دلیپ کمار , سائرہ بانو اور ہمارے لکھاری



گزشتہ دنوں برصغیر پاک و ہند کے ایک عظیم فنکار جناب ”دلیپ کمار“ صاحب کا انتقال ہوا، فضا سوگوار رہی، کیونکہ وہ اپنی اعلی و خوبصورت شخصیت کی وجہ سے پوری دنیا میں بلا تخصیص مذہب و عقیدہ و قومیت چاہے گئے، اداکاری کی مہارت میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا، اسی لیے ان کے نام پر اداکاری کی دنیا میں بہت سے محاورے بھی بنے، مثلاً اگر کسی ایک اداکار پر کسی دوسرے اداکار کی جانب سے فن سے متعلقہ تنقید ہو تو ناقد کو اکثر ایک طعنے کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ”تم بڑے دلیپ کمار ہو“ جو مجھ پر تنقید کرتے ہو، کوئی بہت اچھا لگ رہا ہے تو کمپلیمنٹ میں کہا جاتا ہے آج تو ”دلیپ کمار“ ہی لگ رہے ہو، ماں اور بیٹے کا رشتہ بیان کرتے ہوئے بھی اکثر لکھنے والے کہتے ہیں ہر ماں کے لئے اس کا بیٹا جیسا بھی ہو ”دلیپ کمار“ ہی ہوتا ہے وغیرہ۔

انہوں نے ایک بھرپور کامیاب لمبی زندگی گزاری، سائرہ بانو سے ان کی شادی اور لمبے عرصے تک ایک بہترین ازدواجی تعلق کسی اعلی مثال سے کم نہیں،

لیکن ان چند دنوں میں سوشل میڈیا پر جہاں دونوں کے اس تعلق کو بہت گلوریفائی کیا گیا (جو کہ بالکل درست ہے ) وہیں پر کچھ لکھنے والوں اور عام لوگوں نے اسے عورت کی عظمت، یک طرفہ محبت، عورت ”قربانی کا پیکر“ ، اور نا جانے کیا کیا رنگ دینے کی کوشش کی، (زیادہ تر ایک بھیڑ چال تھی) ، بہت سے لکھنے والوں نے بڑھ چڑھ کر کہا کہ اب ایسی مثالیں کہاں؟

فیمنزم کا نعرہ لگانے والوں کو تو مردوں کو رگڑا لگانے کا موقع بھی مل گیا، حالانکہ اس کہانی میں دوسری طرف ” دلیپ کمار“ تھا۔ ایک لیجنڈ، بیش بہا عورتوں کے دلوں کی دھڑکن اور بہت سے مردوں کا آئیڈیل۔

پاکستانی معاشرے میں ہم لاکھ خامیاں تلاش کریں لیکن میاں اور بیوی کے رشتے کو لے کر یہ معاشرہ دونوں اطراف سے محبتوں اور قربانیوں سے عبارت ہے، آج بھی دنیا کے دوسرے معاشروں کی نسبت پاکستانی معاشرہ اس معاملے میں ان سے کہیں بہتر ہے۔

بری اور خوفناک مثالیں بھی موجود ہیں لیکن اگر تناسب نکالا جائے تو مثبت مثالوں کا پلڑا بھاری ہے۔

اپنے شہر کے سرکاری ہسپتال میں ایک دوست کی وجہ سے اکثر جانا رہتا تھا جو وہاں کام کرتا تھا، میں نے ایسی سینکڑوں مثالیں دیکھیں جس میں مرد برسوں اپنی بیوی کے علاج کے لیے مارا مارا پھرتا ہے، مردوں کو گھڑی، سائیکل، موٹر سائیکل اور چھوٹا موٹا پلاٹ تک بیچ کر بیوی کے لیے دوائیاں اور ٹیسٹوں کی فیس جمع کرتے دیکھا، برسوں بیوی کو گود میں اٹھا کر باتھ روم لے جانا اور راتوں کو کروٹیں بدلوانا، نہ نوکر نہ پیسہ نہ شہرت، نا ایک طرف دلیپ کمار نہ دوسری طرف سائرہ بانو، صرف میاں اور بیوی کی محبت کا ایک اٹوٹ رشتہ، نا دنیا کی پرواہ اور نہ ہی کسی کی داد کی طلب۔

ایسی ہی بے مثال بیویوں کو بھی دیکھا جو اپنے بیمار شوہروں کی مکمل انتھک دیکھ بھال کے ساتھ محدود ذرائع میں گھر کے باقی معاملات کو بھی مکمل ذمہ داری سے نبھاتی رہیں۔

اسی طرح کی ایک اور عظیم مثال حال ہی میں مشاہدے سے گزری،

ہمارے ایک جاننے والے سرکاری افسر جو بڑے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، پچھلے دنوں اس دنیا سے رخصت ہو گئے، انتہائی نیک اور اچھے انسان تھے، لیکن گزشتہ تیس سالوں سے ایک بڑے امتحان سے گزر رہے تھے، ان کی اہلیہ گزشتہ تیس سال سے ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج ہو کر بستر سے لگ گئیں، پوری طرح سے ہوش و حواس میں لیکن نا ہل سکتی تھیں اور نہ ہی بول سکتی تھیں، وہ چاہتے تو دوسری شادی کر سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنی بیوی کو تیس سال انتہائی احسن طریقے سے سنبھالا، بچوں کی تمام ذمہ داریاں اکیلے پوری کیں، ریٹائرمنٹ کے بعد سارا وقت بستر سے لگی بیوی کو دیا،

ایک صبح ناشتے کے بعد جب کافی دیر تک کمرے سے باہر نہ آئے تو ان کی بہو نے کمرے میں جاکر دیکھا تو ایک درد ناک منظر تھا، والدہ کے بیڈ کے پاس لگی آرام کرسی پر وہ اللہ کو پیارے ہو چکے تھے اور والدہ کی آنکھوں میں آنسو تھے، یعنی اپنے محبوب شوہر کو دل کا دورہ پڑنے سے لے کر ان کی آخری سانسوں تک کا منظر اس لاچار بیوی نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور وہ کسی کو مدد کے لئے بھی نہ پکار سکی۔

تیس سال سے چلنے والا ان کا امتحان اپنی جگہ لیکن اس عورت پر کیا گزری ہوگی، یہ تو شاید اس سے بھی بڑا امتحان ہے۔

کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہمارے لکھنے والوں کو اپنے معاشرے میں اردگرد نظر دوڑانے کی ضرورت ہے، جن چیزوں اور رشتوں کا ”کمپیریزن“ نہیں بنتا، اس سے گریز ہی بنتا ہے،

بطور پروڈیوسر میرا بہت سے لکھنے والوں سے واسطہ رہا، بہت سے نئے اور پرانے لکھاریوں کے ڈرامے اور ڈاکیومنٹری اسکرپٹس پڑھنے کا موقع ملا، میرے اپنے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ جو لکھاری مشہور اور متمول ہوتا گیا اس کا غریب اور مڈل کلاس سے رابطہ کٹتا گیا، اس حوالے سے ان کا مشاہدہ بھی کمزور ہو گیا، جب بھی کوئی نیا اسکرپٹ آتا تو اس میں واضح طور پر محسوس ہوتا تھا کے یہ پندرہ سے بیس سال پرانی بات ہو رہی ہے،

مثلاً ایک ڈرامے کا اسکرپٹ آیا، لکھاری مشہور اور کافی کھاتے پیتے گھرانے سے تھے، اس میں انہوں نے ایک غریب لڑکی کو ہاسپٹل لے جانے کے لیے تانگے کا لکھا، میں نے عرض کیا، کیا آپ کو معلوم ہے کہ اب دیہاتوں میں تانگے نہیں چلتے؟ ، ساتھ ہی میں نے پوچھ ڈالا کہ آخری دفعہ آپ کسی گاؤں میں کب گئے ہیں؟ ، وہ سوچ میں پڑ گئے، اور میں بھی۔

غریب طبقے کو لے کر ان کا مشاہدہ صرف نوکروں اور نوکرانیوں تک محدود ہے حالانکہ یہ طبقہ اپنے آپ میں ایک الگ حیثیت رکھتا ہے، گھروں میں بطور نوکر کام کرنے والے کرداروں کی سائیکالوجی، معاشی و ازدواجی حالات اور سوشل سٹینڈنگ کسی صورت غریب اور لوئر مڈل کلاس سے مطابقت نہیں رکھتی، لیکن یہ لکھاری انہی کے حالات کو امیروں کے علاوہ تمام طبقات پر منطبق کر کے چھاپ دیتے ہیں جس وجہ سے سطحی پن صاف محسوس ہوتا ہے۔ کچھ لکھاری خود مشاہدہ کرنے کی بجائے دوسروں کی تحریروں سے حالات و واقعات اخذ کرتے ہیں چلیں شاید اس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس انداز میں بھی تحریر کی کمزوری کا اندیشہ رہتا ہے۔

بقول استاد دامن
شعر (لکھاری کی تحریر) ہوندا ای ”ہڈ“ بیتی اے،
یعنی جو شعر یا ادب تجربے اور مشاہدے کے بغیر ہے وہ کچھ
اور تو ہو سکتا ہے پر ادب نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments