مسعود اشعر کی کچھ یادیں


1953 میں تحریک ختم نبوت لاہور میں زوروں پر تھی۔ حالات اس قدر بگڑے کہ شہر میں مارشل لا لگاتے ہی بنی اور ساتھ کرفیو بھی لگ گیا۔ جنرل اعظم خان مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے۔ میں اس زمانے میں میکلوڈ روڈ پر رہتا تھا۔ ایک دن شام کو میں سائیکل پر نسبت روڈ پر واقع لکشمی بلڈنگ کے پاس پہنچا تو فوجی چوکی پر مجھے فوجی افسر نے پکڑلیا۔ اس وقت گولیاں چلنے کی آواز آ رہی تھی۔ فوجی نے درشتی سے کہا کہ ’’کہاں جا رہے ہو؟ معلوم نہیں حالات کیا ہیں؟ اس اثناء میں گولیوں کی بوچھاڑ نے میری طرف رخ کیا، تو اس فوجی افسر نے بڑی تیزی سے میرا سر نیچے دبا دیا، اور وہ گولیاں میرے سر کے اوپر سے گزرگئیں۔ اس صورت حال نے مجھے خاصا خوف زدہ کردیا۔ اس فوجی افسر کا میں شکرگزار ہوں، جس کی وجہ سے میری جان بچ گئی۔

٭ اس برس کا ایک اور واقعہ مجھے ہمیشہ یاد رہا۔ میں ’’زمیندار‘‘ اخبار میں نیوزایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ ظفرعلی خان ان دنوں بستر سے لگے تھے اور اخبار کے معاملات ان کے بیٹے اختر علی خان کے سپرد تھے۔ انہیں خیال سوجھا کہ اخبار کا دوسرا ایڈیشن نکلنا چاہیے۔ میرے ساتھ انہوں نے مشورہ کیا تو میں نے انہیں صاف صاف بتادیا کہ موجودہ اسٹاف کے ساتھ ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ کاتبوں کی کمی کے باعث اخبار پہلے ہی مشکل سے وقت پر تیار ہوتا ہے۔ ایسے میں نئے ایڈیشن کا ڈول ڈالنا اور بھی پریشانی کا باعث بنتا۔ اخترعلی خان کی عجیب عادت تھی کہ وہ سب کو تنخواہ اپنے ہاتھ سے دیتے۔ ان کا رویہ ایسا ہوتا، جیسے وہ کسی پر احسان کررہے ہیں۔

تنحواہ کی ادائیگی کے دن انہوں نے پھر سے نئے ایڈیشن کی بات چھیڑ دی۔ میں نے اپنا موقف دہرایا، تو وہ کہنے لگے، نہیں نہیں، تم بہت باصلاحیت ہو، تم کر لو گے۔ وہ اس طرح کی باتیں کرتے رہے، جن سے میں زچ ہو گیا اور وصول شدہ تنخواہ ان کے سامنے پھینک کر دفتر سے نکل آیا۔ اس کو آپ منہ پر مارنا نہیں کہہ سکتے۔ اس وقت جوانی کا جوش ہوگا، جو میں نے ایسا طرز عمل اختیار کیا۔ آج جب اس واقعے کو ساٹھ برس ہونے کو ہیں، میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے رویے پر افسوس ہوتا ہے۔

٭ ملتان۔1978: کالونی ٹیکسٹائل مل میں مزدوروں نے ہڑتال کررکھی تھی، ایک دن جب وہ احتجاج کر رہے تھے تو پولیس نے گولی چلا دی، جس کے نتیجے میں کئی مزدور ہلاک ہو گئے۔ مارشل لا حکام کے دبائو کی وجہ اخبارات نے اس خبر کو چھاپنے سے گریز کیا، مگر ہم نے ’’امروز ‘‘ میں یہ خبر چھاپ دی، جس پر حکومت ہم سے ناراض ہو گئی۔ ملتان کے کور کمانڈر نے مجھے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے ہاتھوں مجھے کوئی تکلیف پہنچے۔ یہ ایک طرح سے ملفوف دھمکی تھی۔ اس واقعے کے بعد ہارون سعد کو میرے اوپر لگا کر بھیج دیا گیا، جس پر اسٹاف نے ہڑتال کردی۔ نتیجتاً میرا تبادلہ لاہور کر دیا گیا۔ ملتان میں کرائے کے مکان میں رہتا تھا۔ مجھے فوراً لاہور آنا پڑا۔

بچے ملتان میں پڑھ رہے تھے، میرے پیچھے مالک مکان نے بچوں کو تنگ کرنا شروع کردیا۔ یہ سب میرے لیے تکلیف دہ رہا۔ یہ سب ضیاء دور میں ہو رہا تھا، جن سے میرا تعلق اس وقت سے تھا، جب وہ ملتان میں لیفٹیننٹ کرنل تھے۔ 1965ء کی جنگ کے بعد وہ ایک روز کرنل حامد علی کے ساتھ مجھ سے ملنے آئے اور کہنے لگے کہ ہم ’’امروز‘‘ کے پریس سے کچھ چھپوانا چاہتے ہیں، جس کو دیکھنے کی اجازت آپ کو بھی نہیں ہو گی، اور کسی دوسرے کو بھی بھنک نہ پڑے۔ جنگ کے بعد ہم پُرجوش تھے، حب الوطنی کے جذبات عروج پر تھے۔ اس لیے میں نے کہا کہ ہمارا پریس آپ کے لیے حاضر ہے۔

آنے والے برسوں میں وہ ملتان کے کور کمانڈر بنے، تب بھی ان سے خاصا ملنا جلنا رہا۔ خاندانی تعلقات قائم ہو گئے۔ بھٹو کا تختہ الٹنے سے دس دن قبل ان سے میری ملاقات ہوئی۔ احمد فراز نے فوج سے متعلق کوئی نظم لکھ دی، جس پر وزیر دفاع ٹکا خان نے انہیں گرفتار کرادیا۔ کشور ناہید اب فراز کی رہائی کے لیے سرگرم ہوئی، اور مجھے کچھ کرنے کو کہا۔ فراز کی رہائی کے سلسلے میں 6  جون 1977ء کو ضیاء الحق سے میری ملاقات ہوئی۔ میرے ساتھ سوشل ورکر عفت ذکی بھی تھیں، جن کا تعلق ملتان سے تھا اور ضیاء الحق ان سے بھی واقف تھے۔

ضیاء الحق نے ہمیں فراز کی رہائی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ اس وقت پی این اے کی تحریک اپنے عروج پر تھی، میں نے ضیاء الحق سے پوچھا کہ ’آپ کا کیا ارادہ ہے‘ تو کہنے لگے کہ ہم تو چاہتے ہیں کہ حالات نارمل ہوجائیں، اور الیکشن ہوں۔ اس وقت ان کی باتوں سے بالکل اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کن خطوط پر سوچ رہے ہیں۔ 5 جولائی 1977ء کو انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

٭ سرور سکھیرا نے رسالہ ’’دھنک ‘‘ بند کر دیا، تو 1983ء میں پیپلزپارٹی کے سابق راہ نما ناصر رضوی نے اس کا ڈیکلریشن حاصل کرلیا اور مجھ سے کہا کہ تم ’’دھنک‘‘ نکالو۔ میری تھوڑی بہت جو جمع پونجی تھی، وہ میں نے اس رسالے پر لگا دی۔ ’’دھنک‘‘ میرے مزاج سے لگا نہیں کھاتا تھا۔ اس لیے زیادہ دیر میں اسے چلا نہیں سکا اور میرا سارا پیسہ برباد ہوگیا۔ ’’دھنک ‘‘ نکالنے کے فیصلے کو میں صحافتی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تصور کرتا ہوں۔

٭ 1948ء میں رام پور سے میں نے ’’نقوش‘‘ میں اشاعت کے لیے نظم بھجوائی۔ اس زمانے میں احمد ندیم قاسمی اور ہاجرہ مسرور ’’نقوش‘‘ کی ادارت کر رہے تھے۔ چند دن بعد ہاجرہ مسرور کا خط موصول ہوا، جس میں بتایا گیا تھا کہ میری نظم مروجہ معیار پر پوری نہیں اترتی، اس لیے ناقابل اشاعت ہے۔ مجھے اس خط پر بہت غصہ آیا اور میں نے ہاجرہ مسرور کے نام سخت خط لکھ ڈالا۔ اس کے جواب میں قاسمی صاحب نے مجھے خط لکھا اور سرزنش کی کہ کسی خاتون کو ایسے لہجے میں خط لکھنا ہرگز مناسب طرز عمل نہیں۔ اب بات میری سمجھ میں آگئی اور میں نے اپنی رائے سے رجوع کر لیا۔ جوانی میں انسان جذباتی ہوتا ہے، اس لیے اکثر بنا سوچے سمجھے ردعمل ظاہر کر دیتا ہے، تو میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments