دلیپ کمار کی رخصتی


سینما میں بیٹھ کر دلیپ کمار کی کوئی فلم میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ میرے بچپن کے کئی برس مگر اساطیری شہرت کے حامل یہ اداکار بے شمار حوالوں سے روزمرہ زندگی کا حصہ رہے۔ ان کے انتقال کی خبر سنتے ہی یادوں کا انبار ذہن میں امڈ آیا۔

لاہورکے اندرون موچی دروازہ میں موجود چوک نواب صاحب سے اکبری منڈی کی جانب بڑھیں تو درمیان میں ایک کوچہ آتا ہے جو آپ کو پرانی کوتوالی لے جاتا ہے۔ اس کوچے کے آغاز میں نائی کی ایک دکان تھی۔ مشہور تھا کہ وہ معروف گلوکار محمد رفیع کا قریبی رشتے دار ہے۔ وہ رشتے دار تھا یا نہیں اپنے فن میں کامل تھا۔ ہر مہینے کی آخری اتوار والد مرحوم میرے بال کٹوانے وہاں لے جاتے۔ مجھے کرسی پر ایک تختی رکھ کر اس کے اوپر بٹھایا جاتا۔ زلف تراش انتہائی انہماک سے گویا ایک ایک بال ماپتے ہوئے اپنے کام میں مصروف رہتا۔ میرے سامنے جو آئینہ ہوتا اس میں دیوار پر لگائی دلیپ کمار کی تصویر مسلسل نظر آتی رہتی۔ چہرے کا کلوز اپ تھا جس میں وہ مسکرارہے ہیں۔ چمکتے دانت اور ماتھے پر بالوں کی لٹ مجھ سے گفتگو کرتی ہوئی محسوس ہوتی۔ اپنا کام ختم کرنے کے بعد زلف تراش میرے ماتھے پر بھی ویسے ہی لٹ بناتا۔ میرے بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے میری والدہ بھی اس لٹ کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتیں۔ میرے چہرے کو گویا دلیپ کمار جیسا بنانے کی کوشش ہوتی۔

وہ بلیک اینڈ وائٹ تصویر جو حجام کی دکان میں لگی ہوئی تھی اس کی کئی کاپیاں لاہور کے اکثر ریستورانوں اور دودھ دہی کی دکان میں بھی نمایاں ہوتیں۔ انہیں نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ اس تصویر کے علاوہ دلیپ کمار سے منسوب ایک قصہ بھی تھا جو لوک داستانوں کی طرح لاہور کی گلیوں میں اکثر دہرایا جاتا تھا۔ یہ قصہ مصر تھا کہ بھارتی فلم انڈسٹری کا ایک اور مشہور ادکار راج کپور دلیپ کمار کے حسد میں تقریباً دیوانہ ہو گیا تھا۔ ایک فلم میں وہ دونوں ٹینس کھیلتے دکھائے گئے تھے۔ راج کپور نے اپنے لئے ایسا ریکٹ تیار کروایا جس کی لکڑی میں لوہا بھرا تھا۔ اس ریکٹ کو ”غلطی“ سے دلیپ کمار کے سرمیں مارکر اسے قتل کرنے کی کوشش ہوئی۔ وار مگر کارگر ثابت نہ ہوا۔ اس قصے کا بنیادی پیغام اگرچہ دلیپ کمار کی مداح سرائی نہیں تھی۔ وہ درحقیقت ہندو مسلم نفرت کو اجاگر کرنے کے لئے بیان کیا جاتا تھا۔

سکول کے زمانے ہی سے ریڈیو پاکستان لاہور اور وہاں قائم پی ٹی وی کے اولین سینٹر جانا شروع ہو گیا تھا۔ وہاں چھائے کئی فن کاروں پر دلیپ کمار کی ”بھونڈی نقالی“ کا الزام لگایا جاتا تھا۔ لاہور کے لکشمی چوک کے چاے خانوں میں کئی ایسے نوجوان موجود ہوتے جو دلیپ کمار کی کسی بھی فلم کی پوری کہانی ڈرامائی انداز میں سنانے کو بے چین رہتے اور دلیپ کمار کے اداکردہ مکالموں کو ہوبہو دہرانے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔

1970 کی دہائی میں ”دوردرشن“ لاہور میں نظر آنا شروع ہو گیا تو اس کی بدولت دلیپ کمار کی چند فلمیں بھی دیکھ لیں۔ ذاتی طور پر خاص متاثر نہیں ہوا۔ اپنی رائے کے اظہار سے مگر خوف آتا رہا کیونکہ یہ ان کے دیرینہ مداحین کو چراغ پا بنادیتی۔

فلم کے ہنر کو میں نے علمی انداز میں جاننے کی کوشش کی ہے۔ مشہور اداکاروں کی ”انفرادیت“ کا کھوج لگانے کی بھی جستجو رہی۔ اسی باعث ایک بار اکیلے بیٹھ کر وی سی آر کی بدولت دلیپ کمار کی مشہور فلم ”انداز“ دیکھی۔ نرگس اس فلم کی ہیروئن تھی۔ راج کپور اس میں اس کا شوہر تھا۔ دلیپ کمار کو نرگس محض اپنا ”دوست“ شمار کرتی رہی۔ وہ تاہم اس کے عشق میں بری طرح گرفتار ہو چکا تھا۔ فلم کے اعتبار سے پاکستان اور بھارت کے مخصوص ثقافتی ماحول میں یہ ایک اچھوتا موضوع تھا۔ اس میں ”ڈرامے“ کی بے حد گنجائش تھی۔ شدید ترین ڈرامائی تناؤ پر مبنی اس کہانی کو مگر حیران کن طور پر دھیمے انداز میں فلمایا گیا تھا۔ اس فلم کے کسی بھی فریم میں نرگس، راج کپور یا دلیپ کمار ایک لمحے کو بھی ”اوور“ ہوتے نظر نہیں آئے۔

دلیپ کمار کی ”انفرادیت“ کی وجوہات تلاش کرتے ہوئے بالآخر یہ دریافت کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ یوسف خان سے وہ دلیپ کمار ہوئے اور اپنی پہلی فلم ہی سے چھاچھو گئے تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ کئی حوالوں سے برصغیر کے پہلے اداکار تھے جو کیمرے کے روبرو اپنا کردار نبھانے کے جبلی طور پر ماہر تھے۔ موصوف کے نمودار ہونے سے قبل اس خطے کی فلموں پرایسے اداکار چھائے ہوئے تھے جو بنیادی طور پر پارسی تھیٹر سے فلموں میں آئے تھے۔ ان کی آواز پاٹ دار ہوتی۔ مکالموں کی ادائیگی اس طرح کرتے جیسے جلسے میں کھڑے حاضرین کے بہت بڑے مجمع سے خطاب کر رہے ہیں۔ چہرے کے تاثرات پر خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ فلم کے کلوز اپ کے لئے یہ پاٹ دار آواز مگر مصنوعی اور غیر ضروری محسوس ہوتی تھی۔ دلیپ کمار نے کلوز اپ کے تقاضوں کو نجانے کیسے دریافت کر لیا۔ اپنے ہر کردار میں وہ ہمیشہ فطری نظر آئے۔ وہ ”اداکار“ کے بجائے روزمرہ زندگی کا حقیقی اور چلتا پھرتا کردار محسوس ہوتے۔ مکالمے کی ادائیگی کو انہوں نے انتہائی سہل بنا دیا۔ اگرچہ اس ضمن میں ان کی سادگی پرکاری کا بھرپور اظہار تھی جسے بہت محنت اور مشقت سے سنوارا جاتا ہے۔

دلیپ کمار سے منسوب کئی معاشقے بھی ہمارے فوک لورکا حصہ رہے ہیں۔ مدھو بالا کا ذکر اس حوالے سے اکثر سنا۔ اپنی عملی زندگی میں یوسف خان مگر ہمیشہ بہت باوقاررہے۔ معاشقوں کے علاوہ ان کی ذاتی زندگی سے متعلق ایسی باتیں مشہور نہ ہوئیں جو اداکاروں کو آوارہ اور بدچلن ثابت کرتی ہیں۔ اپنے وقار کو موصوف نے مرتے دم تک برقرار رکھا۔

1970 کی دہائی میں کمال متانت سے یہ دریافت کر لیا کہ وہ اب ”ہیرو“ نہیں رہے۔ خلق خدا اب عشق میں ڈوبے مجنوں کے بجائے ایسے کردار کی متلاشی ہے جو ظلم وزیادتی کے خلاف ڈٹ جائے۔ انگریزی زبان والا اینگری ینگ مین۔ سکرین کو اب دلیپ کمار کی متعارف کردہ متانت درکار نہیں تھی۔ وہ گلیوں میں غنڈوں سے لڑتے بھڑتے ”ہیرو“ کی متلاشی ہے۔ دلیپ کمار اپنا وقار برقرار رکھنے کے لئے فلمی دنیا سے لہٰذا ”باجو کی گلی“ سے باہر چلے گئے۔ اب دنیا سے آخری سفر پر رخصت ہو گئے ہیں۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments