افغانستان: ہماری پالیسی کیا ہے؟


افغانستان میں سویت افواج باقاعدہ طور پر 24 دسمبر 1979 میں داخل ہوئیں، اس کے بعد دو سال تک افغان مجاہدین اور قوم پرست رہنما قابض فوج کے خلاف اپنی لڑائی تنہا اور بے سرو سامانی کے عالم میں لڑتے رہے اور ان کے زیر استعمال اسلحہ بھی وہی رہا جو مال غنیمت کے طور پر ملتا تھا۔ اس دوران پاکستان کی مدد صرف اخلاقی حد تک محدود رہی۔ جب مجاہدین کی مزاحمت نے اپنا آپ منوا لیا اور اس وقت کے عالمی تقاضوں کے تحت دنیا کو افغان مزاحمت کے پیچھے چھپ کر کمیونزم کے سدباب کا رستہ نظر آیا اور عالمی سطح پر اس مزاحمت کی سرپرستی کا فیصلہ ہوا تو ہم نے بھی اپنی مجبوریوں اور مفادات کے تحت کھل کر اس جنگ میں کودنے کا فیصلہ کر لیا۔

اس کے بعد ہی غیر ملکی مجاہدین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا، ڈالرز اور غیر ملکی امداد کی ریل پیل ہوئی تو ہم نے مجاہدین کی ٹریننگ کے لیے کیمپ بھی کھول لیے۔ ہمارے قبائلی علاقوں میں دنیا بھر سے آئے لوگوں کو بلا روک ٹوک رسائی مل گئی۔ بالآخر 15 فروری 1989 کو سوویت یونین نے شکست تسلیم کرتے ہوئے افغانستان سے اپنی افواج نکالنے کا اعلان کر دیا۔

افغانستان سے سوویت افواج کے انخلا کے بعد دنیا کا مفاد جیسے ہی پورا ہوا اپنا دامن جھاڑ کر وہ یہاں سے نکل گئی اور افغانستان سے اس نے نظریں ہی پھیر لیں۔ ہم نے مگر نئے حالات کے مطابق اپنی سوچ بدلی نہ اپنے طرز عمل کے دور رس اثرات کو سوچا لہذا ہمارے المیوں کا باب ختم ہونے کے بجائے دراز ہوتا چلا گیا۔ سوویت افواج کے انخلا کے بعد افغان دھڑے اقتدار اور قوت کے حصول کی خاطر باہم دست و گریباں ہو گئے۔ ہم پڑوس کی اس آگ سے دامن بچانے کی تدبیر کرنے کے بجائے اسٹریٹیجک ڈیپتھ کے نام پر کبھی ایک پلڑے میں اپنا وزن ڈالتے رہے کبھی دوسرے میں۔

نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری گلیاں و بازار بارود سے بھر گئے۔ ہمارے ہاں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر پروان چڑھا اس عرصے میں ہماری دو نسلیں پرائی آگ کی نذر ہو کر تباہ ہوئیں۔ جن اسٹریٹیجک فوائد کے لیے یہ سب کیا وہ حاصل ہونے کے بجائے الٹا چالیس سال افغانوں کی میزبانی کرنے کے باوجود بدلے میں ہمیں نفرت ملی اور اسی نفرت کی وجہ سے آج تک بدامنی اور دہشتگردی کا عذاب بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا اس کے بعد پرائی جنگ میں کودنے سے ہم توبہ کر لیتے لیکن اس کے بعد ایک بار پھر ہم امریکا کے ساتھ افغان جنگ میں شریک ہو گئے۔

اب خود تو افغانستان سے امریکا کی افواج پسپا ہو رہی ہے۔ گزشتہ دنوں رات کے اندھیرے میں امریکا نے بگرام ائر بیس خاموشی سے خالی کر دیا۔ دس ہزار سے زائد فوجیوں کی گنجائش والے اس ائر بیس کی تاریخی اہمیت تھی اور اس اڈے پر امریکی فورسز نے عقوبت خانہ بھی قائم کیا ہوا تھا اور افغانستان کے طول و عرض میں بیشتر فضائی آپریشن یہیں سے آپریٹ کیے جاتے تھے۔ جس وقت امریکی افواج یہ ائر بیس خالی کر کے جا رہی تھیں اسی وقت یہ اطلاعات آ رہی تھیں کہ طالبان نے امریکا کی چھوڑی ہوئی سات سو کے قریب فوجی گاڑیاں قبضے میں لے لی ہیں۔

امریکا نے کثیر سرمایہ خرچ کر کے جو افغان فوج کھڑی کی وہ تیزی سے طالبان کے سامنے نہ صرف ہتھیار ڈال رہی ہیں بلکہ بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز کے اہلکار طالبان سے ملنا شروع ہو چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں افغان صدر اشرف غنی امریکا کا دورہ کیا، اس وقت یہ دورہ لازما کچھ یقین دہانیاں حاصل کرنے لیے ہوگا لیکن امریکی صدر جو بائیڈن اور امریکی انتظامیہ نے اشرف غنی کو ان کی حکومت کے تحفظ کے بارے کوئی خاص یقین دہانی نہیں کرائی لہذا صاف نظر آ رہا ہے کہ امریکی انخلا کے بعد بد ترین خانہ جنگی ہوگی۔

سوچنے کی بات ہے کہ چالیس سال تک اپنا آپ جلا کر ہمیں کیا ملا؟ آج افغانوں کے دل میں بھی ہمارے لیے نفرت ہے اور عالمی برادری کی نظر میں بھی ہم مشکوک ہیں۔ کیا سوویت افواج کے انخلا کے بعد کے حالات کی مثال سامنے رکھتے ہوئے سوچا تھا کہ امریکی افواج جب افغانستان سے نکلیں گی تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ ہمارے لیے تو حالات وہی ہیں جو نوے کی دہائی میں تھے فرق صرف یہ ہے کہ پہلے ہم نے امریکا کے کہنے پر سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑ کر اپنا آپ آگ میں جھونکا اور اب امریکا کا حلیف بن کر۔

اب اگر افغانستان میں نوے کی دہائی کی طرح نسلی اور فرقہ وارانہ خانہ جنگی بڑھی تو ایک مرتبہ پھر سب سے زیادہ اثرات ہمارے ملک پر پڑیں گے۔ افغانستان میں قتل و غارت گری اور خانہ جنگی پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے اس لیے بھی تباہ کن ہے کیونکہ اس صورت ہمارے ہاں مہاجرین کا سیلاب امڈ آئے گا۔ ہماری معیشت پہلے ہی تباہی کے کنارے پر ہے۔ افغان خانہ جنگی کے باعث امن وامان کی صورتحال بگڑی اور ماضی کی طرح وہاں سے مہاجرین کے سیلاب کی آمد ہوئی تو معاشی طور پر ملک بالکل مفلوج اور دیوالیہ ہو جائے گا۔

شکر خدا کا ادا کرنا چاہیے کہ ہماری سوچ میں حالیہ عرصے میں کچھ تبدیلی آئی ہے اور ہم کہنے لگے ہیں کہ ہمارا افغانستان میں کوئی فیوریٹ نہیں۔ لیکن صرف یہ کہہ دینا مسئلے کا حل نہیں، یہ کہہ کر ہم پڑوس میں بھڑکتی آگ کی تپش سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ ہمیں اپنے دوست ممالک جیسے ترکی، سعودی عرب وغیرہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں ایسی حکومت کی کوشش کرنی چاہیے جو وسیع البنیاد ہو۔ جس میں طالبان کے ساتھ ساتھ شمالی اتحاد اور دیگر تمام اسٹیک ہولڈرز کی نمائندگی بھی شامل ہو۔

یہ سچ ہے کہ طالبان افغانستان کی سب سے بڑی قوت ہیں اور اقتدار پر سب سے زیادہ ان کا حق ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ اکیلے پورے افغانستان پر وہ حکومت نہیں کر سکتے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ افغانستان کے تبدیل ہوتے ہوئے منظر نامے میں روس، چین، ترکی، ایران اور دیگر عالمی طاقتوں کو ساتھ ملا کر کسی پر امن سیاسی بندوبست کی کوشش کرتے رہیں۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ طالبان کی سوچ میں بھی اس بار مثبت تبدیلی آئی ہے اور وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کے خواہاں ہیں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان اگلے ماہ تک افغان حکومت کو تحریری امن منصوبہ پیش کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس بات میں شک نہیں کہ طالبان کو جنگ میں سبقت حاصل ہے اور فاتح پوزیشن میں ہونے کے باوجود وہ امن کی خاطر بات چیت کے خواہاں ہیں تو یہ ان کا بڑا پن ہے۔ تاہم کسی پر امن سمجھوتے کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں خلوص اور سنجیدگی سے بھرپور کوشش کرنا پڑے گی اور اس کے لیے دیگر افغان قوتوں کو بھی لچک پر مائل کرنا ہوگا اور یہ کام دیگر علاقائی قوتوں کو آن بورڈ لیے بغیر نہیں ہو سکتا۔

لیکن یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ دیگر تمام علاقائی قوتوں سے زیادہ افغانستان میں امن ہمارے لیے ضروری ہے۔ ماضی میں پاکستان کے ریاستی ادارے افغان طالبان پر اپنا اثر و رسوخ رکھتے تھے لیکن ہم نے امریکا کی محبت میں طالبان کے ساتھ جو کیا اس کی وجہ سے اب وہ پہلے جیسی بات نہیں رہی لہذا طالبان صرف ہمارے کہنے سننے میں نہیں آئیں گے انہیں کسی سمجھوتے پر راضی کرنے کے لیے بھی دیگر علاقائی قوتوں کی مدد لینا ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments