یوسف خان کا فلمی نام دلیپ کمار کب اور کیسے پڑا؟

پردیپ کمار - بی بی سی نامہ نگار


دلیپ کمار

Dilip Kumar family collection

مشہور انڈین اداکار جنھیں دنیا دلیپ کمار کے نام سے جانتی ہے، جن کی اداکاری کی مثالیں دی جاتی ہیں، ان کی کبھی فلموں میں کام کرنے میں دلچسپی تھی اور نہ ہی کبھی انھوں نے سوچا تھا کہ دنیا انھیں ان کے اصل نام کے بجائے کسی اور نام سے پہچانے گی۔

دلیپ کمار کے والد پھلوں کے بڑے کاروباری تھے۔ نوعمری میں دلیپ کمار کو اپنے خاندانی کاروبار میں شامل ہونا پڑا۔ ان دنوں انھیں کاروباری شخصیت محمد سرور خان کے بیٹے یوسف خان کے طور پر جانا جاتا تھا۔

ایک روز کسی بات پر ان کی والد کے ساتھ تکرار ہو گئی اور دلیپ کمار خود اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لیے پونا شہر چلے گئے۔ انھیں انگریزی زبان بھی آتی تھی اس لیے پونے میں برطانوی فوج کی کینٹین میں اسسٹنٹ کی نوکری مل گئی۔

وہیں انھوں نے اپنا سینڈوچ کاؤنٹر کھولا جسے انگریزی فوجی بہت پسند کرتے تھے۔ لیکن اسی کینٹین میں ایک روز انڈیا کی جنگ آزادی کی حمایت کرنے کے سبب انھیں گرفتار کر لیا گیا۔

ان کا کام بند ہو گیا۔ اپنے ان تجربات کا ذکر دلیپ کمار نے اپنی سوانح عمری ’دی سبسٹینس اینڈ دی شیڈو‘میں کیا ہے۔

اس واقعے کے بعد دلیپ کمار ممبئی واپس آ گئے اور والد صاحب کے کاروبار میں ہاتھ بٹانے لگے۔ انھوں نے تکیوں کی فروخت کا کام بھی شروع کیا جو کامیاب نہیں ہو سکا۔

ایک بار ان کے والد نے نینیتال جا کر سیب کا باغ خریدنے کا کام انھیں سونپا تو دلیپ کمار ایک روپے بیانہ دے کر معاہدہ کر آئے۔ انھیں اس کے لیے والد صاحب سے خوب شاباشی حاصل ہوئی۔

انھیں دنوں کی بات ہے جب ایک بار برٹش آرمی کینٹ میں لکڑی سے بنی پلنگیں سپلائی کرنے کا کام پانے کے لیے یوسف خان کو ایک دن دادر جانا پڑا۔ وہ چرچ گیٹ سٹیشن پر کھرے لوکل ٹرین کا انتظار کر رہے تھے۔ انھیں وہاں اپنی جان پہچان والے ماہر نفسیات ڈاکٹر مسانی مل گئے۔

مسانی ’بامبے ٹاکیز‘ کی مالکن اور اداکارہ دیویکا رانی سے ملنے جا رہے تھے۔ انھوں نے یوسف خان سے کہا چلو، کیا پتا تمہیں وہاں کوئی کام مل جائے۔ پہلے تو یوسف نے منع کر دیا۔ لیکن کسی فلمی سٹوڈیو کو پہلی بار دیکھنے کے شوق نے انھیں مہمیز لگائی۔

دلیپ کمار

Dilip Kumar

دیویکا رانی کا یقین

یوسف خان کو کیا معلوم تھا کہ ان کی قسمت بدلنے والی ہے۔ بامبے ٹاکیز اس دور کا سب سے کامیاب پروڈکشن ہاؤس تھا۔ اس کی مالکن دیویکا رانی فلم سٹار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک جدید خیالات والی خاتون تھیں۔

دلیپ کمار نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ جب وہ لوگ دیویکا رانی کے کیبن میں پہنچے تو وہ انھیں بہت باوقار خاتون لگیں۔ ڈاکٹر مسانی نے دلیپ کمار کا تعارف کراواتے ہوئے دیویکا رانی سے ان کے لیے کام کی بات کی۔

دیویکا رانی نے ان سے پوچھا کہ کیا انھیں اردو زبان آتی ہے؟ اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتے، ڈاکٹر مسانی نے انھیں یوسف خان کے خاندان کے پشاور سے دلی پہنچنے اور پھلوں کے کاروبار کے بارے میں سب کچھ بتا ڈالا۔

اس کے بعد دیویکا رانی نے یوسف سے ہوچھا کہ کیا وہ اداکار بننا چاہیں گے۔ اس سوال کے ساتھ ہی انھوں نے یوسف کو 1250 روپے ماہانہ کی نوکری کی پیشکش کر دی۔ ڈاکٹر مسانی نے اشارہ کیا کہ وہ اسے قبول کر لیں۔

دلیپ کمار

Twitter@NFAIOfficial
1950 میں ریلیز ہونے والی فلم بابل میں دلیپ کمار نے پوسٹ ماسٹر کا کردار ادا کیا تھا

لیکن یوسف خان نے دیویکا رانی کی پیشکش کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس کام کا تجربہ ہے اور نا ہی سینیما کی سمجھ۔۔ تب دیویکا رانی نے ان سے پوچھا ’تم پھلوں کے کاروبار کے بارے میں کتنا جانتے ہو؟‘ جواب میں یوسف خان نے کہا ’جی سیکھ رہا ہوں۔‘

دیویکا رانی نے ان سے کہا ’تم پھلوں کے کاروبار اور ان کی کاشت کے بارے میں سیکھ رہے ہو تو فلم میکنگ اور ایکٹنگ بھی سیکھ لو گے۔‘ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا ’مجھے ایک نوجوان، خوش شکل اور پڑھے لکھے اداکار کی ضرورت ہے۔ مجھے تم میں ایک اچھا اداکار بننے کی قابلیت نظر آ رہی ہے۔‘

سنہ 1943 میں 1250 روپے کتی بڑی رقم ہوتی تھی اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دلیپ کمار کو لگا کہ یہ رقم ان کی سالانہ تنخواہ ہو گی۔ انھوں نے ڈاکٹر مسانی سے دوبارہ پوچھنے کو کہا۔ اور جب مسانی نے انھیں دوبارہ پوچھ کر بتایا تب جا کر دلیپ کمار کو یقین ہوا کہ وہ اس نوکری کو ہاں کہہ کر بامبے ٹاکیز کے ہیرو بن گئے ہیں۔

بامبے ٹاکیز میں انھیں اداکار ششی دھر مکھرجی اور اشوک کمار کے علاوہ دیگر مشہور اداکاروں کو دیکھ کر اداکاری کی باریکیاں سیکھنے کو ملیں۔ انھیں ہر روز دس بجے صبح سے شام چھ بجے تک سٹوڈیو میں موجود ہونا ہوتا تھا۔

ایک روز جب وہ سٹوڈیو پہنچے تو پیغام ملا کہ دیویکا رانی نے انھیں اپنے دفتر میں بلایا ہے۔

دلیپ کمار نے اس ملاقات کے بارے میں اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے ’انھوں نے اپنی شاندار انگریزی میں کہا، یوسف میں تمہیں ایکٹر کے طور پر جلد از جلد لانچ کرنا چاہتی ہوں۔ ایسے میں خیال برا نہیں ہے کہ تمہارا ایک سکرین نیم (فلمی نام) ہو۔‘

ایسا نام جس سے دنیا تمہیں پہچانے گی اور لوگ تمہاری رومانی امیج کو اس سے جوڑ کر دیکھیں گے۔ میرے خیال میں دلیپ کمار ایک اچھا نام ہے۔ جب میں تمہارے نام کے بارے میں سوچ رہی تھی تو یہ نام اچانک میرے ذہن میں آیا۔ تمہیں یہ نام کیسا لگ رہا ہے؟‘

دلیپ کمار

Twitter@NFAIOfficial
1951 میں ریلیز ہونے والی فلم ’دیدار‘ میں دلیپ کمار نے ایک نابینہ شخص کا کردار ادا کیا تھا۔ اس میں ان کے ساتھ اشوک کمار بھی تھے

یہ بھی پڑھیے

’دلیپ کمار چاہتے ہیں حکومتِ پاکستان اور گھر کے مالک مل کر قیمت کا تعین کریں‘

پشاور میں دلیپ کمار کا گھر، ان کی یادیں اور خواہش

جب دلیپ کمار انگریزوں کے لیے سینڈوچ بناتے بناتے جیل پہنچ گئے

نام بدلنے کی کشمکش

دلیپ کمار نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ یہ سن کر ان کی بولتی بند ہو گئی۔ وہ نئی شناخت کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔ پھر بھی انھوں نے دیویکا رانی سے کہا کہ یہ نام تو بہت اچھا ہے لیکن کیا نام بدلنا واقعی ضروری ہے؟

دیویکا رانی نے دلیپ کمار سے مسکراتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنا عقلمندی ہو گی۔ انھوں نے کہا ’میں کافی سوچ سمجھ کر اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ تمہارا سکرین نیم (فلمی نام) ہونا چاہیے۔‘

دلیپ کمار نے یہ بھی لکھا ہے کہ دیویکا رانی نے ان سے کہا کہ وہ فلموں میں ان کا ایک طویل اور کامیاب کریئر تصور کر رہی ہیں۔ ’ایسے میں سکرین کے لیے نام رکھنا اچھا ہو گا اور اس سے سیکولر اپیل بھی ہو گی۔‘

دلیپ کمار

Twitter@NFAIOfficial
فلم دیدار میں دلیپ کمار کے کردار نے انہیں انڈسٹری کا ٹریجڈی کنگ بنا دیا

حالانکہ یہ ہندوستان کی آزادی کے پہلے کا دور تھا۔ اور اس دور میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کسی قسم کی کڑواہٹ نہیں تھی، لیکن چند برسوں کے اندر ہندوستان کی انڈیا اور پاکستان میں تقسیم ہو گئی۔

لیکن دیویکا رانی کو بازار کی اچھی سمجھ تھی۔ انھیں معلوم تھا کہ کسی برینڈ کے لیے لوگوں کے درمیان قبول کیا جانا ہی صحیح ہوتا ہے۔ حالانکہ اس دور میں صرف ایسا نہیں تھا کہ صرف مسلم اداکاروں کو ہی اپنا نام بدل کر کوئی سکرین نیم رکھنا پڑ رہا تھا۔

دلیپ کمار سے پہلے دیویکا رانی اپنے شوہر ہمانشو رائے کے ساتھ مل کر 1936 میں فلم ’اچھوت کنیا‘ کے لیے کمد لال گانگولی کو اشوک کمار کے طور پر لانچ کر چکی تھیں۔

اشوک کمار انڈین سنیما کے پہلے کمار تھے

1943 میں اشوک کمار کی فلم ’قسمت‘ سپر ڈوپر ہٹ ہوئی تھی۔ اس فلم کی کامیابی نے اشوک کمار کو دیکھتے ہی دیکھتے سپر سٹار بنا دیا تھا۔ اشوک کمار انڈین سنیما کے پہلے کمار تھے۔

ایسے میں یہ بھی ممکن ہے کہ ’قسمت‘ فلم کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے یوسف خان کے لیے سکرین نیم جب دیویکا رانی نے سوچا تو سرنیم کے طور پر کمار کا ہی خیال آیا۔

دلیپ کمار

Twitter@NFAIOfficial

حالانکہ اس وقت دلیپ کمار کو یہ بات معلوم نہیں تھی۔ یہ اور بات ہے کہ ان دنوں وہ اشوک کمار کے ساتھ کئی گھنٹے گزارا کرتے تھے اور انھیں اشوک بھیا کہا کرتے تھے۔

وہ دیویکا رانی کی دلائل سن کر راضی تو ہو گئے لیکن انھوں نے مزید غور کرنے کے لیے ان سے وقت مانگا۔ دیویکا رانی نے کہا ’ٹھیک ہے سوچ کر بتاؤ لیکن ذرا جلدی بتانا۔‘

دیویکا رانی کے کیبن سے نکل کر وہ سٹوڈیو میں کام کرنے جا رہے تھے، لیکن ان کے ذہن میں دلیپ کمار نام ہی چل رہا تھا۔ اسی بیش و پیش مین ششیدھر مکھرجی نے ان سے پوچھ لیا کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں۔

یوسف خان نے دیویکا رانی سے ہونے والی گفتگو کے بارے میں انھیں بتایا۔ ایک منٹ ٹھہر کر انھوں نے یوسف سے جو کہا اس کا ذکر انھوں نے اپنی سوانح حیات میں کیا ہے۔

دلیپ کمار

Twitter@NFAIOfficial
ٹریجڈی کنگ کے طور پر مشہور دلیپ کمار نے ’رام اور شیام‘ جیسی کامیڈی فلموں میں بھی کام کیا

انھوں نے کہا ’میرے خیال میں دیویکا ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ انھوں نے جس نام کا مشورہ دیا ہے اس پر راضی ہونا تمہارے فائدے کی بات ہے۔ یہ بہت ہی اچھا نام ہے۔ یہ بات اور ہے کہ میں تمہیں یوسف نام سے ہی جانتا رہوں گا۔‘

ان کے اس مشورے پر یوسف خان نے فلمی نام کے طور پر دلیپ کمار کے نام کو قبول کر لیا اور ان کی پہلی فلم ’جوار بھاٹا‘ کی شوٹنگ شروع ہو گئی۔

’جوار بھاٹا‘ سے آغاز ہوا

سنہ 1944 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کے ساتھ ہی دلیپ کمار نے انڈین فلموں کی تاریخ میں اہم صفحہ رقم کر دیا۔ حالانکہ ان کی پہلی فلم نہیں چل سکی۔

پینگوئن پبلیکیشنز سے شائع ہونے والی کتاب ’ٹاپ 20 سپر سٹارز آف انڈین سنیما‘ کے لیے دلیپ کمار کے بارے میں ایک مضمون لکھنے والے سینیئر صحافی روف احمد نے لکھا ہے کہ جوار بھاٹا کی ریلیز پر اس دور کی مقبول میگزین ’فلم انڈیا‘ کے ایڈیٹر بابوراؤ پٹیل نے لکھا تھا ’فلم میں لگتا ہے کسی کمزور اور بھوکے نظر آنے والے شخص کو ہیرو بنا دیا گیا۔‘

دلیپ کمار

Twitter@NFAIOfficial
1944 میں ریلیز ہونے والی ’جوار بھاٹا‘ دلیپ کمار کی پہلی فلم تھی

لیکن لاہور سے نکلنے والی میگزین ’سِنے ہیرالڈ‘ کے ایڈیٹر بی آر چوپڑا، جو بعد میں بہت بڑے فلمساز بنے، دلیپ کمار کی صلاحیات کا اندازہ لگا چکے تھے۔ انھوں نے اس فلم کے بارے میں لکھا کہ ’دلیپ کمار نے جس طرح اس فلم میں مکالموں کی ادائیگی کی ہے، وہ انھیں دیگر اداکاروں سے جدا کرتی ہے۔‘

پہلی فلم بھلے نا چلی ہو لیکن دیویکا رانی کے اندازوں کے مطابق دلیپ کمار کا ستارا بلندیوں پر پہنچ کر روشن ہوتا رہا اور کمار سر نیم کا ایسا جادو چلا کہ دیکھتے دیکھتے انڈین فلموں میں کمار نام والے اداکاروں کی بھرمار ہو گئی۔

دلیپ کمار

Mughal-e-Azam

دلیپ کمار نے 60 سے زیادہ فلموں میں کام کیا جن میں ’مغل اعظم‘ بھی شامل ہے۔ اس فلم میں انھوں نے شہزاہ سلیم کا تاریخی کردار ادا کیا۔

ویسے فلمی دنیا کی حقیقت یہ رہی ہے کہ متعدد اداکاروں نے سکرین نیم (فلمی نام) تبدیل کر کے بے شمار کامیابی حاصل کی ہے۔ ایسا کرنے والوں میں مسلمان اور ہندو دونوں مذاہب کے فنکار شامل ہیں اور فہرست اصل میں بہت لمبی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’میں آج بھی دلیپ صاحب کی نظر اتارتی ہوں‘

‘مدھوبالا اب بھی لاکھوں دلوں میں بستی ہیں’

مغل اعظم میں پرتھوی راج نے کتنے پیسے لیے تھے؟

جب رشی کپور پشاور سے اپنے گھر کی مٹی ساتھ لے گئے۔۔۔

فلمی نام کی تاریخ

اداکار رشی کپور نے اپنی کتاب ’کھُلم کھُلا‘ میں بتایا ہے کہ ان کے والد راج کپور کا اصل نام سرشٹی ناتھ کپور تھا، حالانکہ بعد میں وہ بدل کر رنبیر راج کپور ہو گیا۔ اور سنیما سکرین پر وہ راج کپور کے طور پر سامنے آئے۔

ان کے علاوہ ان کے چھوٹے بھائی شمی کپور کا اصل نام شمشیر راج کپور تھا اور ششی کپور کا اصل نام بلبیر راج کپور تھا۔ لیکن دنیا انھیں ان کے فلمی نام سے ہی جانتی ہے۔

اس کے علاوہ دیو آنند کا اصل نام دھرم دیو پیشوریمل آنند تھا۔ جبکہ گرو دت کا نام وسنت کمار شیوشنکر پاڈوکون تھا۔

دلیپ کمار

Twitter@aapkadharam

اشوک کمار کے چھوٹے بھائی کشور کمار کا اصل نام آبھاش کمار گانگولی تھا۔ اداکار سنیل دت کا نام بلراج دت، راج کمار کا نام کلبھوشن پنڈت، راجیندر کمار کا نام راجیندر تولی تھا۔

اسی طرح منوج کمار کا نام ہرے کرشن گوسوامی، دھرمیندر کا نام دھرم سنگھ دیول، جیتیندر کا نام روی کپور تھا۔

اداکار سنجیو کمار کا نام، ہریہر جیٹھالال زریوالا اور راجیش کھنہ کا نام جتن کھنا تھا۔ یہ تمام اداکار وہ ہیں جنھوں نے فلمی نام کو اپنایا اور کامیابی حاصل کی۔

ان کے علاوہ بھی متعدد اداکاروں نے اپنے لیے فلمی ناموں کا انتخاب کیا۔ مثال کے طور پر متھن چکرورتی کا اصل نام گورانگو چکرورتی ہے۔ اسی طرح ڈینی کا نام تیشرنگ فستو ڈینزونگپا، نانا پاٹیکر کا نام وشوناتھ پاٹیکر ہے۔

جبکہ سنی دیول کا نام اجے سنگھ دیول، بابی دیول کا نام وشال سنگھ دیول، فلمسٹار اجے دیوگن کا نام وشال دیوگن اور اکشے کمار کا اصل نام راجیو بھاٹیا ہے۔

اداکارہ سری دیوی کا اصل نام اما یینگر ایپن تھا اور جیا پردا کا اصل نام للیتا رانی ہے۔

اس دوران کچھ مسلمان اداکاروں نے بھی اپنے فلمی ناموں کے لیے ہندو ناموں کا انتخاب کیا۔ انڈین سنیما کی دو مشہور اداکاراؤں نے ایسا کیا۔ مینا کماری کا اصل نام ماہجبین بانو تھا جبکہ مدھو بالا کا اصل نام ممتاز جہاں دہلوی تھا۔

دلیپ کمار

Twitter@NFAIOfficial

منفی کرداروں کے لیے مقبول ہونے والے اداکار اجیت کا اصل نام حامد علی خان تھا۔ انھوں نے اسی نام سے بطور ہیرو فلمی کریئر کا آغاز کیا تھا لیکن بعد میں انھوں نے سکرین نیم بدل کر اجیت رکھ لیا۔

مشہور کامیڈین جانی واکر کا نام بدر الدین جمال قاضی تھا جبکہ جگدیپ کا نام سید اشتیاق احمد جعفری تھا۔ رجنی کانت کا اصل نام شیواجی راؤ گائکواڑ ہے۔

یعنی ایسا نہیں ہے کہ صرف مسلمان اداکاروں نے فلمی ناموں کو اپنایا ہو۔ سکرین نیم کا چلن فلمی دنیا میں ہمیشہ سے رہا ہے۔ دلیپ کمار سے پہلے بھی ایسا دیکھنے کو ملا اور بعد میں بھی کئی ستاروں نے ایسا کیا۔ کچھ سٹار بننے کی خواہش اور کچھ ناموں کو سٹائلش بنانے کی چاہت میں ایسا ہوتا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp