الف انار، ب بکری، پ پتا نہیں (2)


 بی بی سی لندن میں ہمارے سینئر اور منجھے ہوئے صحافی اطہر علی کبھی کبھی چھیڑنے کے انداز میں کہا کرتے: ”شاہد، آپ کا پروگرام تھا تو اچھا مگر ذرا عالمانہ تھا۔“ ابتدا میں تو یہ بات میری سمجھ میں نہ آئی۔ پھر اردو سروس کے باقی ساتھیوں سے تعلق بڑھا تو احساس ہونے لگا کہ محض نصابی ضرورت کے تحت سیکھی گئی زبان اور ماں بولی میں فرق ہوا کرتا ہے۔ اِسی لئے لسانی ماہرین اِن دونوں تجربات کو سیکھنے سکھانے کے الگ الگ عمل کے طور پہ دیکھتے ہیں اور مادری زبان کے لئے ’سکھلائی‘ کی جگہ ’تحصیل‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اِس میں شعوری کوشش سے زیادہ اُن عناصر کو دخل ہے جو کسی نعرہ بازی کے بغیر ’دبے پاؤں‘ کچھ حاصل کرلینے کے اِس فطری عمل کو پُر سہولت بنا دیتے ہیں۔ چنانچہ نارمل ماحول کے ’جم پل‘ کم ہی لوگ ہوں گے جنہوں نے بچپن میں مادری زبان سیکھی اور اُنہیں اِس میں دِقت کا سامنا کرنا پڑا۔

بظاہر یہ سادہ سی بات ہے اور اگر آپ مرحوم اطہر علی کی طرح مجھے عالمانہ پروگرام کرنے کا طعنہ نہ دیں تو اپنے مطالعے اور مشاہدے کی روشنی میں (جو محدود سا ہے) عمومی دلچسپی کے دو ایک نکتے اَور بیان کر دوں۔ پہلا یہ کہ انسانی سماج میں کوئی بھی بچہ شعور کی آنکھ کھولتا ہے تو اِرد گرد کی کچھ آوازیں اُس کے کان میں پڑنے لگتی ہیں۔ اِن آوازوں کا اِدھر اُدھر پھیلی ہوئی چیزوں سے کیا تعلق ہے؟ شکلیں، رنگ، حرکت و سکون، یہ سب کِس کی پہچان کے اشارے ہیں؟ اور بقول غالب ”عشوہ و غمزہ و ادا کیا ہے؟“ خارجی زاویے سے نظر ڈالیں تو بچہ کانوں کے راستے کچھ آوازیں یا لفظ سیکھ رہا ہے مگر اِنہی الفاظ کے ساتھ آنکھ سے دکھائی دینے والے ابتدائی حقائق بھی جڑے ہوتے ہیں۔ گویا چیز کا نام، چیز کی تصویر یا کہہ لیں کہ چیز کی تصویر اور چیز کا نام۔ یوں لفظیات کا ایک چھوٹا سا دائرہ بن رہا ہے جو آگہی کا دائرہ بھی ہے۔

تو کیا بچے کے سوچنے سمجھنے کی بنیادی صلا حیتیں اور اِن کی بتدریج نشوونما مادری زبان کی تحصیل کا پیش خیمہ ہوئی یا تحصیل کا نتیجہ؟ اِس تحقیق کا حتمی جواب نہ ملنے پر ماہرین کو یہ کہتے سُنا گیا ہے کہ ترتیب کچھ بھی سہی، ابتدائی ذہنی ترقی اور لسانی نشوونما ہیں ایک ہی سکے کے دو رُخ۔ بچے کے ہوش سنبھالتے ہی کسی نے روشنی کی طرف اشارہ کر کے اگر اُس سے کہا کہ ”لائٹ“ تو بچے نے جلتے ہوئے بلب کی طرف دیکھا اور مسکرا دیا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اُس نے سرے سے کوئی توجہ ہی نہ دی ہو۔ کسی نے تیسری چوتھی بلکہ پانچویں مرتبہ ’لائٹ‘ کہا اور بچہ مسکراتے ہوئے روشنی کی طرف دیکھنے لگا۔ گویا ایک نئی آواز کی صورت میں ایک لفظ سیکھا۔ نہ صرف لفظ سیکھا، ایک نیا آئیڈیا بھی دماغ میں بٹھا لیا۔ ماڈرن لوگ کہیں گے کہ آئیڈیا دماغ میں بیٹھ تو گیا، پر اِس سے فرق کیا پڑتا ہے۔ پڑتا ہے، بھئی۔

اِس لئے پڑتا ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے، مگر شروع شروع کے یہی الفاظ اور اُن سے وابستہ تصورات تیزی سے ہمارے ورلڈ ویو کا حصہ بننے کا رجحان رکھتے ہیں۔ پھر ذخیرہء الفاظ اور اُن سے وابستہ تصورات میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور آپ اپنی پرانی عینک کے شیشوں سے نئی حقیقتوں کو سمجھنے کی کو شش کرتے ہیں۔ عادت کے مطابق ذاتی بات کروں تو میری عمر چار سال یا اُس سے کچھ کم ہو گی جب مَیں نے ابا کے ساتھ لاہور سے سیالکوٹ روانہ ہوتے ہوئے شاہ عالمی کے نزدیک سرکلر روڈ پر مسافر بس کے بیرونی پینٹ کے لئے ’فیروزی‘ کا لفظ سنا۔ اِس سے پہلے ننھا سا ذہن بس لال، سبز، پیلے اور نیلے رنگ سے واقف تھا۔ لہذا ایک نیا لفظ سنائی تو دے گیا لیکن پینٹ کو دیکھ کر دماغ میں یہی تصور ابھرا کہ فیروزی رنگ نیلے اور سبز کی کوئی درمیانی شکل ہے۔ گویا پہلے سے سیکھی ہوئی لفظیات آئندہ فکری رویے کا ’ریگولیٹر‘ بن گئی۔ یہ ہے مادری زبان یا فرسٹ لینگویج کا کردار۔

اِس سے آگے پھر ایک ذاتی رولا ہے۔ اِن معنوں میں کہ بعد کے مرحلے پر (یا شاید ابتدا ہی سے) لفظوں کے وسیلے سے ذہن میں بیٹھنے والے سب تصورات ضروری نہیں کہ کسی نہ کسی مادی وجود سے براہِ راست جڑے ہوئے ہوں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی آواز کا تصویری حوالہ قدرے مبہم یا بالواسطہ نوعیت کا ہو۔ جیسے فیروزی رنگ کی طرح مجھے بچپن میں دو اَور الفاظ کا اپنی سماعت سے ٹکرانا بھی یاد پڑتا ہے۔ ایک تھا ’لالچی‘ جس کی شانِ نزول یہ ہے کہ والدہ نے ایک رشتہ دار خاتون کے نام کا لاحقہ برتتے ہوئے کہا: ”ویسے آپا۔۔۔ لالچی تو ہیں۔“مجھے لگا کہ ’ریڈرز ڈائجسٹ‘ کے ایک شمارے میں جو ایک براؤن سی تصویر چھپی ہوئی ہے اُس آدمی کو ’لالچی‘ کہتے ہیں۔ اِسی طرح کورن فلیکس کے ڈبے پر پھول نما رنگوں کو کبڈی کھیلتا دیکھ کر میرے ذہن میں ’بازیچہ‘ کا لفظ اُس خاکے پہ چپک کر رہ گیا تھا۔

فی الوقت اُن نہایت سنجید احباب کے سوا، جنہیں اعجاز رضوی مرحوم ’کھڑپیچے‘ کہا کرتے تھے، اکثر قارئینِ کرام موجودہ پیراگراف تک پہنچنے پہنچتے آج میرا ساتھ چھوڑ چکے ہوں گے۔ پھر بھی اگر چند اضافی سطریں پڑھنے کا حوصلہ ہو تو تازہ خبر پیش کر دوں۔ یہی کہ آپ کے کالم نویس نے اپنے تدریسی و تحقیقی تجربے کو کام میں لاتے ہوئے اپنے ہی ساتھ ایک اعلی سطحی اجلاس میں ’لالچی‘ اور ’بازیچہ‘ کے الفاظ پہ دوبارہ غور کر کے مثبت نتائج نکال لئے ہیں۔ سو، جن رشتہ دار خاتون کو میری ماں نے اُن کی غیر حاضری میں ’لالچی‘ کہا اُن کی رنگت ’ریڈرز ڈائجسٹ‘ والے براؤن آدمی سے ملتی تھی اور کسی بچے کے لئے یہ دلکش تصویری حوالہ ہے۔ رہا ’بازیچہ‘ تو تب تک مَیں ’باغیچہ‘ کا لفظ سُن چکا تھا۔ رنگین پھولوں سے دھیان باغیچے کی طرف گیا، مگر امکان ہے کہ بے ترتیب رنگوں نے ’غ‘ کو ’ز‘ میں بدل ڈالا۔ ہور دسو!!

 موجودہ سلسلہ وار تحریر کی بحث میری ریڈیو جرنلزم کی کلاس سے چھڑی تھی۔ اِس لئے کہ طلبہ نے جو چار خبرنامے اردو میں تیار کئے اُن میں سے بہترین بلیٹن وہ نکلا جو حیرتناک طور پر مجھ سے بالا بالا رومن اسکرپٹ میں لکھا گیا تھا۔ اب اپنی سوانح عمری کو روک کر اِس نئے رجحان پر تدریس و تحقیق سے وابستہ اپنے دوستوں کی سوچیں آپ کے ساتھ خوش نیتی سے شئیر کرنے کا ارادہ ہے۔ پھر یہی لارجر بینچ طے کرے گا کہ رواں عہد میں اردو رسم الخط کی رومن اسکرپٹ کی طرف مراجعت کو واقعی ایک پیرا ڈائم شفٹ کہہ کر معمولی ترامیم کے ساتھ قبول کر لیا جائے یا اِس پہ ڈٹ جائیں کہ ہم امریکہ کو اپنی سرزمین پہ کسی صورت فوجی اڈے قائم نہیں کرنے دیں گے۔ لارجر بنچ کااجلاس اگلی پیشی پر۔ ابھی تو آپ کے کالم نگار نے فریقِ استغاثہ اور صفائی، دونوں کے وکالت نامے ایک ہی ہاتھ میں تھام رکھے ہیں۔ (جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments