افسر کے ادب کے سامنے اردو ادب کیا بیچتا ہے؟


ادب اور افسر کا رشتہ بہت پرانا ہے۔ پرانے زمانے میں ادب کی محبت میں لوگ شاعری اور نثر کے خارزار میں نکل جاتے تھے۔ آج کا انسان اس اعتبار سے زیادہ مشکل میں ہے کہ اگر وہ ادب سے لگاؤ رکھتا ہے تو اسے سب سے مشکل راستے کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ اس راستے کو انگریزی میں سول سروس کہتے ہیں۔ جب سے افسر ہے تب سے ادب ہے۔ یہ رشتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوا ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ افسر ہر چیز پر سمجھوتہ کر لیتے ہیں ادب پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ جو آدمی افسر کا ادب نہ کرے اس سے تو سمجھوتہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اردو ادب سے وابستہ افراد سے بھی افسروں کو محبت ہوتی ہے مگر اپنا ادب کرنے والے لوگوں سے افسروں کو محبت ذرا زیادہ ہوتی ہے۔

ادب سے میرا رشتہ پہلے بھی تھا مگر اس رشتے میں با قاعدہ نکھار اس وقت آیا جب میں اسسٹنٹ کمشنر بن گیا۔ اسسٹنٹ کمشنر بننے سے پہلے تو پھر بھی کبھی کوئی بے ادبی برداشت کر لیتا تھا مگر اسسٹنٹ کمشنر بننے کے بعد میں نے ادب پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ بے ادب لوگوں کو پرکھنے میں جو مہارت مجھے سول سروس میں آنے کے بعد حاصل ہوئی ہے وہ شاید ساری دنیا کا ادب پڑھ کر بھی ممکن نہیں تھی۔ افسر اردو ادب اور اپنے ذاتی ادب کے بارے میں کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے۔

اردو ادب سے چند افسران کو خصوصی شغف رہا ہے مگر ادب سے ہر افسر کو ہی شغف ہوتا ہے۔ کئی لوگ تو افسر بنتے ہی ادب کے چکر میں ہیں۔ ادب کے ساتھ ہمارے بعض افسران کا رشتہ اتنا مضبوط ہے کہ میں نے آج تک انھیں کسی بے ادب آدمی کو برداشت کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اچھے افسر تو کسی بے ادب آدمی کو ایک لحظہ برداشت نہیں کرتے۔ ہمارے اکثر دفاتر کا عملہ اتنا باذوق ہو چکا ہے کہ کسی بے ادب آدمی کو افسر کے پاس پھٹکنے تک نہیں دیتا۔

ایک دفعہ ایک اعلیٰ افسر نے اپنا ایک شعر مجھے سنایا اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اسی خیال کا غالب کا بھی ایک شعر ہے، مگر میر اشعر اس سے کہیں بہتر ہے۔ میں نے انہیں کہا جی جناب بجا فرما رہے ہیں۔ میں آپ کی رائے سے صد فی صد متفق ہوں کیونکہ میری پوسٹنگ یہاں ہے۔

ایک دن ایک سینئر افسر نے مجھے اپنی ایک طویل غزل سنائی اور کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے فرمانے لگے کہ اس کے بعض مصرعے شاید وزن سے گر گئے ہیں۔ میں نے کہا کہ سر آپ اس بحث کو چھوڑیں آپ جس پوسٹ پر ہیں اس پوسٹ کا اپنا ایک وزن ہے اور آپ کا ہر لفظ کسی بھی شا عر کے دیوان سے بھاری ہے۔ جب تک آپ اس پوسٹ پر ہیں آپ کی ہر بات میں وزن ہے، آپ کے ہر لفظ میں وزن ہے، آپ کے ہر مصرعے میں وزن ہے اور آپ کے سامنے ہر کوئی بے وزن ہے۔ میں نے انہیں گزارش کی کہ مصرعے کے وزن سے زیادہ افسر کی سیٹ کا وزن اہم ہوتا ہے اور جب تک آپ اس سیٹ پہ ہیں کوئی بھی نقاد آپ کے مصرعے کے وزن پر کوئی بات نہیں کر سکتا۔

ہمارے ایک سیئنیر افسر ایک دن مجھے کہنے لگے کہ فیض صاحب سے بھی بڑے لوگوں نے فیض پایا ہو گا۔ مگر اس ناچیز سے تو ہر کس و ناکس نے فیض پایا ہے۔ جس جس علاقے میں پوسٹنگ رہی میرا فیض اس پورے علاقے پہ محیط رہا اور اب اس ملک میں کتنے لوگ ہیں جو فیض صاحب کو سمجھنے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ مگر میرے جاننے والے اور ماننے والے بے شمار ہیں۔

ہمارے ہاں چونکہ تعلیمی ادارے شروع سے ہی کم رہے ہیں اور اچھے کالجز اور یونیورسٹیوں کا کال رہا ہے اس لیے لوگوں کو ادب سکھانے کا کام بھی دفاتر میں سرانجام دیا جاتا رہا ہے اور آج کل چونکہ آبادی بھی بہت بڑھ گئی ہے اور تعلیمی ادارے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں اس لیے مختلف افسر رضا کارانہ طور پر لوگوں کو ادب سکھا رہے ہیں۔ بعض افسروں کو ان کی ادبی خدمات نے لافانی بنا دیا ہے تو باقیوں کو انسداد بے ادبی کے لیے ان کی خدمات نے۔

تیسری دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص لوگوں کو ادب سکھانے میں سرکاری ملازمین کا کردار اردو، عربی اور فارسی کے اساتذہ سے بہت زیادہ رہا ہے ادب کے پھیلاؤ میں بھی انہی ملازمین کا کردار سب سے زیادہ ہے یہ لوگ نہ صرف عوام کو اپنا ادب کرنے کی تمیز سکھاتے ہیں بلکہ اور بھی جو لوگ صاحب نصاب ہیں، ان کے ادب آداب کے مختلف مراحل بھی باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس معاملے میں ماتحت بعض اوقات افسروں سے زیادہ جذبے کے ساتھ کام کرتے ہیں بعض افسر مصروف ہوتے ہیں اور وہ عوام کو زیادہ وقت ادب سکھانے کے لیے نہیں دے سکتے تو دفاتر کے نائب قاصد سے لے کے سپریٹنڈنٹ تک پوری تندہی سے لوگوں کو ادب سکھانے میں مصروف رہتے ہیں اور اس لگن میں باقی سب کچھ فراموش کر دیتے ہیں۔

کئی جگہ پر تو ماتحت تعلیم دینے میں اپنے صاحب سے زیادہ مہارت حاصل کر چکے ہیں اور اب اپنی جگہ ایک ادارے کی حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔ بعض دفاتر کا تو ادب سے قلبی تعلق اس عالم کو پہنچ گیا ہے اور ادب کے لیے ان کے جنون نے ان کا یہ حال کر دیا ہے کہ بھلے آپ وہاں کسی کام سے جائیں کسی معمولی حاجت کو لے کر جائیں مگر وہ جب تک آپ کو اچھی طرح ادب نہیں سکھا لیتے آپ کو باقی دنیا داری کی طرف دھیان نہیں کرنے دیتے۔ دنیا کی نامور یونیورسٹیوں کے نامور پروفیسر بھی آپ کو ادب کے وہ نازک مقامات نہیں سکھا سکتے جو بعض اوقات ہمارے کسی عام سے محکمے میں کسی عام سے افسر کے دروازے پر بیٹھا بظاہر ان پڑھ نظر آنے والا نائب قاصد آپ کو سکھا دیتا ہے۔

سرکاری محکموں کا ادب کے ساتھ یہ لگاؤ دیکھتے ہوئے نجی محکموں نے بھی اب لوگوں کو ادب سکھانا شروع کر دیا ہے۔

سوشل میڈیا آنے کے بعد ہمارے معاشرے میں اتنی تبدیلی ضرور آئی ہے کہ اب عوام بھی ادب سیکھنے سے ہٹ کر ادب سکھانے پہ لگ گئے ہیں۔

بعض اوقات تو یوں لگتا ہے کہ پورا معاشرہ ہی چند تجارتی مقاصد کے تحت ادب سیکھنے اور سکھانے میں لگ گیا ہے۔ اور ادب کرنے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے۔

پرانے زمانے میں کچھ لوگ شعر کہتے تھے اور باقی سہتے تھے۔ یوں ادب کا بول بالا اور بے ادبوں کا منہ کالا ہو جاتا تھا۔ تب ادب سے متعلقہ لوگوں کو اچھا مشاعرہ مشکل سے ملتا تھا آج کل ادب سے متعلقہ لوگوں کو اچھا مشاہرہ مشکل سے ملتا ہے۔

گئے وقتوں میں استاد اور بزرگوں کا ادب سکھایا جاتا تھا۔ اب ادب سے ہمارا لگاؤ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ہم اس اساتذہ اور بزرگوں کو بھی ادب سکھانے لگ گئے ہیں۔

اس بات پر ریسرچ کی جانی چاہیے کہ دنیا میں ادب بازاری طریقے سے لکھا زیادہ گیا ہے یا بازاری طریقے سے کیا زیادہ گیا ہے؟ بازاری لوگوں کا زیادہ ادب کیا گیا ہے یا بازاری لوگوں کے لیے زیادہ ادب لکھا گیا ہے ؟

دنیا اس امید پر قائم ہے کہ جو لوگ ایک مدت سے ادب سکھا رہے ہیں، کل شاید وہ خود بھی سیکھ جائیں۔

(کالم نگار نشتر میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کا حصہ ہیں اور آج کل منیجنگ ڈائریکٹر چولستان ترقیاتی ادارہ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments