ڈی آئی جی کی محبوبہ ( 4 )


تیسری قسط کا آخری حصہ

اپنی شکست پر وہ رنجور تھے مگر ٹیپو نے اپنے بڑوں سے بات کر کے ٹوانہ صاحب کو بہت خاموشی سے لاہور میں ڈی آئی جی ریسرچ میں لگوا دیا۔ یہ کوئی ایسی بری پوسٹنگ نہ تھی۔ ٹہورٹہکا یوں بھی ٹوانہ صاحب کے مزاج کا حصہ نہ تھا۔ ٹوانہ صاحب کی جگہ جو نئے ڈی آئی جی صاحب تعینات ہو کر آئے وہ کچھ اور مزاج کے تھے پنجاب پولیس کے رنگ میں رچے بسے۔ ان کے دماغ میں جانے کیا آئی کہ انہوں نے ہر سطح پر اپنی نئی بساط بچھائی۔ ان کے اپنے پسندیدہ عملے کی تعداد معقول تھی انہوں نے کچھ کہنے سنے بغیر ظہیر کو ہیڈ کوارٹر سرنڈر کر دیا۔ لاہور میں رہائش کا مسئلہ تھا۔ وہ کسی دوست کے ساتھ رہتا تھا

٭٭٭         ٭٭٭

ٹوانہ جی نے اپنے ہم منصب ڈی آئی جی اسٹیبلشمنٹ کو فون کر کے معتمد خاص ظہیر کو تین ماہ کی چھٹی دلا دی۔ اتنی ریت مروت پولیس اور ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران میں تھی کہ وہ سرکاری گاڑیاں وغیرہ تبادلے یا ملازمت کے خاتمے کے بعد بھی اپنے پاس رکھ لیتے تھے۔ نائب قاصد اردلیوں اور پی اے کا بھی معاملہ ایسا ہی تھا۔ رکھیلوں کو البتہ وہ پرانی پوسٹنگز پر نئے آنے والوں کے لیے چھوڑ دیا کرتے تھے۔ ظہیر لاہور آیا تو ٹوانہ جی نے غیر سرکاری طور پر اسے اپنے دفتر کے کچھ معاملات اسے سونپ دیے۔ گھر جو سرکاری طور پر الاٹ ہوا تھا اس کی تزئین میں بیگم صاحبہ کا ہاتھ بٹھانے اور سودے سلف اور شعبہ مہمانداری بھی اسی کے ذمے لگادیا

ملتان میں اہل طاقت و اقتدار کے معاملات سیٹ ہو گئے۔ چیف منسٹر صاحب کو لگا کہ وہاں کے طاقتور سیاست دان اب پرانی تلخی کو بھلا چکے ہیں تو انہوں نے تین ماہ بعد ایک مال بناؤ رئیل اسٹیٹ ڈیولپر کی مرضی سے ٹوانہ صاحب کو کراچی کے ایک دوست کی سفارش پر ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر لگا دیا۔ ری سرچ یوں بھی ان کا میدان نہ تھا۔ وہ بھی جیسے حکم نامہ جاری ہونے کے لیے بے تاب تھے۔

ایک ماہ بعد ظہیر کو بھی انہوں نے اپنے پاس ہی پوسٹ کرا لیا۔ وہ رہتا بھی انہیں کے گھر کے آؤٹ ہاؤس میں تھا۔ لاہور میں آ کر ظہیر کو لگا کہ ٹوانہ صاحب ملتان جیسے نہیں رہے۔ صرف ان کا دکھاوا بہت مذہبی ہو گیا ہے۔ شام کو شراب بھی باقاعدگی سے پیتے ہیں۔ ہر شب کچھ خواتین اور دوستوں کی بھی آوک جاوک رہتی ہے۔ ناچ گانا بھی ہوتا ہے۔ مفت کی شراب سے ظہیر نے بھی گاہے بہ گاہے گھونٹ بھرنا شروع کر دیے یہ سوچ کر کہ کچھ تو جرات مردانگی کا احساس ہو۔

پولیس لائن کا یہ بنگلہ احاطے سے باہر سڑک کنارے تھا۔ ابتدا میں تو یہ ہی ڈی آئی جی کا دفتر ہوتا تھا مگر پھر افسروں نے دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر سامنے میدان کے اس طرف پریڈ گراؤنڈ اور گیراج کے ساتھ اپنا دفتر بنالیا اور اسے رہائش گاہ میں بدل لیا۔ اس کا مرکزی دروازہ پولیس لائن کے احاطہ میں کھلتا تھا مگر سہولت کے پیش نظر ایک چھوٹا گیٹ لب سڑک نکال دیا گیا تھا۔ پولیس کے عملے کے رہائشی کوارٹرز دوسرے کونے پر تھے۔ سڑک والا ظہیر دروازہ کھول دیتا تو سیڑھیوں سے چڑھ کر خاتون اوپر کی منزل میں پہنچ جاتی۔ کئی دفعہ ان نیک بیبیوں کو رکشہ میں لانے لے جانے کا بھی ذمہ اس کا ہوتا جس کی ٹوانہ صاحب کو شکایت بھی کی گئی کہ ان کا ماتحت Womaniser ہے بلکہ ایک حاسد نے جو پرانے ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر کے زمانے میں بہت مال بناتا تھا۔ تصویری ثبوت کے ساتھ یہ اطلاع بینو تک بھی کورئیر سروس تک پہنچائی۔ لفافہ کسی ٹیوب ویل مرمت کرنے والی کمپنی کا تھا۔ پتہ بھی انہیں کا درج تھا۔

ظہیر کے ساتھ خواتین کی تصاویر دیکھ کر وہ بہت محظوظ ہوئی۔ ظہیر کو اس نے چھیڑا بھی کہ وہاں لاہور میں کی کو نسی گولیاں ملتی ہیں کہ اتنے مرد بن گئے ہو۔ کبھی گھر کی حلال مرغی بھی حرام کی دال سمجھ کر چکھ لو۔ اس نے تریا چلتر کے حساب سے رونا دھونا بھی کیا کہ اس کے نصیب پھوٹ گئے۔ لگتا ہے جیسی پیدا ہوئی ویسی مرے گی۔ مردوں کو جھڑکیاں گالیاں دے کر جو کچھ شوہر کی امانت مان کر بچا یا وہ قبر کی مٹی کے سپرد ہو جائے گا۔ ہائے مجھ جنم جلی کے پھوٹے بھاگ۔ اس رانڈ رونے میں اس نے تین کزنز یعنی سلیمان، شیراز اور جمیل کے نام بھی لیے جو اس کے یعنی خاندان کی سب سے دلفریب حسینہ سے شادی کو مر رہے تھے اور اب جو سب ہی صاحب اولاد تھے

ظہیر کو جلانے کے لیے بینو نے بتایا کہ شیراز نے تو دیپال پور کی کسی بڑی عمر کی ڈاکٹرنی سبین وٹو کو پھنسا کر دوسری شادی کر کے اپنا میٹرنٹی ہوم کھول لیا ہے۔ وہاں اسقاط حمل کے کیسز کر کے بہت مال بنا رہا تھا۔ خود کے نام کے ساتھ کے ڈاکٹر بھی لکھنے لگا تھا۔ تین مہینے رہ کر چین سے ڈگری لے آیا تھا۔ ہسپتال میں شیراز اور شہر کے نام کے علاوہ ڈگری پر سب کچھ چینی زبان میں لکھا تھا۔ یہ ری سپشین کی میز کے اوپر لگی تھی۔ کلینک کا نام بھی سبین زچہ بچہ مرکز برائے ولادت و بہبود اطفال تھا۔ ساری رات یہ جھوٹ فریب کی کھلواڑ ہوتی رہی اور ظہیر اپنے اس دفتری ساتھی کی کمینگی کے باعث بیوی کے سامنے اپنی مردانہ کم مائیگی اور ایک ناکردہ گناہ کے باعث تھوڑا تھوڑا ہوتا رہا۔

بات کو گھمانے اور ٹالنے کے لیے ظہیر نے انکشاف کیا کہ ٹوانہ صاحب مال و منال کے چکر میں بھی بہت بری طرح پھنس گئے ہیں۔ دفتروں میں ایسی سرگوشیاں عام ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ٹوانہ صاحب ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر لگ کر کچھ زیادہ ہی قلعہ بند ہو گئے ہیں۔ ان کا دفتر میں وقت کم اور چیف منسٹر ہاؤس میں زیادہ گزرتا ہے۔ یہاں اسے دفتر کی بجائے پٹرول سپلائی کا گوشواروں کا کام دے دیا تھا۔ ہیڈ کوارٹر میں وہ پولیس کی گاڑیوں کی تیل کی پرچیوں کا حساب کتاب سنبھالتا تھا۔ ہر ماہ ٹوانہ صاحب اسے بھی دست خاص سے پچاس ہزار روپے دے دیا کرتے تھے۔ ان کا اپنا خود کا کیا حساب تھا وہ ٹھیکیداروں کے اور ان کے درمیان تھا۔

ظہیر کو حیرت اس بات کی تھی کہ لاہور میں انہوں نے اسے سرکاری گھر الاٹ کر کے نہیں دیا۔ یہ ان کے لیے چٹکی بجانے کا کھیل تھا۔ اسے اپنے پاس بنگلے پر ہی رکھا۔ ان کے شوق اپنے جگہ۔ بنگلہ کشادہ اور اچھا تھا مگر ظہیر کا دل نہ چاہا کہ وہ بینو کو یہاں لا کر رکھے۔ ٹوانہ صاحب عورتوں کے معاملے میں بدنظر اور بے اعتبارے تھے۔ وہ ان کی دل جوئی کے لیے جن خواتین کی ترسیل کا کام کرتا تھا ان کے بارے میں انہیں اسے علم تھا کہ سرکاری محکموں کی ملازم پیشہ خواتین سے لے کر دیگر شعبۂ ہائے زندگی اور گھریلو عورتیں سبھی شامل تھیں۔

یہاں لاہور میں اسے پہلے ہی ڈی آئی جی صاحب کا پنٹر سمجھا جاتا تھا۔ بینو بنگلے میں آن کر رہتی تو اس سے چہ مگوئیوں کا سلسلہ دراز ہونے کا خطرہ تھا۔ بینو کی جوانی کا اسے پتہ تھا کہ ایسی ہے کہ ذرا سی لفٹ کرا دے تو چین کے نر پانڈے بھی حکومت چین کی لیز پالیسی کے خلاف افزائش نسل کی خاطر بغاوت پر اتر آئیں (یاد رہے کہ دنیا بھر میں پانڈہ جو چین کا جانور ہے بین الاقوامی چڑیا گھروں کو دس لاکھ ڈالر سالانہ لیز پر دیا جاتا ہے۔ دوران لیز پیدا ہونے والے بچے بھی چینی حکومت کی ملکیت ہوتے ہیں )

ظہیر کے لاہور تبادلہ ہو جانے کے بعد چند دن بینو کے والد اس کے ساتھ ملتان رہے اور بعد میں وہ اسے لے کر واپس وہاڑی آ گئے۔ ایک آدھ ماہ کی اسکول سے چھٹی کوئی ایسا مسئلہ نہ تھا۔ ہیڈ مسٹریس پر اتنی دھاک تو بینو کی بھی تھی۔ اس دوران ظہیر نے ٹوانہ صاحب پر دوہرا دباؤ ڈالے رکھا کہ یا تو وہ اسے واپس ملتان ٹرانسفر کردیں یا لاہور میں اسے یہاں کوئی سرکاری کوارٹر لے دیں ورنہ سب سے آسان تو یہ ہوگا کہ بینو کو ملتان سے وہاڑی تبدیل کرا دیں۔

ٹوانہ صاحب سے وہ یہ تینوں مطالبات تواتر سے کرتا رہتا جس کا جواب ان کی جانب سے صرف یہ ہوتا کہ اتنا بڑا بنگلہ تمہارے حوالے ہے۔ بیگم صاحب یہاں لاہور میں ہوں تو اکثر اوپر کی منزل میں رہتی ہوتی ہیں ورنہ یہ گھر خالی ہوتا ہے۔ میں خود رات گئے گھر آتا ہوں۔ بیگم آج کل اپنے امی ابو کے پاس مردان زیادہ ہوتی ہیں تم اپنی بیوی کو اپنے پاس آؤٹ ہاؤس میں بلا کر رکھو یا یہاں نچلی منزل کے کسی کمرے میں۔ نو پرابلم۔

بیگم صاحبہ کی لاہور سے اس غیر حاضری کے بارے میں ظہیر نے ادھر ادھر سے کچھ افواہیں سن رکھی تھیں کہ بیگم صاحبہ کا اپنے علاقے کے کسی نوجوان ایس پی سے افئیر چل رہا ہے وہ زیادہ تر مردان اور اسلام آباد میں اس کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اس کے دھیان میں یہ بات آئی کہ ٹوانہ صاحب نے خاموشی سے شاید یہ سوچ لیا ہے کہ ان سے طلاق کے ذریعے چھٹکارا لے لیں۔ لڑائی جھگڑے سے بہتر ہے کہ وہ ایک نئی دنیا بسائیں۔ ایک بیٹا تھا۔ سو فیصلہ باعث آزار تو تھا پر ایسا کچھ مشکل نہ تھا۔

ایک رات جب ان کی من پسند خاتون نے آنے میں دیر کردی تو باتوں باتوں میں ٹوانہ صاحب نے قدرے راز داری سے بتایا کہ ہمارے بڑے پلان ہیں۔ یہاں کیا رہنا۔ یہ بھی کوئی ملک ہے۔ نہ بجلی، نہ پانی، نہ قانون کی حکمرانی۔ میں ایک چکر چلا رہا ہوں۔ ہم دونوں کینیڈا چلے جائیں گے۔ ابھی اس پر کسی سے بات نہ کرنا۔ باہر خالی ہات نہیں جانا۔ اپنا بزنس کریں گے۔ میری تمہاری فیملی سب کینیڈا شفٹ ہوجائیں گے۔ تمہاری بیگم کے والدین کو بھی بلا لیں گے مگر فوراً نہیں۔ کینیڈا کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے حاضر غائب سابق فوجی نیم فوجی مہاجر سندھی پٹھان پنجابی جانے کن کن افسروں کے نام لے ڈالے جو اب کینیڈا میں لوٹی ہوئی دولت سمیت آباد ہو گئے تھے۔ بتا رہے تھے کہ ویلفئیر اسٹیٹ ہے۔ نوکری نہ ہو تو بے روزگاری الاؤنس، مفت سرکاری علاج، اسکول سب ہی کچھ مفت۔ فوج سول سروس، کیا ملا کیا پانڈے، سب ہیں کینیڈا کی مٹی کے بھانڈے۔

ظہیر کو اس انکشاف کے بعد پتہ چل گیا کہ ڈی آئی جی صاحب اس کی اس تجویز کو کیوں بد دلی سے رد کر دیتے ہیں۔ ظہیر کو ایک دن اس وقت بڑی خوش گوار حیرت ہوئی جب انہوں نے بینو کے ملتان سے وہاڑی تبادلے کے لیے اسے خود ٹیپو صاحب سے رابطے کا کہا۔ ذہین انسان تھا بھانپ گیا کہ جو حلیہ اور Low-Key انداز ٹوانہ جی نے لاہور آن کر اپنایا ہے۔ سو معاملہ کچھ زیادہ ہی گمبھیر ہے۔ ظہیر کی ہچکچاہٹ دیکھ کر ٹوانہ جی نے البتہ اتنا ضرور کیا کہ ٹیپو کو فون کر دیا کہ وہ ظہیر سے مل لیں اس کا کوئی مسئلہ ہے۔ ان کی مدد درکار ہے۔

خفیہ لوگوں کے فون بھی اکثر unknown number والے اور بے اعتبارے ہوتے ہیں۔ ٹیپو جی سے کئی دن تک رابطہ نہ ہونے سے وہ مایوس ہو گیا تھا۔ بینو سے ملنے ایک لانگ ویک اینڈ کی وجہ سے وہ جمعہ کی شام سے وہاڑی آیا ہوا تھا۔ پیر کی بھی چھٹی تھی منگل کی صبح ظہیر کو لاہور واپس لوٹنا تھا۔ اتوار کی رات سامنے محلے میں ڈاہوں کے ہاں مہندی تھی۔ دلہن سے بینو کی اچھی گپ شپ تھی۔ دونوں کو گھر کے ڈرائیور ور کسی بزرگ خاتون کے ساتھ ملتان آنے جانے کی اجازت تھی۔

ظہیر اور بینو دونوں میاں بیوی وہاں گئے تھے۔ ناچ گانے کا آغاز ہی ہوا تھا کہ کسی بچے نے بینو کو آن کر بتایا کہ کوئی ٹیپو صاحب گھر آئے ہیں۔ دو تین گاڑیاں ہیں۔ اس کے ابو نے بلا بھیجا ہے۔ ظہیر بھائی نے کہا ہے۔ واپس چلو۔ ظہیر کو چونکہ انسداد دہشت گردی کے حوالے سے کارروائیوں کا علم تھا۔ ملتان میں تو وہی سارا خفیہ ریکارڈ سنبھالتا تھا۔ اسے اس بے وقتی آمد اور انداز پر کوئی حیرت نہ ہوئی۔ خواتین کے شامیانے کے باہر منتظر ظہیر کا اصرار تھا کہ ٹیپو جیسے بڑے لوگ آئے ہیں۔ مل لیں۔ تقریب تو تا دیر جاری رہے گی۔ ان کے جاتے ہی واپس آ جائیں گے۔ بینو کا دل تو نہ چاہا کہ وہ اتنی تیاری سے شرکت کے لیے آئی تھی۔ جب سے ظہیر کی لاہور میں آمدنی میں اضافہ ہوا تھا بینو کا ہاتھ بھی کھل گیا تھا ملتان میں کاریگر اچھے تھے۔ انٹرنیٹ اور سونی ٹی وی اور اسٹار پلس کے ڈراموں سے ڈریس دیکھ کر کاپی کرنا مشکل نہ تھا۔ لاہور جاتی تو لازما ً کسی نہ کسی بوتیک کے چکر ضرور لگاتی تھی۔ آج رات اس نے زعفرانی پیلے کی ساٹن کی کرتی۔ گلے اور آستین پر ایمبرائیڈری اور جارجٹ کا سبز شرارا سوٹ اور ویسا ہی ایمبرائیڈری والا دوپٹہ ڈال رکھا تھا۔

شادی کی تقریبات میں عورتوں کو سب سے کم سردی لگتی ہے سو آج رات بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ جب وہ تقریب میں شرکت کے لیے مردوں کی طرف سے ہو کر پنڈال میں جا رہی تھی تب بھی اس نے نوٹ کیا کہ ہندوستان فضائیہ کے لڑاکا طیارے اس وقت اگر وہاڑی کی فضاؤں میں منڈلا رہے ہوتے تو انہیں اس وقت اتنے ریڈار نہ گھور رہے ہوتے جتنے بینو کو پنڈال میں داخلے کے وقت مردوں کی نگاہوں نے دشمن کے لڑاکا طیارے سمجھ کر اپنے اسکرین پر گھیر رکھا تھا۔ عورتیں خوش ہوتی ہیں جب انہیں سلیقے سے تکا تاڑا جائے۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ ان مشتاقان دید و وصال کے جلوۂ عام کے لیے دو تین دفعہ بہانے بہانے مردانے کی طرف آئے گی۔ ظہیر سے چلتے وقت اس نے مراثنوں کو نیگ میں نوٹ دینے کے لیے بیس روپے کے نوٹوں کی ایک گڈی رکھوائی تھی۔ پرس اسی لیے وہ لے کر نہیں آئی تھی۔

اپنے گھر میں جب وہ داخل ہوئے تو ٹیپو اس کے ابو سے گپ شپ میں مصروف تھے۔ دونوں کی نگاہ ایک دوسرے پر پڑی تو بینو کو لگا کہ کسی جنگی طیارہ نے اچانک صوتی حدود توڑی ہیں۔ ایک زور دار دھماکہ Sonic- Boom اس کے وجود میں ہوا ہے۔ جس سے احتیاط، اجتناب اور دوریوں کے تمام پرندے خوف کے مارے اڑ کر ادھر ادھر پروازیں کر گئے ہیں۔ ٹیپو جی کو بھی لگا کہ انہوں نے عجائبات خدا شمار میں ہونے والے شمالی روشنیاں Tromso، Norway کی بجائے وہاڑی میں دیکھی ہین۔ فرق اتنا تھا کہ یہ ایک وجود نسواں تھا جس کا ہر عضو سخن سرا تھا۔ ایک ایسا بت مغرور جس نے ابھی لذت عاشقی و معشوقی نہیں چکھی تھی۔ مانو پردۂ خلوت میں مقیم ایک لیلیٰ مہجور اس کے سامنے تھی۔

ٹیپو بتانے لگے یہاں کسی آپریشن کے سلسلے میں آئے تھے۔ ٹیمیں اپنے کام میں مصروف ہیں۔ کہہ رہے تھے ٹوانہ صاحب کا تین دفعہ فون آ چکا ہے کہ مسز ظہیر کا کام لازماً ہونا چاہیے۔ لیڈی وائف کی ایک ماہ کی چھٹی ختم ہو رہی تھی۔ اسے ڈیوٹی کے لیے رپورٹ کرنا تھا۔ معاملہ یہ تھا کہ بینو کو وہاڑی میں ٹرانسفر کرانا تھا۔ ظہیر کی یہ بھی مرضی تھی کہ بینو کی چھٹی کی میعاد میں اضافہ ہو جائے۔ بینو کا خود کو یوں لیڈی وائف پکارا جانا بہت منفرد اور اچھا لگا۔

رات سردی کی تھی۔ پوچھنے پر کافی کی فرمائش ہوئی۔ لہذا بینو خود ہی کافی بنا کر لائی۔ تب پہلی دفعہ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ بینو کو لگا کہ جس بل فائٹر کے وہ سپنے دیکھتی تھی یہ وہی ہے۔ ویسا ہی سجیلا، پھرتیلا، خوش لباس، محتاط، پر اعتماد، نظریں نیچی رکھتا تھا مگر قدموں کی حرکت پر نگاہ۔ کافی بمشکل ختم ہوئی تھی کہ فون بج گیا۔ وہ کھڑا ہو گیا۔ اس نے انگریزی میں اعلان کیا کہ پندرہ منٹ۔ مجھے پہنچ لینے دو۔

ظہیر بجھ سا گیا کہ بات ہی نہیں ہوئی۔ بینو کا مسئلہ جوں کا توں ہی رہا۔ حل نہیں ہوا۔ دروازے پر گاڑی میں بیٹھتے وقت ٹیپو جی نے کہا وہ پرسوں منگل کی صبح لاہور جار ہے ہیں۔ ظہیر، بھابھی، امی، ابو سب ساتھ چلیں۔ بڑی جیپ ہے۔ شام کو وہاڑی واپسی ہے۔ وہاں لاہور میں بھی ایک دوست کا بنگلہ گاڑی ان کے پاس ہی رہے گی۔ ٹوانہ کو وہ کہہ دے گا کہ ظہیر کو فیملی کے ساتھ مزارات پر جانا تھا۔ دوران سفر بات ہوگی۔ چلتے وقت اس نے البتہ اتنا ضرور کہا کہ اتنی اچھی کافی تو سارے جنوبی پنجاب میں نہیں ملتی کیا یہ آخری کپ ہے۔ جس پر بینو کے ابو نے کہا وہاڑی میں اب یہ ان کا گھر ہے۔ جیسا ظہیر ویسے وہ۔ بینو کو لگا کہ اس ایک جملے کا مطلب ہے ٹیپو جی کو اس کے ابو نے اس گھر میں آمد کا Multiple Entry Visa دے دیا۔ ٹیپو چلے گئے تو وہ دونوں واپس ڈاہوں کے ہاں مہندی میں لوٹ گئے۔ مشتاقان دید و ہوس اب بھی ویسے ہی کاکی تاڑ بنے ہوئے تھے مگر بینو و واپسی پر یوں لگا کہ وہ ایک ایسی قیمتی پینٹنگ ہے جس کے نیچے آرٹ گیلری والوں نے نمائش کے افتتاح سے قبل ہی Already Sold کا اسٹکر لگا دیا ہے۔ بینو کا بس چلتا تو وہ نمائش میں تصویر کی جگہ یا کسی مقابلۂ حسن جیتنے پر خود ایک ایسا Sash پہن کر آ اتی۔ جس پر ساری دنیا کو جتانے کے لیے کھلا اور واضح طور پر درج ہوتا TAKEN

دلہن ضویا اس کی اسکول کی پرانی دوست تھی۔ اس نے بینو کا پہناوا، میک اپ دیکھ کر مذاق بھی کیا کہ لگتا ہے آج رات تے ظہیر بھائی جان نے پھٹے چک دینے نے (پنجاب میں ان دنوں جب سکھوں کے جتھے گوریلا جنگ کے دوران انگریزوں پر حملہ کرتے تھے۔ ایسے میں وہ نہروں پر لکڑی کے ان تختوں جنہیں پھٹے کہتے ہیں کے عارضی پل بناتے تھے۔ حملوں سے واپسی پر وہ یہ پل توڑ دیتے تھے۔ پھٹے چکنا وہیں سے آیا۔)

بینو نے بھی شرارت سے جواب دیا کہ بھائی جان کا آج پیور سلک کے جوڑے پر ٹھنڈی استری کا پروگرام ہے۔ عورتوں کو ذومعنی گفتگو میں بہت ملکہ حاصل ہوتا ہے۔ وہ جو پہلے سیشن کی بے قراری و دکھاوا تھا وہ بھی یک گونہ اطمینان بھری یقین دہانی میں بدل گیا۔ نہ تو اس نے مردوں کی طرف پنڈال کے پھیرے لگائے نہ مراثنوں کو نیگ دی۔ جب وہ کمرے میں کپڑے بدل رہی تھی کرتا آئینے میں سینے کے سامنے لہرا کر گا رہی تھی۔ میرا جلوہ جس نے دیکھا وہ میرا ہو گیا میں ہو گئی کسی کی کوئی میرا ہو گیا۔ ظہیر نے کمرے میں داخل ہوتے وقت پوچھا کہ اچھا اتنی بڑی واردات ہوئی اور ہم کو پتہ بھی نہ چلا۔ جس پر کرتا بیڈ پر پھینک کر اپنے بے باک، مدور سینے سمیت وہ ظہیر سے لپٹ، گلے میں بانہیں ڈال کر گنگنانے لگی

میڈا سانول مٹھڑا، شام سلونا
من موہن جانان وی توں۔

میرے جانو تم کہاں جانو کہ محبت نغموں، دعاؤں اور کہانیوں میں گھر بناتی ہے۔ بینو کا یہ اہتمام کہیں اور ہوتا تو پرانی دوست ضویا ڈاہا کی پھٹے چک دینے والی بات سچی نکلتی مگر ظہیر کے ساتھ یہ معاملہ محض سلگتے صحرا پر برسات کا ایک بے فیض چھڑکاؤ ثابت ہوا

(جاری ہے)

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments