عمران خان کا سکیورٹی نہ لینے کا اعلان: کیا وزیرِاعظم کے کہہ دینے سے اُن کا پروٹوکول کم ہو جائے گا؟

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


سابق فوجی آمر ضیا الحق کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد ان کی ایک تصویر اس وقت کی اخباروں میں شائع ہوئی تھی جس میں وہ ایک سائیکل پر سوار ہو کر دفتر جا رہے ہیں۔

اس تصویر کا مقصد سرکاری خزانے پر بوجھ کم کرنے کے عزم کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ نمود و نمائش کو روکنا تھا۔

یہ معاملہ کچھ دیر تک تو چلا اور پھر اس کے بعد گاڑیاں اور پروٹوکول معمول میں واپس آ گئے اور پھر ایسا واپس آیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نظام اپنی جگہ مضبوط کرتا چلا گیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے پروٹوکول لینے اور ان کی موومنٹ سے سڑکوں کی بندش کی وجہ سے لوگوں کو جو پریشانی ہوتی ہے اس کو روکنے کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کو ترجیح دی اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے بقول اس سے نہ تو لوگوں کو پرشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی سرکاری خزانے پر بوجھ پڑتا ہے۔

وزیر اطلاعات کے بقول ہیلی کاپٹر پر وزیر اعظم کا سفر 50 سے 55 روپے فی کلومیٹر میں پڑتا ہے اور سوشل میڈیا پر فواد چوہدری کے اس بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

اب پھر وفاقی حکومت کی طرف سے وزرائے اعلیٰ اور وزرا کے پروٹوکول میں کمی کا جو اعلان کیا گیا ہے اس بارے میں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد کفایت شعاری سمیت نمود و نمائش کو روکنا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے مطابق وفاقی کابینہ کے آئندہ اجلاس میں یہ معاملہ زیر بحث لایا جائے گا اور اس بات کا امکان ہے کہ وفاقی کابینہ اس بارے میں منظوری دے گی۔

تاہم پروٹوکول کے شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اتنا آسان نہیں جتنا بتایا جا رہا ہے بلکہ اس میں متعقلہ اداروں کی رائے اور ان کی رضامندی بنیادی جزو ہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات کے مطابق صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور وزرا کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں اور اس کے علاوہ جھنڈا ایکٹ کے تحت صرف وفاقی وزرا کو اپنی گاڑیوں پر جھنڈا لگانے کی اجازت ہے یا ان افراد کو جن کو یہ رتبہ دیا گیا ہو۔

اس معاملے کو زیر بحث لانے سے پہلے اس بات کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اعلیٰ شخصیات کی سکیورٹی کے لیے بلیو بک میں جن اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے کیا اس پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔

وی وی آئی پی کون ہیں؟

سکیورٹی ڈویژن میں تعینات ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اس بلیو بک کے مطابق ملک میں صرف دو شخصیات کو ہی وی وی آئی پی کا درجہ حاصل ہے۔ ان میں سے ایک صدر مملکت جبکہ دوسرے وزیر اعظم ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ان دونوں شخصیات کی سکیورٹی کے لیے نہ صرف روٹ لگائے جاتے ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر اگر انھوں نے کہیں جانا ہو تو سڑک کو دونوں اطراف سے بند بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بیرون ملک سے آنے والی اہم شخصیات یعنی سربراہانِ مملکت کو بھی وی وی آئی پی کا درجہ دیا جاتا ہے۔

ان دونوں شخصیات کے لیے دو دو روٹ لگائے جاتے ہیں تاہم سکیورٹی اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آخری وقت میں فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کون سا روٹ استعمال کرنا ہے۔ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں تین روٹ لگائے جاتے تھے۔

ان اہلکار کے مطابق وی وی آئی پی نے اگر کہیں جانا ہو تو بلیو بک کے مطابق جو سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے اس میں پہلے موٹر سائیکل پر ٹریفک پولیس اہلکار ہوتا ہے، اس کے بعد ٹریفک پولیس کی پائلٹ کار کے علاوہ وہ بلٹ پروف گاڑی جس میں وی وی آئی پی سوار ہوتے ہیں، اضافی گاڑی اور ان گاڑیوں کے ساتھ رائٹ فلائنگ اور لیفٹ فلائینگ سکواڈ کے علاوہ فائر بریگیڈ اور ایمبولینس شامل ہوتی ہے جبکہ آخر میں دوبارہ ٹریفک پولیس کی گاڑی ہوتی ہے۔

رائٹ فلائینگ اور لیفٹ فلائینگ میں جدید اسلحے سے لیس پولیس کمانڈو وی وی آئی پی کی سکیورٹی کے لیے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔

اہلکار کے مطابق بلیو بک میں صدر اور وزیر اعظم کے علاوہ کسی کو بھی وی وی آئی پی کا سٹیٹس حاصل نہیں۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں سری لنکا کرکٹ ٹیم پر حملے کے 10 سال سے زیادہ عرصے کے بعد ملک میں کرکٹ کی بحالی کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے والی غیر ملکی ٹیموں کو بھی وی وی آئی پی کا سٹیٹس دیا گیا تھا۔

گورنروں، وزرائے اعلیٰ، چیئرمین سیینٹ، سپیکر قومی اسمبلی اور وفاقی وزرا کے علاوہ ملک کے چیف جسٹس بھی وی آئی پی سٹیٹس میں آتے ہیں۔

پاکستان

بیرون ملک سے آنے والی اہم شخصیات یعنی سربراہانِ مملکت کو بھی وی وی آئی پی کا درجہ دیا جاتا ہے

یہ بھی پڑھیے

عمران خان کے کفایت شعاری کے وعدے: کتنے پورے کتنے ادھورے؟

’ہیلی کاپٹر پچاس روپے کلو’

بنی گالہ تک وزیراعظم کے ہیلی کاپٹر کا کتنا خرچ؟

اہلکار کے مطابق وی آئی پی کے سٹیٹس میں سکیورٹی کے لیے ٹریفک پولیس کا اہلکار موٹر سائیکل پر لیڈ کر رہا ہوتا ہے اس کے علاوہ وی آئی پی کی گاڑی اور پولیس کی گاڑی ہوتی ہے جس میں مسلح پولیس اہلکار سوار ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بلیو بک میں کسی اور گاڑی کا ذکر نہیں۔

کس کس چیز کی اجازت نہیں؟

سکیورٹی ڈویژن میں تعینات ایک سابق اہلکار محمد سلیم کے مطابق سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور میں جب ان کے لیے روٹ لگتا تھا تو پہلے سڑک پر ٹریفک کی دو گاڑیاں سائرن بجاتے ہوئے گزرتی تھیں، پھر کچھ دیر ان کے سکواڈ میں شامل گاڑیوں کا قافلہ گزرتا تھا۔

انھوں نے کہا کہ وی آئی پی سٹیٹس میں شامل اگر کسی شخص کی جان کو خطرہ ہے تو اسے کچھ عرصے کے لیے اضافی سکواڈ دینے کی مشروط اجازت ہے لیکن اس کے لیے بھی ایسی وجوہات بیان کرنا ہوں گی جس کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مخصوص مدت کے لیے ان کی سکیورٹی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ سابق دور حکومت سے لے کر موجودہ حکومت تک وی آئی پی سٹیٹس میں شامل افراد جن میں وفاقی وزرا قابل ذکر ہیں، کم از کم پانچ سے سات گاڑیوں کا سکواڈ لے کر چلتے ہیں جن میں سے ایک دو گاڑیاں متعقلہ وزارت کی بھی ہوتی ہیں۔

پاکستان

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے عہدہ سنبھالنے کے بعد عہد کیا تھا کہ وہ کفایت شعاری کو اپنائیں گے

انھوں نے کہا کہ بلیو بک میں تو آئی جی سے لے کر ایس ایس پی تک اور ڈپٹی کمشنر سے لیکر کمشنر تک کو سکیورٹی کا وہ سٹیٹس فراہم ہی نہیں کیا گیا جس کو لے کر وہ سفر کرتے ہیں اور جس میں کم از کم پولیس کی دو سے تین گاڑیاں ان کے ساتھ ہوتی ہیں۔

محمد سلیم کے مطابق بلیو بک میں تو اس بات کا بھی ذکر نہیں کہ اگر وی آئی پی سٹیٹس میں شامل کوئی فرد کہیں سفر کر رہا ہو تو اس کے سکواڈ میں شامل عملہ سپیکر کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو ہٹنے کی آوازیں لگا رہا ہو۔

سکیورٹی ڈویژن میں تعینات ایک اور اہلکار نصیر اقبال کے مطابق وزیر اعظم نے پروٹوکول میں جو کمی کا اعلان کیا ہے وہ صرف کہہ دینے سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے ایک اجلاس طلب کرنا پڑتا ہے اور ماضی میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ایسے اجلاسوں میں چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹری، اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں کے آئی جی اور فوج اور سویلین خفیہ اداروں کے نمائندے شریک ہوتے ہیں جو کہ امن و امان کی صورت حال کو دیکھ کر تجاویز دیتے ہیں۔

اس کے بعد بلیو بک میں ممکنہ تبدیلی کے لیے سفارشات دی جاتی ہیں اور اس کی منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کو بھی بھیجا جا سکتا ہے۔

نصیر اقبال کے مطابق وفاق میں بلیو بک پر عمل درآمد کی ذمہ داری وزارت داخلہ جبکہ صوبوں میں اس پر عمل درآمد کی ذمہ داری محکمہ داخلہ کی ہوتی ہے۔

’کوئی پوچھنے کی جرات نہیں کرتا‘

تجزیہ نگار اور صحافی عامر الیاس رانا کے مطابق وی آئی پی سٹیٹس رکھنے والے نہ تو بلیو بک پر عمل کرتے ہیں بلکہ بڑی بڑی گاڑیاں بھی اپنے سکواڈ میں لے کر چلتے ہیں، جن کی اجازت نہیں۔

انھوں نے کہا کہ وفاقی وزیر کو 1600 سی سی گاڑی رکھنے کی اجازت ہے لیکن وہ بڑی بڑی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ بلٹ پروف گاڑیوں میں گھومتے ہیں جن کے اخراجات متعقلہ وزارت کے اکاؤنٹ سے ہی ادا کیے جاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ سکیورٹی کے نام پر وزرا باکس سکیورٹی لے کر گھومتے ہیں اور کوئی بھی اس بارے میں ان سے پوچھنے کی جرات نہیں کرتا۔

عامر الیاس رانا کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے جب ایٹمی دھماکے کیے تھے تو اس کے بعد بچت کے طریقوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے وی آئی پی سٹیٹس کے مالک بالخصوص وفاقی وزار کو صرف ایک گاڑی ساتھ لے کر جانے کی اجازت تھی اور صرف وفاقی وزیر کو اپنی گاڑی پر جھنڈا لگانے کی اجازت تھی۔

انھوں نے کہا کہ سابق فوجی پرویز مشرف کے دور میں جب ظفر اللہ جمالی وزیراعظم تھے تو اس وقت کے وزیر دفاع راؤ سکندر اقبال نے صدر جنرل پرویز مشرف سے کہہ کر قواعد میں نرمی کی تھی جس کے بعد نہ صرف وزرا کی سکیورٹی میں اضافہ کیا گیا تھا بلکہ وزیر مملکت اور مشیروں نے بھی اپنی گاڑیوں پر قومی پرچم لگا لیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں بھی وزیراعظم تو دور کی بات وزرائے اعلیٰ کے مشیر اور معاون خصوصی نہ صرف اپنی گاڑیوں پر جھنڈے لگا کر گھوم رہے ہیں بلکہ سکیورٹی کی گاڑیاں بھی لے کر چلتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ جب یہ لوگ اپنے حلقوں یا پھر کسی شہر میں جاتے ہیں تو ان کے پروٹوکول میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اس شہر کی انتظامیہ کی گاڑیاں بھی پروٹوکول سکواڈ میں شامل ہو جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp