شخصیت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ کہ وہ اور ان کی پوری ٹیم کس قدر پر اعتماد ہیں۔

پاکستان کو آنے والے دنوں میں کیا کیا مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ امریکہ افغانستان سے نکل گیا ہے۔ اور امریکہ کے جاتے ہی افغان افواج اور طالبان کے درمیان جھڑپیں بھی شروع ہو گئی ہیں۔

امریکی ساز و سامان اور جنگی ہتھیار سے لے کر گاڑیوں اور جنگی ٹینک پر طالبان کا قبضہ خطرے کی طرف اشارہ ہے۔ اور طالبان حکومت یہ بیانات دے رہی ہے۔ کہ امریکہ نے اپنے فوجی اڈے چھوڑتے وقت ہمیں اطلاع نہیں دی۔ ورنہ ہم یہ لوٹ مار نا ہونے دیتے۔

کتنے معصوم ہیں افغان حکومتی نمائندے بھی، اگر امریکی اپ کو بتا دیتے تو طالبان کے ہاتھ یہ سب کیسے لگتا۔ اور اگر یہ سب کچھ طالبان کے ہاتھ نا لگتا۔ تو وہ پاکستان سے ان کے ائر بیس لینے کے لئے کیا چورن بیچتے؟

طالبان ایک ایسا کالا سایہ ہے۔ جس کا اثر اب پاکستان کی عسکری قیادت اپنی سرحدوں کے اوپر دوبارہ نہیں دیکھنا چاہیے گی۔ ورنہ یہ سایہ بھارتی مدد کے ساتھ کب اور کیسے بلوچستان میں جن بن کر قابض ہو جائے گا پتہ بھی نہیں چلے گا۔ لہذا اس بار قدم پھونک پھونک کے رکھے جائیں گے۔ اور اس کے لئے سیاسی اور عسکری قیادت اپوزیشن کے ساتھ مل کر سیم سیج پر آ چکے ہیں۔

پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کے لئے قومی مفاد میں فیصلے لئے جائیں گے تاکہ ان فیصلوں کی کامیابی اور ناکامی دونوں کو سب مل کر اون کر سکیں۔ جیسا کے میں اپنے پیچھے کالم میں بھی لکھ چکی ہوں۔ کہ اب سب کو اعتماد میں لے کر ہی قومی مفاد میں فیصلے ہوں گے۔

اسٹبلشمنٹ نے پاکستان کے اندر کے سیاسی نظام کو پوری طرح اپنے قبضے میں لیا ہوا ہے۔ اور وہ اس سے مطمئن بھی ہیں۔ انھوں نے ایک روڈ میپ اپنے لئے تیار کر رکھا ہے۔ اگر اے نہیں تو بی اگر بی نہیں تو سی اور اگر سی بھی نہیں تو قومی حکومت ہی آخری راستہ ہو گی۔ اور اس کے بہت واضح اشارے وہ سیاسی جماعتوں کو دے چکے۔ ” مائی وے اور ہائی وے“۔ اور سب سیاسی جماعتیں انھیں کے راستے پر چلنے کے لئے بالکل تیار ہیں۔

عمران خان اپنے پانچ سال پورے کریں گے۔ جیسا کے میں پہلے کالم میں لکھ چکی ہوں۔ کہ سیاست ایسے ہی چلے گی۔ اور سب اسی تنخواہ پر کام کریں گے۔ پہلے بھی کہا تھا اب دوبارہ دہرا دیتی ہوں۔ سیاسی جماعتوں کو جھکنا ہی تھا اور وہی جھکے ہیں۔ مفاہمت سیاست پر ہونی تھی۔ اور اسی پر ہوئی ہے۔ کمزور جھکا کرتے ہیں۔ اب سیاسی جماعتوں نے لڑ کر بھی دیکھ لیا کچھ نہیں کر پائے۔ وہ ایک محاورہ ہے نا ” لوٹ کے بدھو گھر کو آئے“

اب وطن کی خاطر، قومی سلامتی وغیرہ کے بھاشن سن کے مزید بے وقوف بننا چاہتے ہیں۔ تو ضرور بنتے رہیں۔ مرضی اپ کی ہے۔

پہلے بھی کہا اب بھی اپنی اسی بات پہ قائم ہوں۔ بہادر بے داغ کردار کے مالک ہی لڑا کرتے ہیں۔ جن لوگوں کا سیاسی مستقبل داو پہ لگا ہو۔ وہ لڑتے نہیں ڈیل، مفاہمت کی بات کیا کرتے ہیں۔ کیونکہ انھیں پتہ ہے۔ سیاست کے میدان میں رہیں گے تو سیاست کریں گے نا؟ اور اگر سیاست میں رہیں گے تو ہی اپ جیسی بھیڑ، بکریوں پر راج کر سکیں گے۔

خاموشی قومی اداروں پہ تنقید کی بجائے ہماری تو کسی سے لڑائی ہی نہیں ہے تک کے سفر سے حکومت پر تنقید ہم اسے ڈیل کہہ لیں۔ مفاہمت کہہ لیں یا ملک کے لئے قومی مفاد الفاظ کچھ بھی استعمال کر لیں۔ یا پھر سیاسی پارٹیوں کا اپنا اپنا طریقہ واردات کہہ لیں یا الفاظ کا ہیر پھیر۔
یہ میں اپ پر چھوڑتی ہوں۔ لیکن گیم آن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments