کیا طالبان کابل پر قبضہ کر لیں گے؟


فروری 1989 میں آخری روسی سپاہی ’حیرتان پل‘ کے راستے آمو دریا کے پار اتر گیا۔ اس وقت پشتون ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کو کمزور جانا جا رہا تھا۔ 1988 میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والے جنیوا معاہدہ میں سوویت یونین اور امریکہ ضامن تھے۔ امریکہ نے دسمبر 1985 میں وعدہ کیا تھا کہ وہ مجاہدین کو اسلحہ فراہم نہیں کرے گا۔ اس وعدے کی صریحاً خلاف ورزی کے باوجود گوربا چوف نے افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لیں۔

جنیوا معاہدہ میں افغان مجاہدین شامل نہیں تھے۔ انہوں نے نجیب حکومت پر حملے جاری رکھے۔ پاکستان کی حکومت ان کو مدد فراہم کر رہی تھی۔ اپریل 88 میں ہونے والے سانحہ اوجڑی کیمپ کے بعد جنرل ضیا الحق نے قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے کہا تھا ”ہم بڑا کام کر رہے تھے اور اس کی سزا ہمیں ملنا تھی۔“ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ضیا الحق اس سانحہ میں عوامی نقصان کی بجائے اسلحہ کی تباہی کی وجہ سے زیادہ پریشان تھا اور وقوعہ کے فوراً بعد امریکہ سے رابطہ میں روسی فوجوں کی روانگی مکمل ہونے سے پہلے اس کمی کو پورا کرنے کا کہتا رہا۔ یہ اسلحہ افغانستان کے لیے ہی جمع کیا جا رہا تھا۔

مجاہدین نے امریکی، چینی، برطانوی اور دیگر علاقائی قوتوں کی مدد سے سوویت یونین کو افغانستان میں قدم نہ جمانے دیے تھے۔ انخلا کے بعد سوویت یونین نے بھی نجیب حکومت کی فوجی امداد جاری رکھی۔ جس کی وجہ سے امریکی اسلحہ اور امداد کے باوجود روس کو شکست دینے کے دعویدار مجاہدین جن کو ملک کے تمام طبقات کی حمایت حاصل تھی، اس ’کمزور‘ حکومت کو گرانے میں ناکام رہے۔ اگست 91 میں سویت یونین کے انہدام کے بعد جب فوجی امداد مکمل طور پر بند ہوئی تو نجیب حکومت مزید کمزور ہو گئی۔ 92 میں کابل پر حملہ آور گلبدین حکمت یار اور عبدالرشید دوستم کو پاکستان کی فوجی امداد اور امریکی اشیر باد حاصل تھی۔ نجیب اللہ نے کابل میں اقوام متحدہ کے احاطے میں پناہ لے لی۔ اس کے بعد بھی صدر برہان الدین ربانی کی حکومت میں ڈاکٹر نجیب کا کچھ نہ کچھ عمل دخل برقرار رہا۔

اگلے چار سال تک افغان مجاہدین کے مختلف گروپ کابل میں حکمران رہے لیکن ملک مسلسل خانہ جنگی سے تباہ و برباد ہوتا گیا۔

1996 میں پاکستانی مدارس میں علم حاصل کرنے والے افغان طالبان نے قندھار کے اردگرد جمع ہو کر ملک میں فوجی پیشقدمی شروع کر دی۔ دنیا کے تمام فوجی مبصر اس بات پر مصر ہیں کہ امریکی مدد کے ساتھ ساتھ پاکستانی فوجی بھی ان کے شانہ بشانہ چل رہے تھے۔ آزاد تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ ان طالبان کو ٹینکوں اور جہازوں کی مدد بھی حاصل تھی۔

اس طرح اٹھارہ سالہ خانہ جنگی کے بعد انتہائی کمزور اور غیر مقبول کابل حکومت کو طالبان (؟) گرانے میں کامیاب ہوئے۔ وہ طالبان جن کے بارے میں امریکی نمائندہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پر زور تعریفی کلمات ادا کر رہا تھا۔

آج کابل میں ایک باقاعدہ حکومت موجود ہے جو کہ پچھلے بیس سال سے مسلسل کام کر رہی ہے۔ اس کو علاقے کی تمام طاقتور حکومتوں کی حمایت حاصل ہے۔ افغانستان کی پشتون آبادی کا ایک معقول حصہ اور ہزارہ، ازبک تاجک کے علاوہ دوسرے قبائل کی اکثریت اس کے ساتھ ہے۔ طالبان فورس سنی پشتونوں کی اکثریت پر مشتمل ہے۔ طالبان اسی اور نوے کی دہائی کے مجاہدین کی طرح فتح کے نشے میں چور ہیں۔ ان کی طرح کسی کی بات سننے کو تیار نہیں۔ کابل کی طرف پیش قدمی بھی تقریباً اسی رفتار سے کر رہے ہیں۔

اس بار ان کو پاکستان کی کس حد تک حمایت حاصل ہے؟ یہ ملین ڈالر سوال ہے۔ کیا پاکستان اب بھی ان کی نوے کی دہائی کی طرح مدد کرے گا؟ ایک بات پکی ہے کہ ان نظریات اور سیاسی مقاصد کے ساتھ وہ چین، روس، ایران اور باقی دنیا کو قابل قبول نہیں۔ امریکہ بھی نہیں چاہے گا کہ اس کی چالیس سالہ محنت رائیگاں جائے۔ دسمبر 2001 میں کابل میں حکومت کے قیام کے بعد سے وہ دفاعی پوزیشن میں تھا اور طالبان اس پر حملہ آور۔ اب وہ باہر بیٹھ کر کھیل کھیلے گا۔ افغانستان اور پاکستان اس کھیل کا میدان بنیں گے۔

یہ بھی یاد رہے کہ ایک چھوٹی اور متحرک گوریلا فورس کسی بڑی روایتی فوج کو پریشان تو کر سکتی ہے، جنگ جیت نہیں سکتی۔ بلکہ ایک انتہائی طاقتور مضبوط ملک بھی کسی دوسرے ملک میں اس طریقے سے حکومت پر قبضہ نہیں کر سکتا۔ حکومت حاصل کرنے کے لیے اسے فوج ہی لانا پڑتی ہے۔ شام میں بشارالاسد کی حکومت کو علاقائی طاقتیں اور اتحادی بمباری داعش و دیگر جنگجو قبائل کی مدد سے بھی نہ گرا سکیں۔ عراق میں صدام کی حکومت گرانے کے لیے امریکہ کو میدان میں خود اترنا پڑا۔ شدید عوامی مخالفت کے باوجود مشرقی پاکستان میں فوج مارچ 71 کے بعد گوریلا فورس مکتی باہنی کو انتہائی کمزور کر چکی تھی۔ بالآخر انڈیا کو فوجی کارروائی ہی کرنا پڑی۔

طالبان کا ان حالات میں کابل پر قبضہ بہت مشکل ہے۔ ہاں اگر وہ علاقائی ممالک ایران، پاکستان، چین اور روس کو مذاکرات کے بعد مطمئن کر لیں تو شاید امریکہ بھی راضی ہو جائے اور پرامن افغانستان کی بنیاد رکھی جاسکے ورنہ ایک اور جنگ ہماری سرحد پر دستک دے رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments