گول مارکیٹ، راہبائیں، کراچی سینٹرل اور تباہ شدہ کراچی


” ذرا دوڑ کر دھنیا تو لا دو، پیسے چھوٹے پرس میں ہیں اور ہاں اکیلے مت جانا“ ۔ امی نے باورچی خانے سے آواز لگائی۔ دوست کے ہمراہ بھاگم بھاگ گول مارکیٹ، ناظم آباد پہنچے۔ سبزی والا سفید اجلے مخصوص لباس میں ملبوس راہبہ کے ساتھ بھاؤ تاؤ کر رہا تھا۔ راہبہ دھیمے لہجے میں سبزیوں کے بھاؤ طے کر رہی تھی۔ اب تک انگریزی فلموں، ڈراموں اور ٹی وی سیریلز میں ہی عیسائی راہباؤں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ جیتا جاگتا سامنے دیکھ کر خوش گوار تاثر قائم ہوا، لیکن ذہن میں یہ سوال کلبلایا، کہ یہ آئی کہاں سے ہیں؟ سبزی خرید کر راہباؤں کی ٹولی آگے بڑھ گئی۔ اور ہم متجسس کیفیت میں مبتلا دوست کے ساتھ دھنیا خرید کر، اسی موضوع پر بات چیت کرتے گھر کی طرف تیزی سے روانہ ہو گئے۔

موسم سرما اور گرمیوں کی چھٹیوں میں کھیل کود کے علاوہ ایک سرگرمی یہ بھی ہوتی تھی، کہ جب بھی موقع ملتا یا دل چاہتا، اورنگ آباد ریلوے سٹیشن، ناظم آباد کا چکر لگا آتے۔ کھوٹے یا ایک یا دو پیسے کے سکے ساتھ رکھتے اور ٹرین آنے سے پہلے سکے کو پٹری پر رکھ دیتے۔ ٹرین سکے پر سے گزر جاتی تو کچلا اور پچکا ہوا، سکہ دیکھ کر محظوظ ہوتے۔ جب تک ٹرین کی آمد نہیں ہوتی، پلیٹ فارم پر مٹر گشت کرتے۔ ٹرین کے آنے جانے کے اوقات دیکھتے اور سٹیشنز کے نام پڑھتے۔ چار آنے کا اس زمانے میں سرکلر ریلوے کا یک طرفہ کرایہ ہوتا تھا۔ اور مسافروں کو ماہانہ پاس بنوانے کی سہولت بھی حاصل ہوتی تھی۔

موسم سرما کی چھٹیوں میں بڑے بھائی اور خالہ زاد بھائیوں کا پروگرام بنا کہ گھر کے قریب واقع پہاڑی کی چوٹی پر اس جانب سے چڑھا جائے، جہاں ’Beyond the last mountain‘ نامی فلم کا نام چونے سے پہاڑی پر لکھا ہے۔ مذکورہ فلم جناب جاوید جبار صاحب نے بنائی تھی۔ سو، پہلے بڑی خالہ کے گھر ناظم آباد نمبر 5 پہنچے۔ کھانے پینے کی چیزیں تیار تھیں۔ سامان ساتھ لیا اور پہاڑی کی جانب روانہ ہو گئے۔ بآسانی منزل سر ہو گئی۔ پہاڑی کی چوٹی پر بیٹھ کر کھایا پیا، باتیں کیں، مزید پروگرام بنے اور پھر گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔

یہ وہ زمانہ تھا، جب دو چار میل دور جانے کے لیے بس، موٹر سائیکل اور گاڑی میں سفر سے اجتناب کیا جاتا تھا۔ اب تو ان پہاڑیوں پر قبضہ کر کے نا جائز گھر بنا لیے گئے ہیں اور پہاڑی کی چوٹی پر بیٹھ کر فی زمانہ فائرنگ اور قتل و غارت گری کی جاتی ہے، جب شہر کے حالات خراب ہوں۔ اب تو مشہور زمانہ و بد نام کٹی پہاڑی بڑی خالہ کے گھر کی چھت سے ہی دیکھ لیتے ہیں، اب کبھی اس طرف جانے کا اتفاق نہیں ہوتا اور نہ جانے کی خواہش جاگتی ہے۔

اگلا پروگرام کراچی سینٹرل بذریعہ سرکلر ٹرین جانے کا بنا۔ غلیلیں، ائر گنز، مچھلی پکڑنے کی ڈور اور کانٹوں کے ساتھ کھانے پینے کا سامان لے کر سگے بڑے اور خالہ زاد بھائیوں کے ساتھ اورنگ آباد ریلوے سٹیشن پہنچے۔ ٹرین میں سوار ہوئے۔ پہلا سٹیشن شمالی ناظم آباد کا آیا۔ اس کے بعد لیاقت آباد اور پھر کراچی سینٹرل کا سٹیشن آیا۔ اس دفعہ ٹرین میں راہبائیں بھی ہمارے ساتھ سوار تھیں۔ اور ہمارے ساتھ ہی کراچی سینٹرل کے ریلوے سٹیشن پر اتریں۔ میرا کراچی سینٹرل جانے کا پہلا اتفاق تھا۔ جب سٹیشن سے باہر نکل کر دیکھا تو ہر سو ہریالی پھیلی ہوئی تھی۔ موسم انتہائی خوش گوار تھا۔ ہلکی ہلکی پھوار کے ساتھ خنکی کا احساس بھی ہو رہا تھا۔

چاروں طرف کھیت ہی کھیت تھے اور کاشت کار مکرانی بلوچ تھے۔ کھیتوں کے درمیان صاف و شفاف ندی بہہ رہی تھی۔ کھیتوں کے درمیان ہی گرجا گھر بھی نظر آیا، یوں راہباؤں کی جائے رہائش و عبادت کا بھی پتا چل گیا۔ یہ گرجا گھر ابھی بھی اسی مقام پر قائم کی ہے۔ لیکن کھیت کھلیان سب آبادی کے جنگل کی نظر ہو چکے ہیں۔ ہر طرف فلیٹس کی عمارتیں ہیں۔ اور جہاں کھیت ہوتے تھے، وہاں اب رہائشی کالونیاں بن گئیں ہیں۔ موسم سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری ٹولی میں سے کوئی مچھلی پکڑنے بیٹھ گیا اور جو بڑے تھے، وہ ائر گنز اور غلیلیں لے کر پرندوں کے شکار کو قرب و جوار میں نکل گئے۔

ندی کا پانی انتہائی صاف و شفاف تھا۔ کنارے پر مچھلیوں کے بچے تیرتے پھر رہے تھے۔ اب تو اس ندی کا پانی بد بو دار اور کالا سیاہ ہو چکا ہے۔ ندی میں شاپرز اور دیگر الا بلا چیزیں تیرتی پھرتی ہیں۔ اور کناروں پر کچرے کے ڈھیر کے ساتھ نا جائز کچی آبادیاں بھی قائم ہو گئیں ہیں۔ عدالت عظمی نے کراچی کے ندی نالوں کے اطراف کچی آبادیاں ڈھانے کا حکم تو جاری کیا ہوا ہے۔ اور تھوڑا بہت محکمہ اینٹی انکروچمنٹ نے عدالتی حکم پر عمل در آمد بھی کیا ہے۔

جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں این ایل سی کے قائم ہوتے ہی جہاں ریلوے کا بھٹا بیٹھنے کا آغاز ہوا، وہیں کراچی میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد میں آمد سے نا جائز کچی آبادیاں اور مسجد و مدرسے قائم ہوئے۔ اور ساتھ ہی ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کا بھی آغاز ہوا۔ 1981 میں منی بسیں چلنی شروع ہو گئیں اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ٹرانسپورٹ مافیا کی ملی بھگت سے سرکلر ریلوے کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اب تو سرکلر ریلوے لائنز کے اطراف بھی زمینوں پر قبضہ ہو گیا ہے، جو سرکلر ریلوے کی بحالی میں بڑی رکاوٹ ہے۔

مقام افسوس یہ ہے، کہ کراچی میں جب نا جائز آبادیاں قائم ہو رہی تھیں، ٹرانسپورٹ مافیا کا راج قائم ہو رہا تھا، سرکلر ریلوے تباہی کا شکار تھی، سہراب گوٹھ پر منشیات اور اسلحے کے اڈوں پر جب منشیات اور اسلحے کے ڈھیر لگ رہے تھے اور شہری پریشان تھے، اس وقت کراچی کی نمائندہ جماعتیں کون سے سیاسی اور جنگی جہاد میں مصروف تھیں، کہ کراچی شہر اور اس کے شہریوں کی سن گن ہی لینا بھول گئیں۔

ڈھیروں عوامی شکایات اور احتجاج پر سابق گورنر سندھ جنرل جہاں داد کے حکم سے سہراب گوٹھ میں پولیس نے نالے کے قرب و جوار میں قائم منشیات اور اسلحے کے اڈوں میں آپریشن کلین اپ کیا۔ جس کا رد عمل جرائم پیشہ افغان مہاجرین نے فوری طور پر دیا اور 14 دسمبر 1986 سانحہ قصبہ کالونی و علی گڑھ وقوع پذیر ہوا۔ بشری زیدی کیس اور سانحہ قصبہ کالونی و علی گڑھ کالونی کے بعد خصوصاً شہر کراچی لسانی فسادات کا مرکز بن گیا۔ اور عروس البلاد کہلانے والے شہر کے نصیب میں اندھیرے لکھ دیے گئے۔

اب جب کبھی خاندان کے ہمراہ گاڑی میں ان علاقوں سے گزر ہوتا ہے، جو کبھی ہرے بھرے، صاف ستھرے اور خوب صورت اور پر امن ہوتے تھے، تو بچوں کو گئے وقت کے کراچی کے قصے سناتا ہوں، تو تعجب کرتے ہیں۔ اور افسوس ہوتا ہے، کہ نئی نسل کو ہم کیسا گندا سندا، بے ہنگم اور تباہ شدہ کراچی دے کر جا رہے ہیں، جہاں کے شہریوں میں نہ اب پہلی جیسی اپنائیت ہے اور نہ کراچی کا شہری ہونے پر فخر ہے۔ گو کہ آپریشن کلین اپ کے بعد شہر کراچی کی رونقیں بحال ہیں۔ لیکن کراچی کے نواحی اور مضافاتی علاقوں کی خوب صورتی ختم ہو چکی ہے۔ جگہ جگہ کچی آبادیاں قائم ہیں۔ جو کراچی کے بین الاقوامی شہر ہونے کے تاثر کو زائل کرتی ہیں۔ اور ایک تباہ حال شہر کا منظر پیش کرتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments