مرد جب شیو لنگ بن جائے


”صدیوں پرانے کٹاس راج میں جن کہانیوں نے جنم لیا مہا بھارت ان سے بھری پڑی ہے۔ ہماری دھرتی پر جنم لینے والے اس مذہب میں صرف دیومالائی داستانیں ہی ہیں یا ان کا اصل انسانی زندگی سے کوئی تعلق بھی ہے؟“

میرا سوال سن کر وہ پریشان ہو گیا۔ طارق مجھے بہت گہرا شخص لگ رہا تھا۔ مقامی لوگ کہتے تھے کہ وہ مخبوط الحواس ہے۔ کئی دنوں سے وہ میرے ساتھ تھا۔ میں نے کوئی ایسی بات نہیں دیکھی تھی جس سے اس کے ذہنی خلل کا اندازہ ہوتا۔ پاکستانی گائیڈ عام طور پر بہت کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ آثار قدیمہ کے بارے میں وہ متعصبانہ اور رٹی رٹائی باتیں سنا کر لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔ وہ ان سب سے بہت مختلف تھا۔ جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تو وہ مندر میں دیواروں کو گھور رہا تھا۔ پھر اس نے زمین پر پڑے ایک چھوٹے سے پتھر کو اٹھا کر تلاش کرنا شروع کر دیا کہ وہ کہاں سے گرا ہے؟ تالاب کے اس پار مزدور کام کر رہے تھے۔ بھاگ کر ادھر گیا، تھوڑا سیمنٹ اٹھایا اور لا کر پتھر کو دیوار پر اس کی جگہ پر جڑ دیا۔

وہ سارا دن یوتھ ہاسٹل کے باہر پڑا رہتا۔ زائرین کی طرف دیکھتا بھی نہیں تھا۔ جونہی میں کمرے سے باہر نکلتا بھاگ کر میرے پاس چلا آتا۔ مجھے بھی اس سے خاص انسیت ہو گئی تھی۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ ان مندروں کے بارے میں بہت معلومات رکھتا ہے اور سیاحوں کو دلچسپ کہانیوں میں مسحور کر کے باقی ساتھیوں کی نسبت زیادہ کمائی کر سکتا ہے۔ لیکن کوئی بھی اس کے دل تک رسائی حاصل نہ کر سکا تھا۔ میرے ساتھ آنے والے کچھ اور لوگ بھی طارق کی اس صلاحیت سے واقف ہوچکے تھے۔

وفد میں شامل ہندو کہتے تھے اس کی باتوں سے یہ وہم ابھرتا ہے کہ وہ بھی ان دیوتاؤں کی طاقت کو حقیقت جانتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میرے سوال سے وہ پریشان ہو گیا۔ کہنے لگا۔ ”میں زیادہ پڑھا لکھا تو ہوں نہیں، نہ ہی میں نے مہا بھارت پڑھی ہے۔ بہت سی باتیں سن رکھی ہیں۔ نہیں جانتا کہ ان میں کتنا سچ ہے؟ آج رات میں آپ کو اس مندر کی ایک کہانی سناؤں گا۔ ایک سچی کہانی۔“

کہانی ہے ایک کبیر نامی گائیڈ کی۔

ملک کیا تقسیم ہوا، ہر طرف اجاڑا پڑ گیا۔ ’بندہ بندے دا دارو‘ کی بجائے ’بندہ بندے دا مارو‘ بن گیا۔ بھائی بھائی کا گلا کاٹنے لگا۔ اس علاقے میں بہت سے ہندو رہتے تھے۔ سب مندروں کو چھوڑ کر چوا سیدن شاہ میں جمع ہو گئے جہاں سے فوجی لاریوں میں انہیں واہگہ کے راستے ہندوستان پہنچا دیا گیا۔ کبیرے کا باپ اس وقت دس بارہ سال کا ہوگا۔ وہ ہندوستان نہیں جانا چاہتا تھا۔ کئی مہینوں تک پھلاہی اور پہاڑی کیکروں کے جنگل میں چھپا رہا۔

دن میں جنگلی بیر اور رات کو سیدن شاہ شیرازی کے مزار سے بچا کھچا لنگر لے کر کھا لیتا۔ پھر اس نے دھرتی ماتا کو چھوڑنے کی بجائے دھرم چھوڑ دیا اور دربار پر پناہ لے لی۔ جوان ہوا تو ایک ملنگنی سے شادی کر لی جس کی کوکھ سے کبیرے نے جنم لیا۔ پہلے پہل ہندوستان سے یاتری آتے تو وہ ان سے ملنے چلے جاتے۔ اپنے رشتہ داروں کے بارے میں پوچھتے اور انہیں مندروں کی سیر کرواتے۔ پھر لاہور والی جنگ کے بعد یاتری آنا بھی بند ہو گئے۔

بہت سال گزر گئے۔ کوئی بھولا بھٹکا مسافر ان مندروں کی طرف آ جاتا ورنہ ان کھنڈرات کی اونچی نیچی دوب میں شنکر بھگوان کے کالے پھنئیر ناگ جھومتے رہتے۔ ناگ دیوتا کے ان بیٹوں، شیو شنکر کے چیلوں کی پھنکار نے کٹاس کے اس امرت کنڈ کو اگن کنڈ بنا دیا تھا۔ ان کے خوف سے مقامی لوگوں نے ادھر آنا چھوڑ دیا۔ ان حالات میں بھی کبیرا روزانہ بروگی شیو مہاراج کی آنکھ سے ٹپکے آنسو سے بنی اس جھیل کے پاس ضرور آتا۔ اس کو دیکھ کر ناگ بھی راستہ چھوڑ دیتے۔ شام کی عبادت کے لیے وہ منہ ہاتھ اکثر اسی جھیل کے پانی سے دھوتا۔

پھر ایک دن ایک عورت حسن مکرم، شعلہ مجسم، لچکا لچکا بدن، موٹی موٹی آنکھیں مٹکاتی گاڑی سے اتری اور مندروں کی طرف چل پڑی۔ سڑک کے اس پار مسجد کے چبوترے پر بیٹھے کبیرے نے دیکھا تو بھاگ کر اس کے پاس پہنچ گیا۔ اس جیسی حسین عورت ہم نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

پاربتی نام تھا اس کا۔ پاکستان میں موجود مندروں کے بارے میں تحقیق کر رہی تھی۔ روزانہ صبح ادھر پہنچ جاتی اور سارا دن ان عمارتوں کی بھول بھلیوں میں کھوئی رہتی۔ فرشی سنگ پاروں اور راستے کے ان گھڑے پتھروں کو یوں دیکھتی جیسے ان کی عبادت کر رہی ہے۔

اس کے دو ہی کام تھے، مندروں کی تصویریں بنانا یا کبیرے سے ان کے بارے میں پوچھتے رہنا۔ وہ پاربتی کو ایک ایک کونے میں لے کر جاتا اور اسے ہر مورتی کی مکمل کہانی سناتا۔ پہلی بار ہمیں پتا چلا کہ در و دیوار پر پھول بوٹے نہیں دیوتاؤں کی لیلائیں نقش ہیں اور یہ سب کتھائیں کبیرے کے دماغ میں منقش ہیں۔ اس کے پاس انوکھی انوکھی معلومات تھیں۔ پاربتی اس کی باتوں میں کھو جاتی۔ اس کے معصؤم سندر مکھڑے پر نظریں جمائے کھڑی باتیں سنتی رہتی۔ وہ بہت اچھا داستان گو تھا۔

”ستی دیوی نے اپنے محبوب خاوند شیو دیو کی توہین برداشت نہ کرتے ہوئے باپ کی سلگائی ہوئی یجنا کنڈ میں چھلانگ لگا دی۔ شیو نے اپنی بیوی سے بروگ پایا تو وہ ٹوٹ کر رویا۔ اس کی آنکھوں کی برسات یہاں بھی برسی اور یہ کٹک شا (آنسوؤں کی لڑی) وجود میں آئی۔“

پاربتی پوچھتی ”یہاں اتنے سانپ کیوں ہیں؟“

”سناتن دھرمی ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ بھگوان شنکر کا ظہور اس جگہ پر ہوا۔ یوں ان کی جائے ظہور سے ایک چشمہ پھوٹ نکلا جس سے امرت بہنے لگا۔ بھگوان شنکر سانپوں کا بادشاہ ہے اس لیے کٹاس راج جھیل سانپوں سے بھری پڑی ہے۔“

”یہ سانپ بہت خطرناک ہوں گے ؟ یہ تمہیں نہیں کاٹتے؟“

”نہیں۔ یہ بھگوان کے چیلے ہیں۔ یہ جانتے ہیں کہ ہر طرف وہ ہی وہ ہے۔ یہ سرب مے بھگوان (سب میں بسنے والا خدا) کا نام جپنے والے ہیں۔ ہمہ اوستی کو پہچانتے ہیں اور ان کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کو بھی یہ شاذ و نادر ہی گزند پہنچاتے ہیں۔“

کبیرہ تو دیوانا تھا ہی پاربتی بھی مست ہو کر اس کی باتین سنتی رہتی۔ اب وہ کبیرے کو اپنے ساتھ ہی لے جاتی۔ اس وقت صرف کلر کہار میں ایک دو ریسٹ ہاؤس ہوتے تھے، وہ وہاں ٹھہری ہوئی تھی۔ ساری ساری رات وہ باتیں کرتے رہتے۔ وہ اپنے خاوند سے ناراض ہو کر آئی تھی۔ ایک دن اس نے صاف بتا دیا کہ کسی رشی نے اسے کہا ہے کہ اگر وہ کٹاس راج میں شیو لنگ کی پوجا کرے تو اس کا کام بن سکتا ہے؟

”کون سا کام؟“
”تم کنوارے ہو، تمہیں کیسے بتاؤں؟“
یہ بتاو میں تمہاری مدد کیسے کر سکتا ہوں؟
”کیا شیو لنگ ادھر موجود ہے یا دیوی دیوتاؤں کے دوسرے مجسموں کی طرح اسے بھی غائب کر دیا گیا ہے؟“

اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ وہ اپنے پیٹھم پر موجود ہے۔ کوئی انہیں جدا نہیں کر سکتا۔ شر پسندوں نے کوشش کی ہوگی کیونکہ اس پر توڑ پھوڑ کے نشانات موجود ہیں۔ ”

”وہ کہاں ہے؟“
”شیو کا مندر مرکزی عمارت سے دور جھیل کے دوسرے کنارے پر واقع ہے۔ اسے مستقل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔“
”وہ کیوں؟“

”ایک مرتبہ کچھ مقامی عورتیں رات کے اندھیرے میں ادھر دیکھی گئیں تو شہر میں فتور پڑ گیا۔ اس کے بعد دروازے کو اینٹوں سے چن دیا گیا۔“

”مقامی عورتیں؟“

”صدیوں سے اس جگہ سال کے دوسرے مہینے میں شیو جی کے میلے کی روایت ہے۔ ہندو، مسلم سب اس میلے میں شرکت کرتے تھے۔ ہندوؤں کی نقل مکانی کے بعد میلہ تو ختم ہو گیا لیکن مقامی لوگ ابھی بھی احتراماً ان دنوں میں ادھر اکٹھے ہوتے ہیں۔“

کچھ توقف کے بعد اس نے بتانا شروع کیا۔

”ستی دیوی کے فراق میں پریشان شیو جنگلوں میں برہنہ گھوم رہے تھے۔ ان پہاڑیوں پر رشیوں اور منیوں کا بسیرا تھا۔ ان کی عورتیں شہوت کے سبب مہادیو سے لپٹ گئیں۔ یہ دیکھ کر رشی اور منی سخت ناراض ہوئے اور مہاراج کو شراپ دیا۔ شیو کا لنگ کٹ کر پاتال میں گر گیا۔ ہر طرف آگ ہی آگ بھڑک اٹھی۔ ترلوک کا بندوبست درہم برہم ہو گیا۔ سب بھسم ہوتا جا رہا تھا۔ دیوتا پریشان ہو کر دیوی پاروتی کے پاس آئے۔ پاروتی دیوی ستی دیوی کا ہی دوسرا جنم تھی۔ دیوتاؤں نے ساری کتھا سنائی اور مدد چاہی۔ دیوی پاروتی نے خود کو یونی کی شکل میں ڈھال کر لنگ کو دھارن کر لیا۔ تب کہیں آگ ٹھنڈی پڑی اس طرح تینوں لوکوں کا نظام درست ہوا۔ شیو کو اس کی چہیتی بیوی ستی، پاروتی کی شکل میں دوبارہ مل گئی۔ ان کے بھوگ سے ہی تمام پرانوں کا جنم ہوا۔

وید کہتے ہیں اگر پتی پتنی میں کھنڈت پڑ جائے تو پتنی اس استھان پر لنگ پوجا کرے۔ مہاراج اس سنکٹ سے مکتی دلا دیں گے۔ زن و شوہر کے وواہک جیون میں خوشیاں بھر دیں گے۔ دونوں پریم بندھن میں بندھ جائیں گے۔ ”

”میری بھی یہی سمسیا ہے۔ کیا تم میری مدد کر سکتے ہو؟“
”کیسی مدد؟“
”میں لنگ پوجا کرنا چاہتی ہوں۔ کیا تم مجھے اس مندر میں لے کر جا سکتے ہو؟“

کبیرے نے سر جھکا لیا۔ اس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں۔ ایک دو مرتبہ بے چینی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا، اس کی آنکھوں میں گھبراہٹ تھی یا تردد؟ وہ ہیجان زدہ تھا یا خوف زدہ؟ پاربتی اسے عجب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ پھر وہ اٹھی اور اس سے لپٹ گئی۔ بانہوں کے گھیرے میں لے کر بولی ”میں جنم جنم کی پیاسی، میری مدد کرو۔“

کبیرے نے اس کا ہاتھ جھٹکا اور باہر چلا آیا۔ اندھیری رات میں کئی کوس پیدل چلتا ہوا شری رام جی کے مندر کی چھت پر آ کر بیٹھ گیا۔ دور سامنے شیو جی کا مندر نظر آ رہا تھا۔ پیچھے گھومتا تو رام مندر کا کلس اور اس کے گنبد کے گرد پھن پھیلائے سانپوں کا شبیہیں دکھائی دیتیں۔

پھر وہ غائب ہو گیا۔ باربتی اسے ڈھونڈتے رہی۔ ایک دن جھیل کے پاس نظر آیا تو اس کے پاس بیٹھ گئی۔ وہ دھیمی آواز میں گویا ہوا، جیسے سرسراتی سرگوشی پھن اٹھا کر چل رہی ہو۔

”میں دبدھے میں پڑ گیا ہوں۔“

سرجھکائے ادھر ادھر دیکھتا رہا۔ ”کاش میں نے کچھ نہ کہا ہوتا۔ تم نے کچھ سنا نہ ہوتا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ تم ادھر آئی ہی نہ ہوتیں یا میں نے تمہیں دیکھا ہی نہ ہوتا۔“

پھر اس نے لمبی سانس لی۔ کافی دیر سینہ پھلائے بیٹھا رہا جیسے جھیل میں ڈوب کر مر جانا چاہتا ہو۔

” شیو دیو خود ہر وقت پوجا میں مصروف ہوتے ہیں۔ اکیلی عورت کو لنگ چھونے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس سے مہاراج کا دھیان بٹ جاتا ہے اور پوجا بھنگ ہو جاتی ہے۔ صرف پھاگن کے مہینے، اماوس کی کالی سیاہ رات میں یہ پوجا ہو سکتی ہے۔“

وہ پھر خاموش ہو گیا۔ پاربتی نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
”اب کیسا تردد، کیسا وسوسہ، ہونی ہو کر رہتی ہے۔ اب میں کیوں دبدھے میں دود گیا ہوں؟“

اٹھ کر ٹہلنا شروع کر دیا۔ پوہ ماگھ کی ٹھنڈی نم ہوا اس کے رخساروں کو چھو رہی تھی۔ واپس آ کر منہ پر یخ بستہ پانی کے چھینٹے مارے۔ اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ جلتی آنکھوں کو دیکھ پاربتی کے اعصاب حس میں جلن شروع ہو گئی۔

” ایک زیر زمین راستہ مندر کو جاتا ہے۔ ہاں! میں اس راستے سے تمہیں اندر لے جا سکتا ہوں۔ مجھے بھی ساتھ جانا ہوگا۔ سارا راستہ کڑیالے ناگوں سے بھرا ہوگا۔“

پھر وہ کالی سیاہ ’شیو راتری‘ آ گئی۔

دونوں ایک چھوٹی سی شمع ہاتھ میں لیے سرنگ میں داخل ہو گئے۔ ہر طرف ڈھائی گھڑیے، سنگ چور، کڑیالے سانپ پھنکار رہے تھے۔ شیش ناگ پھن کاڑھے بیٹھے تھے۔ اس کو دیکھ کر سب بھاگ پڑے۔ تاریک اور بھیانک مندر جہاں سالوں روشنی کا گزر نہیں ہوا تھا، ننھی سی روشنی کی کرنوں سے جگمگا اٹھا۔ مندر کے بیچوں بیچ ایک شیو لنگ موجود تھا۔ اس کے گرد کنڈل مارے ناگ دیوتا کی شبیہ تھی۔ سنگ تراشی کا اعلیٰ شاہکار گرد و غبار کی موجودگی میں بھی واضح نظر آ رہا تھا۔

بادلوں کی اوٹ سے ماہ کامل صاف دکھائی دے رہا تھا۔ پاربتی نے ساڑھی کے پلو سے مجسمے کو صاف کیا۔ اپنے ساتھ لائی بوتل سے سامنے پڑے دیے میں گھی انڈیل کر اسے جلایا۔ التی پالتی مار کر سامنے بیٹھ گئی اور اشلوک پڑھنا شروع کر دیے۔ جوں جوں دیے کو روشنی بڑھ رہی تھی اس کی زبان بھی تیز ہوتی جا رہی تھی۔ ماتھا ٹیک کر اٹھی اور ساڑھی کھول کر لنگ سے لپٹ گئی۔ انگ انگ کو اس کے ساتھ مس کر رہی تھی۔ اندام کو رگڑ رہی تھی۔ ہر ہر حرکت سے ناآسودہ خواہشات کی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔

ایسی خواہشات جو سیراب ہو کر بھی پیاسی کی پیاسی ہی تھیں۔ مندر کی دیواروں پر اضطرار و اضطراب کی شبیہیں گریا کناں تھیں۔ تشنہ آرزویں بند توڑ کر بہہ نکلیں۔ کافی دیر کے بعد وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ چہرہ جنسی تپش سے دھک رہا تھا۔ اس کو دیکھ دیکھ کر کبیرے کا پنڈا بھی پھڑکنے لگا۔ ریڑھ کی ہڈی کے نچلے حصے میں سرسراہٹ ہونے لگی۔ پیٹھ میں بیٹھے ناگ نے بھی کیچلی بدلنا شروع کر دی تھی۔ اس نے پاربتی کو پکڑ کر اپنی آغوش میں لے لیا۔ اس کے لمس نے خون میں ہیجان برپا کر دیا۔ کہنے لگا

”پاربتی تیری چاہت میرے تن بدن میں آگ لگا رہی ہے۔ دیکھ میرا پورا جسم لنگ بن چکا ہے۔ آ! اپنی پیاس بجھا لے۔ اس سلگتی شب میں اپنے ارمان پورے کر لے۔“

کبیرے نے اسے اور زور سے اپنے ساتھ بھینچ لیا۔

پھر یکایک گرفت ڈھیلا پڑ گئی۔ اس نے اپنی ٹانگ جھٹکنا شروع کر دی۔ پاربتی نے پریشانی سے اس کی طرف دیکھا۔ آنکھیں درد و کرب سے لبریز تھیں۔ وہ اپنے ہاتھ سے شیو لنگ کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ پاربتی نے شیو لنگ کی طرف دیکھا تو کالا سیاہ ناگ اس کے گرد ساڑھے تین کنڈل پورے کر کے اپنا پھن گاڑ چکا تھا۔

٭٭٭٭

کہانی سنا کر طارق خاموش ہو گیا۔ میں حیرت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے سگریٹ سلگائی اور لمبے کش لینے لگا۔ وہ نظریں جھکائے بیٹھا رہا۔ خاموشی کو توڑتے ہوئے میں نے پوچھا۔

”یہ کہانی کٹاس راج میں لکھی گئی چاروں ویدوں میں سے کس وید ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍمیں پائی جاتی ہے؟“

اس کے ہونٹوں پر درد بھری مسکراہٹ بکھر گئی۔

کہنے لگا ”صاحب یہ ناگ جو یونی کے اوپر بیٹھا، شیو لنگ کے گرد لپٹا نظر آ رہا ہے، یہ راکھا ہے لنگ اور یونی کا۔ اس شکتی کا، اس خزانے کا جو یہاں دفن ہے۔ وہ مورکھ بھول گیا تھا کہ اس ناگ کی موجودگی میں کوئی سارق اس خزینہ غائب تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہ کہانی ہر وید، ہر صحیفے، ہر پوتھی میں لکھی ہوئی ہے۔ تم سچ مانو یا نہ مانو، تمہاری مرضی۔“ یہ کہہ کر وہ واپس چل پڑا۔

میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کے پاؤں کے اوپر قریب قریب دو زخموں کے نشان شعلے بکھیر رہے تھے۔
(مرکزی خیال ماخوذ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments