چار ستارے جو ڈوب گئے!


گزشتہ چند دنوں کے اندر علم، ادب اور فن کے تین مزید ستارے ڈوب گئے۔ یہ تین ستارے بیگم خورشید شاہد، انور اقبال بلوچ اور مسعود اشعر ہیں۔

بیگم خورشید شاہد کی اداکاری کی شاید معراج ”استانی راحت کی کہانی“ تھا جس میں معاشرے میں جہیز کی برائی کے مسئلے کو اجاگر کیا گیا تھا۔ یہ ڈرامہ پہلی دفعہ نشر ہوتے وقت بھی ایک کلاسک تھا اور آج بھی کلاسک ہے۔ سحرش خان کی اداکاری تو لاجواب تھی ہی لیکن بیگم خورشید شاہد نے سحرش کی سادہ دل، پرامید اور بیٹی کے بہتر مستقبل کی آس رکھنے والی ماں کا کردار جس خوبصورتی سے ادا کیا تھا، اور بعد میں جس طرح بیٹی کی خودکشی سے ان کا دل ٹوٹ جاتا ہے، ایک غمزدہ ماں کا کردار ان سے بہتر کوئی نہیں ادا کر سکتا۔

ایک منظر ذہن میں اب تک نقش ہے کہ جب بیگم خورشید بیٹی کے جہیز کے لیے سستی سی اشیاء جمع کرتی ہیں اور بیٹی کو کہتی ہیں کہ ان کو تالا لگا کے رکھو تو بیٹی جو مکان مالکوں کی بیٹی کا پرتعیش جہیز بنتا دیکھ چکی ہوتی ہے، جواب دیتی ہے کہ اماں ان بیکار چیزوں کو کوئی چراء کے کیا کرے گا۔ سونا چاندی میں بھی ان کی اداکاری لاجواب تھی۔ ایک سخت گیر چوہدرانی جسے کوئی پسند نہ کرتا تھا جسے سونا چاندی اپنی معصوم باتوں سے نرم گیر کر دیتے ہیں۔

انور اقبال بلوچ تحریک پاکستان کے ایک رہنماء حاجی محمد اقبال بلوچ کے فرزند تھے۔ یہ انور اقبال کے والد ہی تھے کہ جنھوں نے حکومت پاکستان کو گوادر کی بندرگاہ کی اہمیت سمجھائی اور یوں حکومت پاکستان نے اسے خریدا۔ کراچی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اداکاری کے شعبے کو چنا۔ ان کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ وہ بلوچی زبان میں بننے والی پہلی فلم ”ہمل و مہاگنج“ کے ہیرو تھے جسے بلوچوں کے احتجاج کے بعد ریلیز نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور سن 1977 میں تیار ہونے والی یہ فلم سن 2017 میں ہی سینما گھروں میں پیش کی جا سکی۔

انہیں صحیح معنوں میں مقبولیت شمع ڈرامے میں ”نانا کی جان قمرو“ کا کردار ادا کرنے سے حاصل ہوئی۔ اس کے بعد ان کی مقبولیت بڑھتی ہی رہی۔ ہم نے انہیں بہت سے پی ٹی وی ڈراموں میں دیکھا۔ آخری چٹان اور بابر ڈراموں میں ان کی اداکاری بہت اچھی تھی۔ ان کا ایک خاص نرمی سے مکالمے ادا کرنے کا انداز تھا جو آج بھی ذہن پر نقش ہے۔

مسعود اشعر صاحب کے کالم بہت شوق سے پڑھتے تھے کیونکہ ان کا اردو میں اپنی بات کو بیان کرنے کا انداز بہت سادہ اور دل نشین تھا۔ وہ اردو کے کلاسک ادیب اور ماہر صحافی تھے جو سادہ الفاظ میں اپنی بات بیان کرنے پر ملکہ رکھتے تھے۔ وہ ایسے موضوعات پر بھی قلم اٹھاتے تھے کہ جن پر عام طور پر زیادہ لوگوں کا دھیان نہیں جاتا۔

اور لیجیے ابھی ہم ان تینوں مشہور شخصیات پر یہ تعزیتی/یاد گاری مضمون لکھ ہی رہے تھے کہ مورخہ سات جولائی کو یوسف خان المعروف دلیپ کمار کی ممبئی سے وفات کی خبر آ گئی۔ اور ہمیں ان پر فلمایا ہوا یہ گیت یاد آ گیا۔

یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے

آج اس گیت کو لکھنے والے شکیل بدایونی، اس کے موسیقار نوشاد، گلوکار محمد رفیع، اس گیت کو پردہ سمیں پر عکس بندی کرانے والی اداکارہ نرگس بھی نہ رہیں اور آج اس گیت کو عکس بند کرانے والے دلیپ کمار بھی نہ رہے۔

اور واقعی یہ دنیا ایسے ہی رواں دواں رہے گی بس کسی روز ہم بھی نہ رہیں گے۔

دلیپ کمار سے ہمارا تعارف کوئی چار پانچ سال کی عمر میں اس وقت ہوا کہ جب ہم نے کیسٹ پر ”مان میرا احسان“ سنا اور ہمیں بہت پسند آیا۔ پھر کچھ عرصے بعد پتا چلا کہ یہ گانا دلیپ صاحب پر فلم بند کیا گیا تھا۔ پھر اسی فلم کا گیت ”محبت چومے جن کے ہاتھ“ سنا اور دیکھا۔ پھر آن فلم بھی دیکھ لی اور مغل اعظم بھی۔ یوں پتا چلا کہ آخر کیوں ایک دنیا ان کی اداکاری کی دیوانی ہے۔

دلیپ کمار یوسف خان صاحب کے بارے میں اگر باتیں بیان کرنے بیٹھوں تو دفتر کے دفتر بھر جائیں گے۔ ان کی زندگی کے بارے میں کئی کتابیں بھی ان کی شخصیت کو پورا بیان نہیں کر سکتیں۔

ان پر فلمائے گئے چند بہت ہی خوبصورت نغمات جو اس وقت ہمارے ذہن میں آ رہے ہیں بغیر کسی ماہ و سال کی ترتیب کے کچھ یوں ہیں۔

ہم درد کے ماروں کا اتنا ہی فسانہ ہے
فلم داغ
آج پرانی راہوں سے کوئی مجھے آواز نہ دے
فلم آدمی
تیرے حسن کی کیا تعریف کروں کچھ کہتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں
فلم لیڈر
اللہ ان سب کی مغفرت فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments