مدھوبالا کے شہزادے، راج کپور کے لاڈلے دلیپ کمار کی کہانی


پشاور کے مشہور قصہ خوانی بازار کی مصروف ترین صرافہ گلی میں 11 دسمبر 1922 کی سخت سردیوں کی شام کا منظر ہے کہ جہاں ایک سنار نے آگ جلائی تو ایسی بھڑکی کہ جس نے نہ صرف اس دکان بلکہ گلی میں موجود دیگر دکانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چونکہ باقی دکانیں شام ڈھلے ہی بند ہو گئی تھیں تو یہ آگ زیادہ بے قابو ہو گئی ایسے میں گلی میں موجود تمام گھروں کے مرد بھی آگ بجھانے کے عمل میں مصروف تھے۔ ایسی ہی افراتفری کے عالم میں محمد سرور خان اور عائشہ بی بی کے ہاں چوتھے بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ خون جماتی سردی میں برف جمی ٹینکیوں میں سے بالٹیوں میں جان مار کر پانی بھر کر آگ بجھانے والے اس گھر کے مردوں کے لئے یہ وہ خوشخبری تھی جس نے ان کی تکان دور کردی۔

بلاشبہ اس لڑکے پیدائش نے جہاں اس بازار اور شہر کو ہمیشہ کے لئے امر کر دیا بلکہ بالی ووڈ کے حصہ میں وہ لیجنڈ آیا جس کی اداکاری کے سحر نے ہر نسل کے افراد کو سات دہائیوں سے اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔ یہ کہانی ہے لیجنڈری اداکار دلیپ کمار مرحوم کی جو انہوں نے خود ہی اپنی کتاب ”دلیپ کمار، دی سبسٹینس اینڈ دی شیڈو“ میں بیان کی ہے۔ دلیپ کمار کو ان کی پیدائش کے حوالے سے کہانی ان کے چچا عمر نے سنائی، عمر جو تھے تو ان کے والد کے چچیرے بھائی مگر سگے بھائیوں سے بھی زیادہ پیار تھا۔ پشتون خاندان میں پیدا ہونے والے دلیپ کمار عرف یوسف خان کا بچپن صرافہ بازار کی گلیوں میں کھیلتے کودتے، دادا کے ساتھ گھر کے قریب واقع نہر کنارے بیٹھ کر پانی کو تکتے اور سردیوں کی شاموں میں آگ تاپتے خاندان کے بڑوں کی کہانیاں سنتے گزرا۔

داد ا اور دادی کے لاڈلے یوسف خان گھر میں تو شرارتی سے تھے مگر ویسے شرمیلے اور کم گو تھے۔ اپنی والدہ سے بے پناہ محبت کرنے والے دلیپ کمار بچپن میں اپنی والدہ کے دوپٹے کا پلو پکڑ کر ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہتے تھے، ایک دفعہ یوں ہوا کہ ننھے یوسف خان کو تین لاشوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنا پڑا جس کے بعد وہ گرفتار ہوتے ہوتے بچے، اسے وہ اپنی زندگی کا سب سے خوفناک واقعہ قرار دیتے ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک صبح حسب معمول اپنی والدہ کے پیچھے چپکے چپکے چل رہے تھے تو ان کی دادی نے ان کی والدہ کو رشتے داروں کے ہاں جانے کے ہدایت کی۔

پشاور میں اس وقت کیونکہ گھر ایسے بنائے جاتے تھے کہ ایک گھر سے دوسرے گھر جانے کے لئے راہداری بنی ہوتی تھی۔ چلتے چلتے ان کی والدہ جب ایک کمرے میں داخل ہوئیں تو وہاں خون سے لت پت 3 لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ اب کیونکہ ان کی والدہ کو نہیں معلوم تھا تو یہ چپ سادھے کھڑے یہ منظر دیکھتے رہے، ایسے میں چند گورے افسران دھڑام سے دروازہ کھول کر اندر آئے اور درشتگی کے ساتھ مقامی پولیس اہلکاروں کو ہدایات دینے لگے، اب ایسی افتاد پڑنے اور گورے کو دیکھ کر یوسف خان کو یہ ہوش ہی نہیں رہا کہ ان کی والدہ کمرے سے جا چکی ہیں۔

والدہ کو نہ پا کر وہ جلدی سے چھپ گئے، وہ بتاتے ہیں کہ وہاں گزارے ان کے وہ چند لمحوں نے انہیں اتنا خوفزدہ کیا کہ سو کھلے حلق اور کانپتے ہوئے وہ سوچے جا رہے تھے کہ کسی کو ان کی یہاں موجود ہونے کا علم بھی نہ ہوا تو انہیں ان لاشوں کے ساتھ رات بھی گزارنی پڑ سکتی ہے۔ پھر اچانک سے گورا افسر دوبارہ سے داخل ہوا اندر تو سامنے چھپے یوسف خان کو دیکھ کر اس نے ساتھ موجود مقامی اہلکاروں کو ان کو باہر لے آنا کا حکم دیا، سپائی ڈنڈا ڈولی کر کے جب ان کو کمرے سے باہر لے گئے تو انہوں نے سکون کا سانس لیا اور خدا کی کرنی یہ ہوئی کہ باہر ان کے جاننے والے نے پہچان لیا کہ یہ تو سرور خان کے بیٹے ہیں پولیس کے دریافت کرنے پر انہوں نے اپنے پہنچنے کی کہانی سنائی تو ان کو جانے کی اجازت ملی۔ دلیپ کمار کے والد ممبئی میں کاروبار کے سلسلے میں منتقل ہوئے یوں کچھ عرصہ بعد اپنے بیوی بچے بھی وہاں لے گئے یوں بچپن میں ہی دلیپ کمار ممبئی منتقل ہو گئے۔

یوسف خان کی دلیپ کمار بننے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے جو بڑے اختصار سے بیان کرتا چلوں، اس وقت کے مشہور سٹوڈیو ممبئی ٹاکیز میں فلم کی شوٹنگ کو دیکھنے کے لئے جانے والے وجیہ یوسف خان کو دیوارانی جو اس وقت اپنے کیرئیر کے شباب پر تھیں نے دیکھا تو انہیں اداکاری کی آفر کی، ایک پھل فروش کے بیٹے یوسف خان کا رومانٹک کردار کے لئے چنا گیا تو دیویکا رانی نے انہیں مشورہ دیا کہ یوسف خان نام سے ایک جنگجو پٹھان کی تو شبیہ ذہن میں آئے گی لیکن رومانٹک ہیرو کی نہیں یوں وہاں موجود ہندی کے مشہور شاعر نریندر شرما نے ان کے لئے تین نام تجویز کیے جس میں سے ”یوسف خان“ نے دلیپ کمار نام کو اپنے لئے پسند کیا۔ دلیپ کمار نے تھوڑی فلموں میں کام کیا مگر اپنے کردار کے ساتھ کیا خوب انصاف کیا، وہ اپنے کردار میں ڈوب جاتے تھے، اور یہی ان کی کامیابی اور لازوال شہرت کا راز تھا۔

ان کی بیگم اور اپنے وقتوں کی مہنگی ترین اداکارہ سائرہ بانو نے اپنے شوہر کو شرمیلا، سیدھا سادہ اور درد دل رکھنے والا انسان سے تشبیہ دی، سائرہ بانو کے مطابق دلیپ صاحب کو پڑھنے کا اتنا شوق ہوتا تھا کہ پڑھتے پڑھتے صبح ہوجاتی تھی مگر ان کا جی نہ بھرتا تھا۔ سائرہ بانو کے مطابق کتابیں پڑھتے ہوئے وہ بچے بن جاتے تھے وہ بچہ جو کسی کھیل میں گم ہو کر گرد و پیش کو بھول جاتا ہے۔ دلیپ صاحب کو اپنے فلمی کیرئیر کے عروج پر مدھوبالا سے محبت ہوئی اور دونوں کی جوڑی بھی فلمی کرداروں میں کیا خوب جچی۔ مدھو بالا کے والد اور دلیپ کمار میں چپقلش وجہ ان کی شادی تو نہ ہو سکی مگر مدھوبالا مرتے دم تک ان کو پیار کرتی رہیں، وہ دلیپ کمار کو شہزادہ کہہ کر پکارتی تھیں جب ان کی شادی سائرہ بانو سے ہوئی تو مدھو بالا نے کہا کہ بالآخر ہمارے شہزادے کو ان کی شہزادی مل گئی۔

دلیپ کمار اور راج کپور نہ صرف بچپن کے دوست تھے بلکہ اپنے وقت کے دو عظیم اداکار بھی تھے، راج کپور اپنے یار کو لاڈلا کہہ کر پکارتے تھے۔ شرمیلے دلیپ کمار کو وہ جان کر خواتین میں لے کر جاتے تھے کہ اور چھیڑنے کے لئے کہتے تھے کہ آ جا بھئی لاڈے آج تیرے اندر کا شرمیلا پن نکالتا ہوں۔ ان کی خود نوشت کو مرتب کرنے والے مصنفہ ادای اترا نئیر نے دلیپ صاحب کو تنہائی پسند شرمیلا اور ہمیشہ دوسروں کے بارے میں مثبت سوچ رکھنے والا انسان قرار دیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ جب سائرہ بانو کی طرف سے ان کو بلا کر دلیپ صاحب کی کتاب لکھنے کا بولا تو پہلے پہل انہیں یقین نہیں آیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ سائرہ بانو دلیپ صاحب کو جان کہہ کر پکارتی تھیں اور جو بھی ملنے آئے اس کے جانے کے بعد دلیپ صاحب کی نذر اتارا کرتی تھیں۔ لیجنڈ دلیپ صاحب پر لکھنے بیٹھوں تو شاید الفاظ احاطہ بھی نہ کرسکیں، مجھے سمجھ ہیں نہیں آ رہا کہ کہاں اس مضمون کو ختم کروں، بس انہی کے پسندیدہ اشعار سے اختتام کرنا چاہوں گا

سکون دل کے لئے کچھ تو اہتمام کروں
ذرا نظر جو ملے پھر انھیں سلام کروں
مجھے تو ہوش نہیں آپ مشورہ دیجئے
کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments