دوسرے کی بیوی


عبدالجبار کو دوسروں کی بیویاں اچھی لگتی تھیں۔ وہ جب بھی کسی دوست، رشتے دار یا ہمسائے کی بیوی کو دیکھتا تو نہ جانے کیوں اس کا دل گدگدانے لگتا، دماغ سنسنانے لگتا اور بدن کپکپانے لگتا۔ اکثر و بیشتر اس کی اس کیفیت کا دوسروں کی بیویوں کو اس وقت تک پتہ نہ چلتا جب تک اس کی نگاہیں ان کے ریشمی بدن کو کاٹتی ہوئی ایسے پیچیدہ زاویے بنانے لگتیں کہ جن میں کوئی بھی زاویہ قائم نہ ہوتا، بس ترچھے سے بنتے ہوئے راستے ہوتے اور ان پر دوڑنے والی برقی روئیں ہوتیں، جو ان کی جلد کے مساموں سے ہوتی ہوئی سیدھا دل کی دیواروں پہ حملہ کرتیں، ایسے میں دوسروں کی بیویاں یا تو حیران نگاہوں سے اسے دیکھتیں اور اس ساری پیچیدہ جیومیٹری کو سمجھنے کے بجائے جبار بھائی جبار بھائی کا راگ الاپنے لگتیں کہ عبدالجبار کی کاٹتی ہوئی نظروں سے بچنے کے لیے اس سے بہتر ڈھال انہیں میسر نہیں ہوتی۔

اور جو کمزور بیویاں ہوتیں تو بیٹھتے ہوئے دل کے ساتھ زمین کو تکنے لگتیں اور دل تک آنے والی ان برقی لہروں کو نظروں ہی نظروں سے زمین کے سینے میں اتار دیتیں، ایسے میں وہ اکثر بڑی ہی بے تابی سے اپنے پیروں سے زمین کو کریدنے بھی لگتیں اور عبدالجبار کو یوں گمان ہونے لگتا کہ جیسے وہ اس کی نظروں کی حدت سے پگھل رہی ہیں مگر شرم و حیا کی شدت سے زمین میں گڑ رہی ہیں۔

عبدالجبار کا یہ حال ایسا نیا بھی نہیں تھا۔ اسے بچپن میں بھی کبھی اپنے کھلونے بہت دیر تک پسند نہیں آتے تھے، جلد ہی وہ خود کے کھلونے ایک طرف ڈال کر اپنے دوستوں کے کھلونوں پہ حملہ کر دیتا تھا اور پھر جب وہ بڑا ہوا تو مجال ہے جو کبھی اپنی بہنوں کے کاموں میں ہاتھ بٹایا ہو، ہاں محلے میں یا دوستوں کی بہنوں کے تمام کاموں میں آگے آگے رہتا، چاہے وہ اسکول، کالج کے داخلے ہوں یا عید کی شاپنگ ہو، چاہے وہ مہینے بھر کا سودا سلف ہو یا شادی بیاہ کی رسمیں ہوں، عبدالجبار ہر معاملے میں پیش پیش رہتا۔

پھر ایسا بھی نہیں تھا کہ عبدالجبار کی بیوی خوبصورت نہیں تھی، خوبصورت تو وہ اس قدر تھی کہ عقل کا اندھا بھی اس کے حسن کی تعریفیں کرتا، تبھی تو اس نے خاندان بھر سے لڑ کر خاندان کے باہر کی لڑکی سے بیاہ کیا تھا۔ مگر شادی کے چند مہینوں میں ہی اس کی پرانی روش نئی خواہشوں پہ غالب آنے لگی۔ شروع میں تو اس کی بیوی بچپن کی عادت سمجھ کر نظر انداز کرتی رہی مگر جب اسے پتہ چلا کہ عبدالجبار بچپن میں بھی اپنے کھلونے چھوڑ کر صرف دوسروں ہی کے کھلونوں سے کھیلتا تھا اور شادی سے پہلے بھی دوسروں کی بہنوں کے کام صرف اسی لیے کرتا تھا کہ وہ دوسروں کی بہنیں تھیں تو اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا۔ گھر کشتی کا میدان بن گیا، آئے دن جھگڑے ہونے لگے، پہلے برتن ٹوٹے اور پھر گھر۔

طلاق کے بعد عبدالجبار نے سکون کی سانس لی۔ جہاں جہاں نظروں کے تیر چھوڑے تھے وہیں دل جوڑنے لگا۔ چوری کی محبتیں اسے اچھی لگتی تھیں، ڈاکے کے مال پہ عجیب خوشی کا احساس اسے ہوتا تھا۔ جلد ہی اس کی زندگی پرانی ڈگر پہ تھی۔ وہ کبھی بھی اوروں کی بیویوں کو طلاق پہ نہیں اکساتا تھا، ملکیت کے تو تصور سے بھی اسے چڑ تھی۔ سال ڈیڑھ سال میں اس کا جہاں جہاں بس چلا اس نے ہاتھ صاف کر دیا مگر پھر کچھ ہی عرصے میں اس کی طبیعت یکسانیت سے اچاٹ ہونے لگی۔

دل میں ایک بے کلی سی رہنے لگی۔ کئی دنوں میں یہ خیال رہنے لگا کہ اب کسی ایسے شخص کی بیوی سے ملا جائے جسے جانتا نہ ہو۔ جسے کبھی ملا نہ ہو، جسے کبھی بھی دیکھا نہ ہو۔ اس خیال کہ آتے ہی آس پاس کے شاپنگ سینٹروں اور سنیما گھروں کے چکر لگانے لگا۔ کچھ دنوں تک تو کچھ بھی ہاتھ نہ آیا مگر بالآخر ایک دن اس کی نظریں پتھرا گئیں، دل گدگدانے لگا، دماغ سنسنانے لگا اور بدن کپکپانے لگا۔

سنیما گھر کی بھیڑ کو کسی بھی طرح چیر کر وہ اس خوبصورت عورت تک پہنچ ہی گیا جو کسی کی نئی نویلی دلہن تھی، جس کا حسن کسی عقل کے اندھے کی بھی آنکھوں کو خیرہ کر دیتا۔ ایک انجانے شخص کے پاس کھڑی اس کی نئی نویلی دلہن کے پاس پہنچ کر اس نے حیرانی سے تھوک نگلا اور پھر چیرتی ہوئی پر شوق نگاہوں سے اپنی طلاق یافتہ بیوی سے کہا۔ تو تم اب ان کی بیوی ہو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments