زہریلے رویے، منافقانہ ماحول اور فرعونوں سے بھرا میڈیا


دو ہزار انیس کی بات ہے کہ جب لاہور پریس کلب کے الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد میں اپنے بڑے بھائی، محسن استاد میاں سرفراز صاحب کے ساتھ ان کے ایک دوست جو کیپیٹل ٹی وی میں اہم عہدے پر براجمان ہیں کو ملنے گئے تو وہاں پر ایک صاحب بیٹھے ملے جو اپنے کمپیوٹر کو کوس رہے تھے اور ساتھ ہی اظہار افسوس کر رہے تھے کہ کاش بیٹی کی بات مان کر ڈیجٹل میڈیا اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو سیکھ لیا ہوتا تو یہ حال نہ ہوتا۔ میں ان کو کمپیوٹر کے ساتھ باقاعدہ سے جنگ کرتے ہوئے انہماک سے دیکھ رہا تھا کہ میاں صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ ان صاحب کو جانتے ہیں میں نے نفی میں سر ہلایا تو انہوں نے بڑے احتراماً ذکر کیا کہ یہ فلاں صاحب ہیں کہ اور فلاں ادارے (بڑے میڈیا گروپ) کے کنٹرولر نیوز تھے مگر انہیں نکال دیا گیا اور اب یہ ان حالات میں اس چینل میں اس پوسٹ پر سر ڈھانپ کر بیٹھے ہیں۔

میں نے ان صاحب کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر افسوس کرتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کیا اور اعادہ کیا کہ جتنا جلد ہوسکا اس فیلڈ کو چھوڑ دینا ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ وہ صاحب آج کل ایک اچھے چینل میں اچھی پوسٹ پر موجود ہیں اور فرعون (فرعون اس وجہ کہ میں نے ان کا اپنے ماتحتوں کے ساتھ تذلیل آمیز رویہ دیکھا، کہ ایک سینئر ماتحت کو وہ کہہ رہے تھے کہ ان کی مرضی کے مطابق اب وہ اپنا کام چھوڑ کر ٹکر آپریٹری بھی سنبھالیں گے ) بن چکے ہیں۔

خیر چھوڑیں۔ مدعے کی طرف واپس آتے ہیں تو یہاں تک پڑھنے والے افراد سے میں گزارش کرتا چلوں کہ یہ تحریر میں بیان کیے گئے واقعات میری آپ بیتی اور میرے ساتھیوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا مجموعہ ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ تحریر کہیں شائع ہوتی ہے یا نہیں، امید ہے مدیران صاحبان اس تحریر کے متن پر نہیں بلکہ اس میں لکھے گئے مبالغے سے پاک حقائق کو مدنظر رکھ کر اس تحریر کو چھاپ دیں گے تاکہ نہ صرف عوام کو ان حالات و واقعات کا عمل ہو سکے جو اس فیلڈ میں آنے والے افراد کے نصیب میں آتے ہیں بلکہ ان نوجوان لڑکے لڑکیوں کو بھی پتہ چل سکے جنہوں نے اس فیلڈ کو اپنا مستقبل بنانے کا سوچ رکھا ہے۔

دو ہزار تیرہ کی بات ہے جب میں نیوزون میں کام کرتا تھا تو وہاں تنخواہوں کا بحران آیا ہوا تھا مجھ سمیت باقی ساتھیوں کا (پردیسی) یہ حال ہو چکا تھا کہ ہم کئی کئی دن کے فاقے کرتے ہوتے تھے، آفس بوائے جو کہ مسیح تھے ان کو ہمارے حالات کا اندازہ تھا تو کبھی وہ اپنے گھر سے پراٹھے بنا کر لاتا تھا کہ ماں جی نے بنا کر دیے ہیں خود بھی کھانا اور دوستوں کو بھی کھلا دینا۔ اسی طرح کبھی وہ اس چینل کے مارننگ شو کے لئے منگوائے گئے ناشتے میں سے چنے بچا کر رکھ دیتا تھا جو ہم تینوں دوست روٹیاں لے کر کھا لیتے تھے۔

یہ تب کا حال ہے کہ جب ہم انٹرن شپ نہیں بلکہ نوکری پیشہ ہو چکے تھے، انٹرن شپ کے حصول کے لئے بطور جنوبی پنجاب کے فرد اور سفارش کی عدم موجودگی میں جو پاپڑ بیلنے پڑے، حلیے اور لہجے پر جو مذاق اڑایا گیا وہ بیان کرنے کے لئے ایک علیحدہ سے تحریر لکھنی پڑنی۔ یہ حالات بیان کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہمدردیاں وصول کرنی ہیں یا پھر کچھ لوگوں کے ذہن میں آ رہا ہوگا کہ کامیابی کے لئے اور بھی لوگوں کو ان حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ کون سی نئی بات ہے۔

بہرحال اس کسمپرسی کی حالت میں ہمارے ساتھ کام کرنے والے خاتون رپورٹر نے ایک واقعہ سنایا کہ وہ جب تنخواہ کا پوچھنے کے لئے بیوروچیف کے پاس گئیں تو بیوروچیف صاحب نے مسکر اکر کہا کہ کیا آپ پچیس ہزار روپے تنخواہ کے لئے ہلکان ہو رہی ہیں، آج شام فری ہیں تو کہیں ڈنر کے لئے چلتے ہیں، تنخواہ کی پریشانی آپ کو نہیں رہنی۔ اب وہ خاتون جو اپنے والد کے حادثے میں پریشان ان صاحب کے پاس گئی تھیں، مزید پریشانی ساتھ لے آئیں۔ میری ساتھی کولیگ سمیر اشرف راجپوت نے حال ہی میں کالم لکھ کر خواتین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا ذکر کیا تو کئی مرد حضرات نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ مگر حقیقت میں اسی فیصد خواتین کو نہ صرف ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ نہ چاہتے ہوئے جگہ بنانے کے لئے دوستیاں اور ڈنر کرنے پڑتے ہیں۔

دو ہزار چودہ میں جب وقت نیوز جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں یہ حالات تھے کہ سینٹرل اسائنمنٹ ایڈیٹر جو رپورٹرز کی ماں سمجھا جاتا ہے ہوتے ہوئے بھی ایک رپورٹر نے میری اس وجہ سے تذلیل کی کہ میں نے انہیں۔ سر۔ نہیں بولا، بات تذلیل تک محدود نہیں رہی بلکہ باقاعدہ سے شکایت لگائی گئی اور مجھے بلا کر کہا گیا کہ ان کا تیس سال کا تجربہ ہے تو انہیں سر کہہ کر بولنے میں مضائقہ نہیں ہے۔ بہرحال لابنگ، منافقت بھرے ماحول کے بعد میں نے وہاں سے استعفی دے کر جان چھڑانے میں ہی عافیت جانی۔

قصہ یہاں تک ہی نہیں ہے بلکہ جب میں لاہور نیوز میں ملازمت کے لئے گیا تو وہاں موجود ہمارے سینئر نے باقاعدہ کال کر کے مجھے ریفر کرنے والے شخص کو شکایت کی کہ جب میں اسے کال کرتا ہوں تو یہ جی سر کہنے کے بجائے ہیلو کہتا ہے۔ قارئین اور مدیر صاحب کو اب لگنے لگا ہوگا کہ میں اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کر کے چھوٹی چھوٹی باتیں بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا۔ مگر جب اعلی تعلیم یافتہ نوجوان کو ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو نہ صرف وہ ذہنی پستی میں چلا جاتا ہے بلکہ ڈپریشن اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ اسی ادارے میں آفس بوائے کی جانب سے اخبار نہ دے جانے پر بھی پورے سٹاف کے سامنے تذلیل کروا کر بھی یہ سفر جاری رکھا کہ شاید اچھا وقت آ جائے۔

مگر نہیں آج دس سال اس فیلڈ میں گزار کریہ حال ہے کہ میری تیرہ ماہ کی تنخواہ نیچے لگی ہوئی ہے، عید آ چکی ہے مگر میں تنخواہ کے انتظار میں ہوں اور دعا گو ہوں کہ اس بار عید بغیر تنخواہ کے نہ گزارنی پڑے۔ جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لئے کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا ہوں جس کو چھپوانے کے لئے، ہم سب اور روزنامہ جلوس کے علاوہ ہر طرف سے دھتکارا جا چکا ہوں۔ فخریہ بتا سکتا ہوں کہ میں کالم بھیجنے کے جرم میں ہر بڑے اخبار کے وٹس ایپ سے بلاک کیا جا چکا ہوں۔

یہ ایک الگ بات ہے کہ ان اخباروں کے مدیران کی تحریریں اور تقریریں سنیں تو آپ کو لگے گا یہ فرشتے ہیں۔ اسی طرح سے تنخواہوں کے لئے میں جناب حامد میر صاحب، جناب اسد طور سمیت ہر وہ سینئر شخص جو ساتھی صحافیوں کے غم میں گھلے جا رہے ہوتے ہیں کئی دفعہ سوشل میڈیا پر التجا کرچکا ہوں مگر مجال ہے کہ انہوں نے اس معاشی دہشت گردی کا نوٹس بھی لیا ہوا۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ ہم جیسے کیڑے مکوڑے ان پر ہونے والے حملوں کے خلاف احتجاج کے لئے سڑکوں پر بھی موجود ہوتے، تحریریں بھی لکھتے اور سوشل میڈیا پر ٹرینڈز بھی بناتے۔

میڈیا میں زندہ رہنے کے لئے چار اوصاف کا ہونا لازمی ہے، نمبر ایک، آپ اپنی عزت گھر رکھ کر آئیں، نمبر دو۔ آپ کو خوش آمد میں ملکہ حاصل ہو۔ نمبر تین۔ جتنا جلد ہو سکے کسی لابی کا حصہ بن جائیں، چوتھی اور آخری صفت یہ ہونی چاہیے کہ آپ منافق ہوں، زیادہ منافق ہوں گے تو زیادہ جلدی مراعات حاصل کریں گے۔ وگرنہ حالات کو کوسنے دیتے اور میری طرح بیٹھ کر آگے کنواں اور پیچھے کھائی دیکھ کر اپنی چوائس کو بیٹھے کوس رہے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments