حکم کی ملکہ (الیگزینڈر پشکن کی ایک کہانی)


ماسکو کی سرد طویل رات تاش کی بازیاں کھیلتے پلک جھپکنے میں گزر گئی۔ رات کا کھانا صبح پانچ بجے لگا۔ جیتنے والوں نے ڈٹ کر کھایا۔ ہارنے والے اداسی سے خالی پلیٹوں کو گھورتے رہے۔ لیکن جب شیمپین کا دور چلا تو گفتگو میں خوب گرما گرمی آ گئی۔

”بھئی میں تو مان گیا اس ہرمن کو۔ ساری رات تاش کے کھلاڑیوں کے ساتھ گزاری لیکن ایک پتے کو ہاتھ نہیں لگایا۔“

میزبان نے کہا، جو فوج کا ایک اعلی افسر تھا۔
”ایک رات کیا اس نے تو ساری عمر تاش کا پتہ چھوا تک نہیں۔“
جنرل تاماسکی نے فقرہ کسا۔
”کیوں ہرمن ایسی کیا بات ہے۔ کبھی کبھار تو تمھارا بھی دل چاہتا ہو گا ایک آدھ بازی لگانے کو؟“

ہرمن، ایک نوجوان انجینئر، جس کے والدین جرمنی سے آئے تھے، سنتا رہا لیکن پھر بولا کہ اصل بات یہ ہے کہ پرائی تھیلی کا منہ بند ہوتا ہے۔ جو تھوڑا بہت پیسہ میرے پاس ہے اسے میں جیتنے کی امید میں ضائع نہیں کر سکتا۔ ہار جیت پر میرا اختیار نہیں لیکن کھیلنے یا نہ کھیلنے پر تو ہے نا۔

”خیر، ہرمن کی بات الگ ہے لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ میری دادی، کاؤنٹیس اینا فیدورنا کیوں تاش کھیلنے سے کتراتی ہے؟“

جنرل تاماسکی میزبان سے مخاطب تھا۔

”اس میں اچنبھے کی کیا بات ہے؟ مجھے تو تمھاری حیرت پر حیرت ہو رہی ہے۔ اسی سال کی بڑھیا، تمھاری دادی ہی سہی، اگر تاش نہیں کھیلتی تو حیران کیوں ہو رہے ہو؟“

میزبان نے بے تکلفی سے اپنے دوست کی خبر لی۔
” اسی نہیں ستاسی۔ خیر۔ اس کا مطلب ہے کہ تم اس کہانی سے بالکل ناواقف ہو۔“
جنرل تاماسکی نے سرپرستانہ انداز میں کہا۔
”کون سی کہانی؟ نہیں بھئی مجھے تو کچھ اندازہ نہیں۔ کیا ہوا؟ کیا راز ہے اس کے پیچھے؟“

اب ساری محفل کی نظریں جنرل تاماسکی پر تھیں، خاص طور پر ہرمن کی۔ تاماسکی نے اپنے آپ کو محفل کا محور پا کر خود اہمی سے کرسی ذرا پیچھے کی، شیمپین کے گلاس سے ہلکی سی چسکی لگائی اور کاؤنٹیس اینا فیدورنا کی داستان شروع کی۔

” ساٹھ سال پہلے میری دادی پیرس گئی تھی جہاں اس نے اپنی خوبصورتی، دولت اور سٹائل سے وہاں کے سوشل حلقوں میں ایک ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔ وہ جہاں جاتی ایک جم غفیر ’کوہ قاف کی پری‘ کو دیکھنے کے لئے جمع ہو جاتا۔ کابینہ کے وزیر، فوج کے جنرل اور بینکوں کے مالک اسے ملنے اور ڈنر اور تاش کی پارٹیوں میں شرکت کے لئے دعوت نامے بھجواتے۔ ایک دن کاؤنٹیس اینا فیدورنا ایک کھیل میں بازی پر بازی ہار رہی تھی۔ رات ختم ہونے سے پہلے وہ پچاس لاکھ فرانک ہار چکی تھی۔ دل برداشتہ ہو کر جب وہ گھر پہنچی تو اس نے اپنے شوہر کو بتایا کہ اگلے دن اسے کتنی رقم ڈیوک آف اورلینز کو واپس کرنی ہے۔

میرے دادا کی شہرت زن مرید کی تھی۔ وہ ہمیشہ بیوی سے دب کر رہتا۔ لیکن جب اس نے پچاس لاکھ فرانک کی رقم سنی تو اس کو تو جیسے بھڑوں کے چھتے نے ڈس لیا ہو۔ اس نے کاؤنٹیس کو صاف صاف کہ دیا کہ اب وہ اس کو پچاس لاکھ فرانک تو کیا ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں دے سکتا۔

پیرس کے اونچے حلقے میں ایک عجیب و غریب شخصیت کاؤنٹ ریشلو کی تھی۔ وہ بقول خود بہت بڑا جادوگر تھا۔ اس کو دعوے تھا کہ اس کے قبضے میں جنات ہیں اور اسے آب حیات کے منبع کا علم بھی ہے۔ لیکن اپنی بے بہا دولت کے طفیل وہ با اثر لوگوں میں مقبول ہی نہیں، اس سوشل حلقے کی جان سمجھا جاتا تھا۔ ”

” تو خیر، میری دادی نے فیصلہ کیا کہ وہ کاؤنٹ ریشلو سے پچاس لاکھ فرانک ادھار مانگے گی۔ اس نے کاؤنٹ کو ایک رقعہ بھجوایا جس میں تحریر تھا ’کاؤنٹ ریشلو، مجھے آپ کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ جیسے ہی آپ کو یہ پیغام ملے آپ فوراً مجھ سے رابطہ کریں‘ ۔ کاؤنٹ ریشلو نے جواب بھجوایا کہ میں آپ کا منتظر ہوں۔ آپ ابھی تشریف لے آئیے۔

” جب میری دادی نے پچاس لاکھ فرانک مانگے تو کاؤنٹ نے کہا کہ میرے لئے یہ کوئی بڑی رقم نہیں ہے۔ میں آپ کو دے سکتا ہوں، لیکن دوں گا نہیں۔ وہ اس لئے کہ آپ پر یہ بوجھ سوار ہو جائے گا کہ آپ نے یہ رقم مجھے لوٹانی ہے۔ میں آپ کا ذہنی سکون برباد نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن میں آپ کو شرط جیتنے کی ایسی ترکیب بتانے کے لئے تیار ہوں جس سے آپ سب ہارے ہوئے پیسے بازیافت کر سکتی ہیں۔“

”لیکن کاؤنٹ ریشلو، میرے پاس تو شرط لگانے کے پیسے بھی نہیں ہیں۔“
”اس کی فکر مت کریں۔ آپ شرط لگائیں۔ جیت ہر حال میں آپ کی ہو گی۔“

پھر اس نے کاؤنٹیس کو ایک راز بتایا۔ میری دادی اگلے دن کھیل میں شریک ہونے کے لئے پہنچ گئی۔ اس نے معذرت کی کہ وہ کل کھوئی ہوئی رقم ادا نہیں کر سکی لیکن آج وہ پائی پائی کا حساب چکا دے گی۔ پہلی ہی بازی اس نے ڈیوک آف اورلینز سے لگائی اور ایک ایک کر کے وہ تین پتے چنے جن کا راز ریشلو نے بتایا تھا۔ اس رات نہ صرف کاؤنٹیس نے کھوئی ہوئی رقم بازیافت کر لی بلکہ اس سے دگنی رقم جیت بھی لی۔ ”

” یہ صرف حسن اتفاق ہے۔“
ایک مہمان نے کہا۔
” بڑی اونچی چھوڑی ہے جنرل صاحب آپ نے۔“
ہرمن نے تاماسکی کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔
”نہیں یہ حقیقت ہے۔ یہ ہوا۔“
”کتنی ستم ظریفی ہے کہ تم ہر بازی ہار جاتے ہو۔ اپنی دادی سے یہ راز کیوں نہیں پوچھ لیتے؟“
میزبان نے کچھ مذاق اور کچھ سنجیدگی سے کہا۔

” یہی تو مسئلہ ہے۔ دادی نے آج تک یہ راز کسی کو نہیں بتایا۔ اس کے چاروں بیٹوں نے ہر طرح کی کوشش کر لی لیکن راز اگلوانے میں کامیاب نہیں ہو سکے“

ہرمن سوچ رہا تھا کیا یہ کہانی سچ ہے؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟

صبح کے چھ بج چکے تھے۔ مہمانوں نے شیمپین کے آخری گھونٹ بھرے اور ایک ایک کر کے میزبان سے اجازت طلب کی۔

اس واقعے کے چند ہفتے بعد ایک دن کاؤنٹیس اینا فیدورنا سنگھار دان کے سامنے بیٹھی تھی۔ تین خادمائیں اس کے ستاسی سالہ چہرے پر میک اپ کی تہہ پر تہہ چڑھا رہی تھیں۔ لیکن اس کی تسلی نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے تنگ آ کر اپنی خاص خدمت گزار الیزا کو طلب کیا۔ الیزا خادمہ سے زیادہ اس کی ساتھی اور مشیر تھی۔ الیزا پڑھی لکھی، اچھے خاندان کی خوبصورت، نوجوان لڑکی تھی۔ کاؤنٹیس اس کو اپنی بیٹی کی طرح چاہتی تھی۔

” الیزا کوچبان سے کہو گاڑی دروازے پر لائے۔ مجھے بہت دیر ہو گئی ہے۔ مگر پہلے میرا میک اپ درست کرو۔ اس حالت میں کیسے میں ڈچسس سے مل سکتی ہوں۔ وہ کیا سوچے گی؟“

کوچبان تین گھوڑوں والی ٹرائکا گاڑی دروازے پر لے آیا۔ تینوں خادماؤں اور الیزا نے مل کر کاؤنٹیس کو گاڑی میں بٹھایا۔ اور الیزا ایک ناول لے کر اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔

الیزا نے کن اکھیوں سے باہر دیکھا۔ اس کے چہرے پر اچانک لالی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ آج پھر گلی کی دوسری سمت، بیکری کے دروازے پر وہی خوبرو انجینئر کھڑا تھا جو کاؤنٹیس کے پوتے تاماسکی کے ساتھ تاش کی پارٹیوں میں شرکت تو کرتا لیکن کبھی بازی نہیں لگاتا تھا۔

جس دن سے ہرمن نے تین پتوں کے راز کے بارے میں سنا تھا اس کی زندگی بالکل بدل گئی تھی۔ باپ کے مرنے کے بعد ورثے میں ہرمن کو تھوڑی سی رقم ملی تھی لیکن کوئی جائیداد نہیں۔ اس نے جب سے فوج کی انجینئرز کور میں ملازمت شروع کی تھی اپنی معمولی تنخواہ پر گزارا کرتا۔ لیکن جس معیار زندگی کو وہ اپنانا چاہتا تھا وہ اس تنخواہ میں نا ممکن تھا۔

اب وہ ہر وقت یہی سوچتا کہ اگر وہ کسی طرح اس بوڑھی کاؤنٹیس سے تین پتوں کا راز اگلوالے تو پھر جس طرز زندگی کا وہ مستحق ہے اسے نصیب ہو سکتا ہے۔

وہ ساری رات نہ سو سکتا اور اگر تھوڑی دیر کے لئے آنکھ لگ بھی جاتی تو اسے خواب میں تین تاش کے پتے نظر آتے جو ہر بازی جیت لیتے۔ دن رات سوچ بچار کرنے کے بعد اس نے ایک منصوبہ بنایا۔ الیزاسے متعارف ہونے کے لئے اس کی کھڑکی کے سامنے کھڑے ہو نا اسی منصوبے کا ایک حصہ تھا۔

ایک دن کاؤنٹیس کی گھوڑا گاڑی حویلی کے دروازے پر ر کی۔ کاؤنٹیس کو تین چوبداروں نے گاڑی میں بٹھایا۔ اس کے پہلو میں الیزا بیٹھی۔ الیزا نے ایک چہرہ گاڑی کے شیشے کے ساتھ لگا دیکھا۔ وہ کچھ کہنے ہی والی تھی کہ اس نے کاغذ کا ایک رقعہ اپنے ہاتھ میں پایا۔ رقعہ دینے والا خوبرو نوجوان فوراً وہاں سے غائب ہو گیا۔

سہ پہر کو جب الیزا گھر واپس لوٹی تو سیدھی اپنے کمرے میں گئی، دروازے کو چٹخنی لگائی اور دھڑکتے دل کے ساتھ ہرمن کا خط پڑھنے لگی۔ ہرمن نے بڑے لچھے دار الفاظ میں اپنی لا زوال محبت کا اظہار تحریر کیا تھا۔

الیزا کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ کمرے میں بند جنگلی جانور کی طرح چکر پر چکر لگاتی رہی۔ بالآخر اس نے مختصر سا جواب لکھا۔

”محترم، مجھے یقین ہے آپ کے ارادے قابل احترام ہیں اور آپ میرے لئے باعث آزار نہیں بننا چاہتے۔ میں آپ کا خط لوٹا رہی ہوں۔ امید ہے آپ آئندہ ایسی حرکت نہیں کریں گے۔“

اگلے دن جب ہرمن کھڑکی کے سامنے والی بیکری کے دروازے کے پاس حسب معمول کھڑا ہو کر کھڑکی کی طرف تک رہا تھا، الیزا نے خط کو ایک لفافے میں بند کیا، کھڑکی کھولی اور خط کو سڑک پر پھینک دیا۔

دو دن کے بعد اسی بیکری میں کام کرنے والی ایک شوخ سی بچی نے الیزا کو ایک خط لاکر دیا جس میں ہرمن نے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

الیزا نے خط پھاڑ کر لڑکی کو واپس کر دیا۔ لیکن ہرمن بھی ہمت ہارنے والا نہیں تھا۔ اگلے دن اس نے ایک اور خط بھجوایا۔ پھر ایک اور۔ الیزا ہر روز اس کا ایک خط موصول کرتی جس میں پہلے خط سے زیادہ جذبات کی شدت ہوتی۔ ہر خط ملاقات کی التجا پر ختم ہوتا۔

اب الیزا کا دل بھی پگھلنا شروع ہو گیا تھا۔ پھر ایک دن بالآخر اس نے ہرمن کو ایک خط لکھا اور جب ہرمن بیکری کے دروازے پاس آ کر کھڑا ہوا تو کھلی کھڑکی سے خط سڑک پر پھینک دیا۔

خط میں لکھا تھا۔

” آج کاؤنیٹس ایک پارٹی میں جا رہی ہے۔ پارٹی رات کے دو سے پہلے ختم نہیں ہو گی۔ تم ساڑھے گیارہ بجے آ جا نا۔ بڑا دروازہ کھلا ہو گا۔ نوکر اس وقت تک جا چکے ہوں گے۔ سب خادمائیں نیچے والی منزل میں ایک کمرے میں گپیں لڑا رہی ہوں گی۔

”دوسری منزل پر بائیں طرف کاؤنٹس کا کمرہ ہے جس میں ایک سکرین کے پیچھے چور دروازہ ہے جو ایک راہداری پر کھلتا ہے۔ اس کے آخر میں سیڑھیاں ہیں جو میرے کمرے کی طرف جاتی ہیں۔ تم سیدھے اندر آ کر میرا انتظار کرنا۔“

ہرمن خوشی اور بے چینی میں ساری رات نہ سو سکا۔ اگلی رات ساڑھے دس کے قریب وہ الیزا کی کھڑکی کے سامنے موجود تھا۔ پھر اس نے تقریباً ایک گھنٹہ فٹ پاتھ پر قدم پیمائی کی اور ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے کاؤنٹیس کی حویلی میں داخل ہو گیا۔

ڈیوڑھی میں کرسی پر بیٹھا چوکیدار خراٹے لے رہا تھا۔ دبے قدموں سے چلتا ہرمن دوسری منزل پر پہنچا اور چوروں کی طرح کاؤنٹیس کی خوابگاہ میں داخل ہو گیا۔ اسے لگا جیسے وہ کسی مقدس جگہ کو آلودہ کر رہا ہے۔

ایک کونے میں سکرین کے پیچھے کپڑوں کی الماریوں سے بھرا کلوزیٹ تھا جس کے ساتھ ایک چور دروازہ تھا جس کے آخر میں وہ سیڑھیاں تھیں جو الیزا کے کمرے کو جاتی تھیں۔ ہرمن نے دروازہ بند کر دیا اور سکرین کے پیچھے چھپا انتظار کرتا رہا۔

رات بالکل خاموش تھی۔ نیم شب کا گجر بجا تو سارے گھر میں اس کی آواز گونجی۔ وقت گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ پھر ایک بجا۔ دو بجے۔ گھوڑا گاڑی کے رکنے کی آواز آئی۔ تھوڑی دیر بعد کمرے کا دروازہ کھلا اور کاؤنٹیس سے کمرے میں داخل ہوئی۔ تین خادمائیں بھی ساتھ تھیں جو کاؤنٹیس کا میک اپ اتار کر اور پھر شب بخیر کہہ کر کمرے سے چلی گئیں۔

کاؤنٹیس بے خوابی کی مریض تھی۔ وہ کافی دیر تک آرام کرسی پر بیٹھی ایک بڑے فریم میں لگی اپنی اور کاؤنٹ کی جوانی کی تصویر کو تکتی رہی۔ اس کی آنکھیں ہر تاثر سے خالی تھیں۔ لگتا تھا جیسے خلا میں گھور رہی ہوں۔

اچانک اس کے چہرے پر خوف و ہراس کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس نے چیخنے کے لئے منہ کھولا لیکن چیخ نہ پائی۔ صرف ہونٹ کانپتے رہے۔ اس کے سامنے ایک اجنبی نوجوان کھڑا تھا۔

”ڈریں نہیں کاؤنٹس۔ میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ میں ایک درخواست لے کر آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں۔“

بوڑھی عورت خاموش رہی۔ یوں لگتا تھا جیسے اس نے سنا ہی نہ ہو۔
ہرمن نے یہ سمجھ کر کہ کہیں کاؤنٹیس بہری نہ ہو اس کے کان کے پاس اپنا منہ لگا کر زور سے کہا،

” کاؤنٹیس، میری زندگی کی تمام خوشیاں آپ کے ہاتھ میں ہیں۔ مجھے معلوم ہے آپ تین پتوں کا راز جانتی ہیں۔ آپ مجھے یہ راز بتا دیں۔ آپ کا کچھ نہیں جائے گا لیکن میری زندگی بن جائے گی۔“

لگتا تھا جیسے کاؤنٹیس بات سمجھ گئی ہے۔
” وہ سب ایک مذاق تھا۔ تین پتوں کا کوئی راز نہیں ہے۔“
” یہ ناممکن ہے۔ مجھے آپ کے پوتے تاماسکی نے خود ہر تفصیل بتائی ہے۔

آخر یہ راز آپ کس کے لئے محفوظ رکھ رہی ہیں؟ اپنے پوتوں کے لئے؟ ان کے پاس تو ویسے ہی بے پناہ پیسہ ہے۔ وہ فضول خرچ بھی ہیں۔ ان کو مزید دولت دینا ان سے دشمنی ہے۔ میں پیسے کی قدر جانتا ہوں۔ میں آپ کا احسان عمر بھی نہیں بھولوں گا۔ کاؤنٹیس خدا کے لئے مجھے یہ راز بتا دیں۔ ”

ہرمن کاؤنٹیس کے قدموں میں گر گیا تھا اور پاؤں پکڑ کر التجا کر رہا تھا کہ وہ اس کی درخواست کو رد نہ کرے۔ لیکن کاؤنٹیس بالکل خاموش بیٹھی رہی۔

اب ہرمن اٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں غصہ ہی نہیں شدید نفرت بھی جھلک رہی تھی۔
”کمینی، کنجوس بڑھیا، میں تجھ سے یہ راز اگلوا کر رہوں گا“
یہ کہہ کر ہرمن نے جیب سے پستول نکال کر کاؤنٹیس کی کنپٹی پر رکھ دیا اور ایک مرتبہ پھر چلا کر کہا۔
”بتا کون سے تین پتے ہیں؟“

کاؤنٹیس کی آنکھیں خوف سے پھٹی پڑ رہی تھیں۔ لگتا تھا جیسے نکل کر باہر آ جائیں گی۔ اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ وہ کچھ کہنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن آواز سے محروم ہو گئی تھی۔

پھر ہونٹوں کی کپکپاہٹ تھم گئی تھی لیکن آنکھیں اسی طرح کھلی ہوئی تھیں جن سے خوف جھانک رہا تھا۔

ہرمن نے کاؤنٹیس کو جھنجھوڑنا چاہا لیکن اس کا بدن سامنے کو ڈھلک گیا۔ اب اسے احساس ہوا کہ کاؤنٹیس مر چکی تھی۔

ہرمن نے پردے کے پیچھے والے چور دروازے کو کھو لا وہاں اسے الیزا کے کمرے کی سیڑھیاں نظر آئیں جن کو پھلانگتا ہوا وہ الیزا کے کمرے میں داخل ہوا۔

الیزا ہرمن کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے ابھی تک پارٹی کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھی اور پوچھا کہ اب تک وہ کہاں تھا۔

ہرمن نے اسے بتایا کہ کاؤنٹیس مر چکی ہے۔ اور صاف صاف یہ بھی کہہ دیا کہ وہ اس کی موت کا ذمہ دار ہے۔

الیزا کے دل سے پیار محبت سب ہوا ہو چکا تھا۔ اس کے ذہن میں صرف ایک ہی سوال تھا کہ ہرمن کو حویلی سے کیسے نکالا جائے۔ اس نے سنگھار دان کی دراز کھولی اور اس میں سے ایک چابی نکال کر ہرمن کو دی۔

”سیڑھیوں سے نیچے بائیں ہاتھ والے دروازے میں تالا لگا ہوا ہے۔ یہ اس کی چابی ہے۔ اسے کھول کر تم عقبی گلی میں نکل آؤ گے جو اس وقت بالکل سنسان ہو گی۔ یہ لو“

اس واقعے کے تین دن بعد ماسکو کے سینٹ پیٹرز چرچ میں مرکزی چبوترے پر مہاگنی کا ایک تابوت رکھا تھا۔ پادری کاؤنٹیس کی تحسین و تعریف کے قصیدے پڑھ رہا تھا۔ دعا کے بعد اہل خانہ، پھر چیدہ چیدہ ممتاز شخصیات اور اس کے بعد ملازمین کو آخری دیدار کا موقعہ دیا گیا۔

ہرمن مذہبی تو نہیں توہم پرست ضرور تھا۔ سوگواروں کی قطار میں سب سے پیچھے کھڑا وہ جھجکتا ہوا تابوت کی طرف بڑھا۔ گٹھنوں کے بل جھک کر غور سے اس لاش کو دیکھا جس کا وہ خود ذمہ دار تھا۔ اچانک اسے محسوس ہوا جیسے کاؤنٹیس کے ہونٹوں میں جنبش ہوئی۔ ان پر ایک شریر مسکراہٹ رقص کرتی نظر آئی۔ وہ ابھی اس عجوبے سے پنپنے نہیں پایا تھا کہ اس نے دیکھا کہ کاؤنٹیس نے بائیں آنکھ کھولی اور اشارہ کرنے کے انداز میں اسے جھپکایا۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ اور بھی شریر ہو گئی تھی۔

ہرمن گھبرا کر ایک جھٹکے سے اٹھا۔ اس کا سر تابوت سے ٹکرایا اور وہ وہ وہیں گر گیا۔ پادری اور دوسرے لوگوں نے اسے سنبھالا۔ شرمندگی سے سر جھکائے ہرمن چرچ سے باہر نکل آیا۔

اب اس کی حالت بالکل پاگلوں جیسی ہو گئی تھی۔ وہ تین پتوں کے سوا اور کچھ نہیں سوچ سکتا تھا۔ تابوت کا سین بار بار اس کی نظروں کے سامنے آتا اور وہ خوف سے لرز جاتا۔

اسی پریشانی کی حالت میں ایک رات پچھلے پہر اسے لگا جیسے اس کا اردلی نشے کی حالت میں شراب خانے سے لوٹ کر اس کے دروازے کے باہر چل پھر رہا ہے۔

ہرمن کو اردلی پر بہت غصہ آیا، وہ بھنایا ہوا کمرے سے نکلا لیکن وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ اس نے اردلی کے کمرے کا دروازہ کھولا تو دیکھا وہ نشے میں دھت سویا ہوا ہے۔ ہرمن اپنے کمرے میں واپس آ کر لیٹ گیا۔ ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ اسے پھر قدموں کی چاپ سنائی دی۔ لیکن اس مرتبہ یہ آواز باہر سے نہیں کمرے کے اندر سے آ رہی تھی۔ پھر آواز ایک ہیولے میں بدل گئی، یہ ہیولا کاؤنٹیس کا ہیولا تھا۔ اور آواز، لگتا تھا جیسے کسی گنبد سے آ رہی ہو۔

”میں نے تمہیں اپنا قتل معاف کر دیا ہے۔ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہاری مدد کروں اور تمہیں تین پتوں کا راز بتا دوں۔ لیکن اس کے لئے دو شرطیں ہیں۔ پہلی یہ کہ تم الیزا سے شادی کرو اور دوسری یہ کہ تم یہ بازی صرف ایک مرتبہ لگا سکتے ہو۔ غور سے سنو، تین، سات، یکہ۔ ’‘

ہیولا غائب ہو گیا۔ ہرمن فوراً اٹھا اور تین، سات، یکہ، تین سات، یکہ کی رٹ لگانی شروع کر دی۔

صبح ہوتے ہی اس نے فیصلہ کیا کہ وہ پیرس جائے گا اور جس کلب میں ساٹھ سال پہلے کاؤنٹیس نے پچاس لاکھ فرانک جیتے تھے، وہیں ان تین پتوں پر اپنے تمام ورثے کی بازی لگا دے گا۔ لیکن اسے پیرس جانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ حسن اتفاق سے جنرل تاماسکی نے ماسکو کے سب سے بڑے تاش کے کھلاڑیوں کے کلب کی ممبرشپ لے لی تھی۔ جب ہرمن نے تاش کھیلنے کی خواہش ظاہر کی جنرل تاماسکی اور باقی دوست بہت خوش ہوئے۔ ان کی دیرینہ خواہش تھی کہ ہرمن بھی ان کی طرح تاش کھیلنے لگے۔

تاریخ طے پا گئی۔ مقررہ وقت پر ہرمن کلب میں پہنچا۔ کافی کھلاڑی پہلے ہی سے موجود تھے۔ کھلاڑیوں کا سربراہ ولادیمر، جو بینکر بھی تھا اور خزانے کا اور پتوں کا انچارج بھی، تیار بیٹھا تھا۔ پہلی بازی شروع ہوئی۔

ولادیمر نے مسکراتے ہوئے ہرمن کو آگے آنے کی دعوت دی اور ہرمن نے ایک پتہ منتخب کر لیا۔
”کتنے روبل لگا رہے ہو ہرمن؟“
ولادیمر نے سوال کیا۔
”سینتالیس ہزار۔“
محفل میں ایک دم سناٹا چھا گیا۔

”دیکھو ہرمن۔ یہ بہت بڑی رقم ہے۔ یہاں بڑی سے بڑی شرط دو سو پچھتر روبل کی لگتی ہے۔ لیکن اگر تم مصر ہو تو رقم پتے پر رکھ دو“

ہرمن نے سینتالیس ہزار کا بینک نوٹ پتے پر رکھ دیا۔ ولادیمر نے اسے اچھی طرح جانچا پرکھا اور اپنے سینتالیس ہزار بھی میز پر رکھ دیے۔

پتے پھینٹے گئے۔ ہرمن بائیں ہاتھ پر تھا۔ ولادیمر نے پتے پڑھے۔ دایاں پتہ دہلہ تھا۔ بایاں تین۔ ہرمن پہلی بازی جیت گیا تھا۔ اس نے چورانوے ہزار روبل سمیٹے اور فوراً کلب سے باہر نکل آیا۔ باقی کھلاڑی بے یقینی کے عالم میں اسے دیکھتے ہی رہ گئے۔

اگلے دن بازی شروع ہونے سے پہلے کھلاڑی اور تماشائی ہی نہیں کلب کے ملازمین بھی اپنا اپنا کام چھوڑ کر یہ بازی دیکھنے آ گئے تھے۔ ٹھیک وقت پر ہرمن کلب میں داخل ہوا۔ آج ساری بازی سات کے پتے پر لگنی تھی۔

”آج کتنے ہزار روبل؟“
ولادیمر نے سنجیدگی سے لیکن ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے سوال کیا۔
’‘ چورانوے ”
ہرمن نے یک لفظی جواب دیا۔
پتے پھینٹے گئے۔ دایاں پتہ جوکر تھا۔ بایاں سات۔

ولادیمر نے ایک لاکھ اٹھاسی ہزار روبل ہرمن کی طرف کر دیے جو ساری رقم سمیٹ کر کل کی طرح فوراً اٹھ کر چل دیا۔

تیسرے دن کلب میں ایک کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ سب کھلاڑی، تماشائی اور ملازمین ہرمن کے منتظر تھے۔ ولادیمر نے متوقع سوال کیا۔

”کتنے روبل؟“
”ایک لاکھ اٹھاسی ہزار“
ولادیمر نے پہلے ہی سے پیسے کلب کی تجوری میں رکھوا دیے تھے۔ رقم میز پر رکھی گئی۔ پتے تقسیم ہوئے۔

پہلی دو راتوں کی طرح دائیں ہاتھ پر ولادیمر اور بائیں پر ہرمن تھا۔ پتے پکارے گئے۔ یکہ اور حکم کی ملکہ۔

”میں جیت گیا، میں جیت گیا“
ہرمن نے نے جوش میں چلا کر تین لاکھ چھیہتر ہزار روبل سمیٹنے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔
”نہیں میرے دوست۔ یکہ دائیں طرف ہے۔ تمھاری طرف حکم کی ملکہ ہے،“
ولادیمر نے ہرمن کا ہاتھ روکتے ہوئے کہا۔

ہرمن کا دماغ سن ہو گیا تھا۔ اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ اس سے اتنی بڑی غلطی ہو سکتی ہے۔ وہ بے یقینی سے ڈوبتی ہوئی رقم کو، ولادیمر کو اور حکم کی ملکہ کو دیکھ رہا تھا۔

ہرمن آج تک قسم کھاتا ہے کہ اس نے جب حکم کی ملکہ کو دیکھا تو اس کے ہونٹوں پر ایک شریر سی مسکراہٹ تھی۔ اس نے ایک آنکھ جھپک کر اسے شرارت سے دیکھا تھا اور اس کے چہرے میں کسی کی شباہت تھی۔

کاؤنٹیس اینا فیدورنا کی شباہت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments