گم ہوجانے والے جڑواں کی کہانی!


ہمیشہ حیران کر دیتی ہے ہمیں وہ! دنیا میں آنے سے پہلے بھی اس نے یہی کیا تھا۔

بڑی صاحبزادی چھ برس کی ہو چکی تھیں۔ دوسرا حمل ساقط ہوئے بھی چار برس بیت چکے تھے۔ ہمیں تو کوئی تشویش نہیں تھی لیکن ماہم کا اصرار بڑھتا چلا جاتا تھا کہ انہیں گھر میں دوسراہٹ کے لئے بے بی چاہیے۔ چار و ناچار اپنے ہی اساتذہ کے پاس جا پہنچے کہ چارہ گر کچھ مسیحائی کا کرشمہ دکھائیں۔ لیبارٹری ٹیسٹ ہوئے، کچھ نہ ملا، فرمائشی لیپرو سکوپی بھی کروا ڈالی، وہاں بھی کسی مشکل کے کوئی آثار نہیں تھے۔ سو ہمارے اوپر تشخیص کا ٹھپا لگا، unexplained infertility یعنی ایسا بانجھ پن جس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی اور یہ صورت حال تیس فیصد بانجھ جوڑوں میں نظر آتی ہے۔ کیا کرتے سوائے اس کے کہ سب غیر مرئی چیزوں کو منہ بھر بھر کے کوسنے دیتے۔

دل کی تسلی کے لئے بے شمار دوائیاں کھا ڈالیں، آئی یو آئی کروا ( IUI) ڈالی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔

خیر ہارنے والے تو ہم بھی نہ تھے اور یہاں تو ماہم کی فرمائش اٹکی تھی۔ خیر جناب آئی وی ایف یا ٹیسٹ ٹیوب بے بی کروانے ہم وقت کے مشہور گائناکالوجسٹ ڈاکٹر راشد لطیف کے پاس جا پہنچے۔ آئی وی ایف کی حامی نہ معلوم انہوں نے کیوں نہ بھری اور ہمیں انتظار کرنے کو کہا۔

ہماری اماں نے اس دوران دوسرا راستہ اختیار کیا۔ نہ جانے کتنے وظیفے، کتنی منتیں اور کتنی دعائیں۔ ہمیں سیہون شریف بھی بھیجا گیا دوسرے لفظوں میں ماہم کے لئے بے بی کی تلاش میں نانی نے مصلا پکڑ کے اللہ سے گفت و شنید شروع کر دی۔

اب اس گفتگو میں بھلا ہمارا کیا کام سو پھر سے اپنے روز و شب میں مگن ہو گئے۔ چونکے اس دن جب صبح صبح جی متلایا، ارے بد ہضمی ہو گی، ہم نے سوچا۔ لیکن کچھ ہی دن بعد جب قے شروع ہوئی تو ہمیں چونکنا پڑا، کہیں ایسا تو نہیں کہ اماں کامیاب ہو گئیں۔

ہمارے خیال کی تائید لیبارٹری نے بھی کر دی۔ ہم تو بھونچکا رہ گئے کہ دوائیں اور علاج کب سے چھوڑ چکے تھے۔

ان دنوں ہم نشتر ہسپتال کے پروفیسر عطا اللہ خان کی نگرانی میں گائناکالوجی کے رموز سیکھنے کے آخری مراحل میں تھے۔ دوڑے دوڑے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے فوراً کاؤچ پہ لیٹنے کا اشارہ کیا، الٹرا ساؤنڈ کا پروب پیٹ پہ رکھا اور یکایک نعرہ مستانہ بلند کیا، یک نہ شد، دو شد۔

چہیتی شاگرد چونک کے اٹھ بیٹھی،
” سر کیا مطلب؟“

”مطلب یہ کہ ماہم کے لئے جڑواں بہن بھائی کا بندوبست ہوا ہے“
ماہم سب ڈاکٹرز میں بہت مقبول تھی۔

”دو یعنی کہ ٹوینز؟“ ہم ہکلائے،
” بالکل، تیار ہو جاؤ“

ایسا لگا کہ اماں کی دعائیں کچھ زیادہ ہی شرف قبولیت پا گئیں تھیں۔ ہم خوش تھے کہ ٹوینز بہت اچھے لگتے تھے لیکن کچھ بے چین بھی تھے کہ پالیں گے کیسے اتنی مصروف زندگی کے ساتھ۔ ٹوینز کی پیچیدگیوں کی بھی خبر تھی سو کچھ مضطرب، کچھ حیران اور کچھ پریشان۔

خیر کمر کس لی اس خیال سے کہ ایک ہی دفعہ میں دو بچے مل گئے تو بعد میں اپنا کام یکسوئی سے کر سکیں گے۔ ماہم بی بی کو علم ہوا تو مت پوچھیے کہ اس نے کس کس قسم کی لڈی اور دھمال نہ ڈالا۔ بالی ووڈ کی فلمیں دیکھ دیکھ کر بڑے ہونے کا یہ تو کمال تھا۔

جی متلانے اور قے کرنے کا سلسلہ ہسپتال کی ڈیوٹیوں کے ساتھ جاری تھا کہ ایک دن شدید درد کی لہر پیٹ سے اٹھی اور کمر تک پھیل گئی۔ درد اس قدر ظالم تھا کہ ہم فوراً پیٹ پکڑ کر دوہرے ہو گئے۔ ساتھیوں نے پکڑ دھکڑ کے کرسی پر بٹھایا۔ پانی پلانے کی کوشش کی لیکن ہم تو ہونٹ بھینچے بیٹھے تھے۔ درد کی شدت پانچ سات منٹ کے بعد کم ہو گئی لیکن اتنی دیر میں وہ ہمیں بے حال کر چکی تھی۔ خیر ہمیں چھٹی دے دی گئی اور ہم آہستہ آہستہ ڈرائیو کرتے گھر پہنچ گئے۔

اب گھر کی کہانی بھی کچھ یوں ہے کہ ان دنوں ملتان میں ہم اکیلے رہا کرتے تھے۔ ہماری ریسرچ اور ٹریننگ کی بے حد مصروفیات کے باعث ماہم کو ملتان سے پنڈی نانی کے پاس کچھ مدت کے لئے بھیجا جا چکا تھا اور وہ وہیں سکول جا رہی تھی۔ شوہر نامدار کی پوسٹنگ گوجرانوالہ ہو چکی تھی اور وہ وہاں مقیم تھے۔ اب خدارا یہ نہ پوچھ لیجیے گا کہ حمل کیسے ہوا؟ گوجرانوالہ سرحد کے پار یا علاقہ غیر ہرگز نہیں تھا۔

خیر ہم بات کر رہے تھے اس درد کی جو ہمیں ہسپتال میں کام کے دوران ہوا اور ہم بمشکل گھر پہنچے۔ شام تک ہم ٹھیک ہو چکے تھے۔ فکرمند ہونے کی عادت کچھ کم ہے سو اپنے آپ کو خود ہی تسلی دے لی کہ کافی برسوں کے بعد حمل ہوا ہے سو رحم کچھ بیزاری دکھا رہا ہو گا۔ یہ بھی تو مشکل ہے نا ہم ڈاکٹروں کے ساتھ کہ بیمار پڑیں تو سوچتے ہیں کہ لوٹ پوٹ کے ٹھیک ہو ہی جائیں گے، اب کون بھاگے کسی اپنے جیسے کی طرف۔

نصف شب کا عالم، اندھیرا کمرہ، تنہائی اور بستر پہ درد سے تڑپتے ہم۔ درد کا یہ عالم کہ کسی خنجر و تلوار کی ضرب بھی کیا ہو گی؟ ایسے لگتا کہ کوئی بار بار ایک نوکیلی چیز سے پیٹ میں سوراخ کرتے ہوئے کمر سے باہر نکلتا ہے۔ منہ سے کراہیں نکلتیں اور ہم ماہی بے آب کی طرح تڑپتے۔ جسم پکا ہوا پھوڑا بن چکا تھا جو ہمیں بستر سے ہلنے نہ دیتا۔

چیخیں، آنسو، بے بسی اور تنہائی! یا اللہ کیا آخری وقت آن پہنچا؟ اگر ایسا ہے تو پھر دیر کس بات کی کہ یہ درد ہمارے دل کی دھڑکن بے ترتیب کرتا ہے اور ہر سانس آخری سانس لگتا۔

موبائل فون تو تھے نہیں کہ کسی سے رابطہ کیا جاتا اور سرکاری فون بھی لاؤنج میں دسترس سے باہر تھا۔

جب وہ نامعلوم قسم کا درد اپنے نوکیلے وار کر کے تھک چکا، تب تک ہم عالم غشی میں پہنچ چکے تھے۔ آنکھ کھلی تو اسی طرح بے سدھ بستر پہ پڑے تھے۔ جسم پتھر بن چکا تھا۔ مشکل سے گھسیٹتے ہوئے اپنے آپ کو بستر سے اٹھایا۔ پانی پیا، پھر چائے پینے کی خواہش ہوئی لیکن اتنی ہمت نہیں تھی کہ کچن تک پہنچ پاتے۔

صبح اٹھے تو جسم ایسے دکھ رہا تھا جیسے کسی نے خاردار تاروں پہ گھسیٹا ہو۔ حال دل کس کو سناتے اور کس سے مدد مانگتے سو چپ چاپ ہسپتال چل پڑے۔ چہرے کی زرد رنگت دیکھ کر بہت سوں نے جاننے کی کوشش کی مگر ہمیں اپنے درد پاس رکھنے کی عادت تھی۔ ابھی تک ہمیں اس تکلیف کی وجہ سمجھ نہیں آئی تھی، سوچا کہ ہو سکتا ہے کچھ غلط کھا لینے کی وجہ سے ہوا ہو۔ صبح سے تو طبعیت کچھ بہتر ہی ہے، یہ سوچ کر گھر واپس آ گئے۔

طبعیت نڈھال ہونے کی وجہ سے رات تک بستر پہ ہی رہے، کچھ سوتے جاگتے کی سی کیفیت تھی۔ نصف شب پھر آنکھ کھلی تو ایسا لگتا تھا کہ کسی نے بہت بلند پہاڑ کی چوٹی سے ہمیں نیچے پھینک دیا ہے اور اب ہم نوکیلی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکراتے نیچے کی طرف لڑھک رہے ہیں۔ ہر جنبش پہ ایک ضرب کا احساس تھا اور ہر ضرب کے بعد ایسا احساس کہ ہر مسام سے زندگی آہستہ آہستہ رخصت ہو رہی ہے۔ ایسی درد کی لہریں جو بے اختیار موت سے محبت کرنے پہ مجبور کرتی تھیں۔ کیا بے بسی تھی جو آنکھ میں پانی بھرتی تھی، حلق سے فریاد کرنے پہ مجبور کرتی تھی اور بس۔

صبح اٹھے تو اس قدر نڈھال تھے کہ ہسپتال جانے کے قابل ہی نہیں تھے۔ ملازم کے ہاتھ چھٹی کی درخواست بھجوائی گئی کہ نقاہت بہت بڑھ چکی تھی۔

شام ہوئی تو رات کے تصور ہی سے جھرجھری آ گئی۔ ابھی تک ہم اس تکلیف سے خود ہی نبٹ رہے تھے۔ اب سوچا کہ پروفیسر عطا اللہ کے کلینک جا کر مشورہ کیا جائے۔ گھر میں کوئی تھا ہی نہیں سو پھر ڈرائیو خود ہی کرنا پڑا۔

پروفیسر صاحب نے ہماری بات سنی اور پوچھا کہ بلیڈنگ تو نہیں ہوئی؟ ہمارا جواب نفی میں تھا۔

الٹرا ساؤنڈ کرتے ہوئے ان کے ماتھے پہ ایک شکن ابھر آئی جو کبھی گہری ہوجاتی اور کبھی ہلکی۔ ہم چپ چاپ ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔

” مجھے افسوس ہے کہ آپ کے لئے اچھی خبر نہیں“
وہ الٹراساؤنڈ کے بعد ہماری طرف مڑ کے بولے،
”ایک بچہ تو ٹھیک ہے لیکن دوسرے کا حجم سکڑ رہا ہے، دل کی دھڑکن بھی اب نظر نہیں آ رہی“
ہم کچھ دیر ساکت رہے،
”سر، کوئی وجہ؟“
”وجہ تو کچھ بھی نظر نہیں آتی۔ یہ درد شاید اس لئے ہو رہا ہے کہ رحم حمل کو گرانا چاہتا ہے“
”لیکن سر، درد آدھی رات کو ہی کیوں؟ میرا پہلے بھی ایک مس کیرج ہو چکا ہے، وہ اس طرح کا درد نہیں تھا اور زچگی کا درد بھی بھگت چکی ہوں۔ لیکن یہ درد تو کچھ الگ سا ہی ہے، روح کھینچ لینے والا“

”آپ ایسا کریں، کچھ دن کی چھٹی لے لیں اور میں کچھ دوائیں بھی لکھ دیتا ہوں“

ملتان کینٹ کی خوبصورت سڑکوں پہ گاڑی چلاتے ہوئے ہم سوچتے رہے کہ ابھی تو ہم ٹھیک سے خوش بھی نہیں ہوئے تھے، آنکھوں میں سجے سپنے بھی ابھی کچے تھے، جدائی کا سمے اس قدر جلد آن پہنچا؟

دیار غیر اور اجنبی شہر، حال دل کس سے کہتے، اپنے تو پاس تھے نہیں کہ گلے لگ کے دل کا بوجھ ہلکا کرتے، سو آنسوؤں کا نمک خود ہی حلق سے نیچے اتار لیا۔ اماں پنڈی میں ماہم کی ذمہ داری لئے بیٹھی تھیں اور شوہر گوجرانوالہ میں سرکار کی سو سوچا کہ کیا دور بیٹھے انہیں پریشان کریں، بھگت لیں گے ہم آپ ہی جو کچھ بھی ہوا۔

دوائیں تو ہم نے شروع کر دیں تھیں لیکن کچھ افاقہ نہ ہوا۔ رات کا ظلم ابھی بھی جاری تھا۔ نصف شب، آنکھ کھلنا، ہمارا رہ رہ کر تڑپنا، اور پھر نڈھال ہو کر بستر پہ پڑے رہنا، کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کریں؟

ایک ہفتہ یونہی لوٹ پوٹ کے پھر پروفیسر صاحب کے پاس پہنچے۔ الٹراساؤنڈ پہ ایک بچے کی تھیلی بے حد سکڑ چکی تھی جبکہ دوسرے بچے کی تھیلی اپنے حساب کے مطابق بڑھ رہی تھی۔ پروفیسر صاحب نے تسلی دی اور ایک ہفتے کی مزید چھٹی عطا کر دی۔

اگلا ہفتہ بھی یونہی تڑپ تڑپ کے گزرا۔ نہ تو درد میں کمی آتی تھی اور نہ ہی ہمارے ضبط میں۔ بے خوابی، درد اور کچھ کھونے کے احساس سے دل وحشت کا شکار ہو رہا تھا۔

ہفتہ ختم ہونے میں ابھی دو دن باقی تھے کہ جاں لیوا درد کی شدت میں کمی ہونا شروع ہوئی، ہم سمجھ گئے کہ کوئی رخصت ہونے کو ہے، ہم سے ملے بنا، ہمیں اپنا چہرہ دکھائے بنا۔

وہ چپ چاپ آیا، ہمارے جسم کا حصہ بنا، کچھ ہفتوں کے لئے اس کی سانس ہماری سانس میں شامل رہی، اس کا دل ہمارے دل کے ساتھ ساتھ دھڑکا۔ وہ جو بہت دور سے آیا تھا، ہمارا ساتھی بھی رہا لیکن پھر اپنی ماں کو ماں پکارے بنا الوداع کہہ گیا۔ اس نے رخصتی بھی اس شان سے لی کہ ماں کے رحم سے خارج ہونے کی بجائے وہیں کسی کونے میں اپنا مسکن بنا لیا، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔

اگلے الٹرا ساؤنڈ پہ صرف ایک بچہ دیکھا جا سکتا تھا۔

میڈیکل سائنس کے مطابق حمل کے ابتدائی مہینوں میں جڑواں بچوں میں سے ایک ٹوین کے ختم ہونے کی شرح اکیس فیصد تک ہو سکتی ہے۔ رخصت ہونے والے کو وینیشنگ ٹوین کہا جاتا ہے۔

ہم نے اپنے وینیشنگ ٹوین کو الٹرا ساؤنڈ پہ دیکھا، جہاں ہم اسے گلے نہیں لگا سکتے تھے، چوم نہیں سکتے تھے لیکن ہم نے اس کا دل دھڑکتے دیکھا بھی اور محسوس بھی کیا۔ اب کیسے بھولیں شہر بانو کے ساتھی کو؟

ہر روز نصف شب کو اٹھنے والے درد کی توجیہہ ہم کبھی تلاش نہ کر سکے۔ اسقاط حمل کا درد اتنے دنوں تک اتنی شدت کے ساتھ ایک ہی وقت کا پابند نہیں ہوا کرتا۔

شہر بانو اپنی ہر سالگرہ پہ بڑے اشتیاق سے ہم سے کچھ سوال ضرور پوچھتی ہے،
” اماں، میں جڑواں تھی نا“
”ہاں بیٹا، تھا ایک پرندہ تمہارا ہم سفر، جو منزل تک نہ پہنچ سکا“
”اماں وہ بہن تھی یا بھائی؟“

”بیٹا کیا خبر، اس نے تو بطن مادر کو چھوڑنا پسند ہی نہیں کیا“
”اس کا مطلب کہ وہ ابھی بھی یہاں ہے“
وہ ہمارے پیٹ کو ہاتھ لگاتی ہے،

”شاید“ ہم مسکراتے ہیں۔
”ہے ٹوین، سالگرہ مبارک“
وہ پیٹ پہ ہاتھ رکھے گا رہی ہے اور ہم زیر لب کہہ رہے ہیں،

”سالگرہ مبارک میری شہربانو کے ٹوین! سالگرہ مبارک، شہر بانو!“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments