فوج کی ناکام بغاوت کو پانچ برس مکمل، ترکی میں کیا کچھ بدل چکا ہے؟
ترکی میں جمعرات کو عام تعطیل ہے جس کا مقصد فوجی بغاوت کو ناکام کرنے والے افراد کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے۔
فوجی بغاوت کی کوشش اور اس کے خلاف ہونے والی مزاحمت کے دوران لگ بھگ 250 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ بغاوت کے الزام میں اب تک سیکڑوں فوجی افسران، ججز اور پراسیکیوٹرز کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
ایردوان نے جلاوطن ترک رہنما فتح اللہ گولن پر بغاوت کا الزام عائد کیا تھا جو اس وقت امریکہ میں موجود ہیں تاہم وہ اس الزام کی تردید کرتے رہے ہیں۔
Today marks the 5th anniversary of the day the Turkish nation stood up against and defeated treacherous plotters who attempted to destroy our democracy & constitutional order. We commemorate with respect our citizens who made the ultimate sacrifice.🇹🇷#15July#VictoryofDemocracy pic.twitter.com/TTeO0s1eBo
— Turkish MFA (@MFATurkiye) July 15, 2021
گزشتہ پانچ برس میں اب تک ہزاروں افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے جب کہ ایک لاکھ 40 ہزار سے زیادہ کو یا تو نظر بند یا انہیں ملازمتوں سے برطرف کیا جا چکا ہے۔
گزشتہ پانچ برس میں ترکی میں میڈیا پر بھی کڑی حکومتی نگرانی ہے اور درجنوں میڈیا آرگنائزیشنز کو بند کیا جا چکا ہے۔
بغاوت کے مبینہ منصوبہ سازوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، مخالف سیاست دانوں کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن نے صدر ایردوان کی اقتدار پر گرفت مزید مضبوط کر دی ہے۔
بغاوت کی ناکام کوشش کو ایک برس مکمل ہونے سے قبل ہی ایردوان نے ایک ریفرنڈم کے ذریعے ترکی کے پارلیمانی جمہوری نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کیا تھا۔
انہوں نے معمولی سبقت سے ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کی تھی جس کے بعد وہ اکثر اہم امور پر صدارتی حکم نامہ جاری کرنے کا اختیار استعمال کرتے ہیں۔
The treachery that Turkey faced on July 15, 2016 unified our nation even further and made Turkey stronger. We must always preserve and foster a democracy of which our martyrs and veterans would be proud. #15TemmuzDIŞ #TürkiyeGeçilmez #15Temmuz #VictoryofDemocracy pic.twitter.com/bMCYkzXKZe
— Turkish Embassy DC (@TurkishEmbassy) July 13, 2021
ترکی کے وزیرِ دفاع ہلوسی اکار نے منگل کو کہا تھا کہ فتح اللہ گولن کے نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ترکی نے 23 ہزار 364 فوجیوں کو برطرف کیا ہے۔
ترک وزیرِ داخلہ سلیمان سوئیلو کے مطابق 2016 کے بعد تین لاکھ 21 ہزار سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا گیا تھا جن میں سے بیشتر کو رہا کر دیا گیا ہے۔
فتح اللہ گولن کے نیٹ ورک سے تعلق کے الزام میں تقریباً چار ہزار ججز اور پراسیکیوٹرز کو نظربند کیا گیا جب کہ ایک لاکھ سے زیادہ ان ملازمین کو یا تو برطرف کیا گیا یا معطل کیا گیا جو پبلک سیکٹر کے ملازمین تھے۔
We will never forget the attacks made on our nation on the night of July 15, 2016, and the selfless actions of thousands of Turkish heroes who saved our nation’s future. #15TemmuzDIŞ #TürkiyeGeçilmez #15Temmuz #VictoryofDemocracy #15TemmuzDemokrasiveMilliBirlikGünü pic.twitter.com/I0kClzQkb6
— Turkish Embassy DC (@TurkishEmbassy) July 14, 2021
ترکی میں 15 جولائی 2016 کی بغاوت کے بعد شروع ہونے والا کریک ڈاؤن اب بھی جاری ہے اور اس کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں۔ کیوں کہ بدھ کو ہی صدر ایردوان نے کہا ہے کہ جب تک بغاوت کرنے والے آخری شخص کو ٹھیک نہیں کر لیا جاتا اس وقت تک یہ مہم جاری رہے گی۔
دوسری جانب ترکی میں قانون کی بالادستی اور مخالفین کے خلاف کارروائیوں نے ترکی کے مغربی اتحادی ملکوں کے درمیان تعلقات اور معیشت کو متاثر کیا ہے۔
مبصرین کے مطابق ایردوان نے بغاوت کی کوشش کی ناکامی کو اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔
اس خبر میں معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).